Ayats Found (6)
Surah 28 : Ayat 7
وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰٓ أُمِّ مُوسَىٰٓ أَنْ أَرْضِعِيهِۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِى ٱلْيَمِّ وَلَا تَخَافِى وَلَا تَحْزَنِىٓۖ إِنَّا رَآدُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ
ہم نے موسیٰؑ کی ماں کو اشارہ کیا کہ "اِس کو دودھ پلا، پھر جب تجھے اُس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس واپس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے1"
1 | یعنی پیدا ہوتے ہی دربار میںڈال دینےکاحکم نہ تھا، بلکہ ارشاد یہ ہوا کہ جب تک خطرہ نہ ہوبچےکودودھ پلاتی رہو۔ جب راز فاش ہوتا نظر آئے اوراندیشہ ہوکہ بچے کی آواز سُن کریا اورکسی طرح دشمنوں کواس کی پیدائش کاعلم ہوجائیگا، یاخود بنی اسرئیل ہی میں سے کوئی کمینہ آدمی مخبری کر بیٹھے گا، تو بےخوف وخطر اس ایک تابوت میں رکھ کردریا میں ڈال دینا۔ بائیبل کابیان ہے کہ پیدائش کےبعد مہینے تک حضرت موسٰیؑ کی والدہ ان کو چھپائے رہیں۔ تلمود اس پر اضافہ کرتی ہے کہ فرعون کی حکومت نے اس زمانے میں جاسوس عورتیں چھوڑ رکھی تھیں جواسرئیل گھروں میں اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے لےجاتی تھیں اوروہاں کسی نہ کسی طرح ان بچوں کورُلادیتی تھیں تاکہ اگرکسی اسرئیل نےاپنے ہاں کوئی بچہ چھپارکھاہو تووہ بھی دوسرے بچے کی آواز سن کر رونے لگے۔ اس نئے طرز جاسوسی سےحضرت موسٰیؑ کی والدہ پریشان ہوگئیں اورانہوں نے اپنے بچے کی جان بچانے کےلیے پیدائش کےتین مہینے بعد دریا میں ڈال دیا۔ اس حد تک ان دونوں کتابوں کابیان قرآن کےمطابق ہے۔ اوردریا میں ڈالنے کی کیفیت بھی انہوں نےوہی بتائی ہے جوقرآن میںبتائی گئی ہے۔ سورۃطٰہٰ میں ارشاد ہواہے اِقْذِفیہِ فی التّابُوتِ فَاقْذِفیہِ فی الْیَمِّ، ’’بچے کوایک تابوت میں رکھ کردریا میں ڈال دے‘‘۔ اسی کی تائید بائیبل اورتلمود بھی کرتی ہیں۔ ان کابیان ہے کہ حضرت موسٰی کی والدہ نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکر ابنایا اوراسے چکنی مٹی اوررال سےلےکر پانی سے محفوظ کردیا، پھر اس میں حضرت موسیٰ کولٹا کردریائے نیل میںڈال دیا۔ لیکن سب سے بڑی بات جو قرآن میں بیان کی بیان کی گئی ہے اس کا کوئی ذکر اسرئیل روایات میں نہیں ہے، یعنی یہ کہ حضرت موسٰی کی والدہ نے یہ کام اللہ تعالیٰ کےاشارے پرکیا تھااوراللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کو یہ اطمینان دلادیا تھا کہ اس طریقے پرعمل کرنے میںنہ صرف یہ کہ تمہارے بچےکی جان کوئی خطرہ نہیںہے، بلکہ ہم بچے کوتمہارے پاس ہی پلٹا لائیں گے، اور یہ کہ تمہارا یہ بچہ آگے چل کرہمارارسول ہونےوالاہے۔ |
Surah 20 : Ayat 40
إِذْ تَمْشِىٓ أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُۥۖ فَرَجَعْنَـٰكَ إِلَىٰٓ أُمِّكَ كَىْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَـٰكَ مِنَ ٱلْغَمِّ وَفَتَنَّـٰكَ فُتُونًاۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِىٓ أَهْلِ مَدْيَنَ جِئْتَ ثُمَّ عَلَىٰ قَدَرٍ يَـٰمُوسَىٰ
یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، "میں تمہیں اُس کا پتہ دوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟" اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اِس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آ گیا ہے اے موسیٰؑ
Surah 28 : Ayat 13
فَرَدَدْنَـٰهُ إِلَىٰٓ أُمِّهِۦ كَىْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اس طرح ہم موسیٰؑ1 کو اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا2، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے
2 | اوراللہ کی اس حکیمانہ تدبیر کافائدہ یہ بھی ہوا کہ حضرت موسٰیؑ فی الواقع فرعون کے شاہزادے نہ بن سکےبلکہ اپنےہی ماںباپ اوربہن بھائیوں میںپرورش پاکرانہیں اصلیت اچھی طرح معلوم ہوگئی ۔ اپنی خاندانی روایات سے، اپنےآبائی مذہب سے، اوراپنی قوم سے ان کارشتہ نہ کٹ سکا۔ وہ آل فرعون کے ایک فرد بننے کےبجائے اپنے دلی جزبات اورخیالات کےاعتبار سے پوری طرح بنی اسرئیل کے ایک فردبن کراُٹھے۔ بی ﷺ ایک حدیث میں فرماتے ہیں مثل الذی یعمل ویحتسب فی صنعتہ الخیرکمثل ام موسٰی ترضع ولدھاوتاخذاجرھا۔ ’’ جوشخص اپنی روزی کمانے کےلیے کام کرے اوراس کام میں اللہ کی خوشنودی پیش نظر رکھے اس کی مثال حضرت موسٰیؑ کی والدہ کی سی ہے کہ انہوں نے اپنے ہی بیٹے کودودھ پلایا اوراس کی اجرت بھی پائی‘‘۔ یعنی ایسا شخص اگرچہ اپنااوراپنے بال بچوں کاپیٹ بھرنے کےلیے کام کرتا ہےلیکن چونکہ وہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر رکھ کرایماندار سے کام کرتا ہے، جس کےساتھ بھی معاملہ کرتا ہے اس کاحق ٹھیک ٹھیک اداکرتا ہے،اوررزق حلال سے اپنے نفس اوراپنے بال بچوں کی پرورش اللہ کی عبادت سمجھتے ہوئے کرتا ہے ، اس لیے وہ اپنی روزی کمانےپربھی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوتا ہے گویا روزی بھی کمائی اوراللہ سے اجروثواب بھی پایا۔ |
1 | بائیبل اورتلمود سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کانام ’’موسٰی‘‘ فرعون کےگھرمیںرکھاگیاتھا۔ یہ عبرانی زبان کانہیںبلکہ قبطی زبان کالفظ ہےاوراس کے معنی ہیں’’میں نےاسے پانی سے نکالا‘‘ قدیم مصری زبان سے بھی موسٰیؑ کے نام کی یہ تخریج صحیح ثابت ہوتی ہے۔ اس زبان میں’’مو‘‘ پانی کوکہتے تھےاور’’اوشے‘‘کامطلب تھا’’بچایاہُوا‘‘۔ |
Surah 21 : Ayat 87
وَذَا ٱلنُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَـٰضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِى ٱلظُّلُمَـٰتِ أَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَـٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا1 یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا2 اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے3 آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا 4"نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا"
4 | یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید |
3 | انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر تو عذاب آنے والا ہے ، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تا کہ خود بھی عذاب میں نہ گھر جاؤں ۔ یہ بات بجائے خود تو قابل گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابل گرفت تھا |
2 | یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور ان کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا |
1 | مراد ہیں حضرت یونسؑ ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ’’ ذولنون‘‘ اور ’’ صاحب الحوت ‘‘ یعنی ’’مچھلی والے ‘‘ کے القاب سے یاد کیا گیا ہے ۔ مچھلی والا انہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے ، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا، جیسا کہ سورہ صافات آیت 142 میں بیان ہوا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، یونس ، حواشی 98 تا 100 ۔ الصٰفّٰت ، حوشی 77 تا 85 |
Surah 21 : Ayat 88
فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ وَنَجَّيْنَـٰهُ مِنَ ٱلْغَمِّۚ وَكَذَٲلِكَ نُـۨجِى ٱلْمُؤْمِنِينَ
تب ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اِسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں
Surah 29 : Ayat 33
وَلَمَّآ أَن جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِىٓءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالُواْ لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْۖ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا ٱمْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ ٱلْغَـٰبِرِينَ
پھر جب ہمارے فرستادے لوطؑ کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور دل تنگ ہوا1 اُنہوں نے کہا 2"نہ ڈرو اور نہ رنج کرو ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بچا لیں گے، سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے
2 | یعنی ہمارےمعاملہ میں نہ اس بات سےڈرو کہ یہ لوگ ہماراکچھ بگاڑسکیں گےاورنہ اس بات کےلیےفکرمندہوکہ ہمیں ان سےکیسےبچایاجائے۔یہی موقع تھاجب فرشتوں نےحضرت لوؑط پریہ رازفاش کیاکہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتےہیں جنہیں اس قوم پرعذاب نازل کرنےکےلیےبھیجاگیاہے۔سورہٴ ہود میں اس کی تصریح ہےکہ جب لوگ حضرت لوؑط کےگھرمیں گھسےچلےآرہےتھےاورآپ نےمحسوس کیاکہ اب آپ کسی طرح بھی اپنے مہمانوں کوان سےنہیں بچاسکتےتوآپ پریشان ہوکرچیخ اُٹھے کہ لَوْاَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْاوِیْ اِلٰی رُکُنٍ شَدِیْدٍ،’’کاش میرےپاس تمہیں ٹھیک کردینے کی طاقت ہوتی یاکسی زورآورکی حمایت میں پاسکتا‘‘۔اس وقت فرشتوں نے کہا یَالُوْطُ اِنَّارُسُلُ رَبِکَ لَنْ یَّصِلُوْآ اِلَیْکَ،’’اے لوط،ہم تمہارے رب کےبھیجےہوئےفرشتےہیں،یہ تم تک ہرگزنہیں پہنچ سکتے‘‘۔ |
1 | اس پریشانی اوردل تنگی کی وجہ یہ تھی کہ فرشتےبہت خوبصورت نوخیزلڑکوں کی شکل میں آئےتھے۔حضرت لوؑط اپنی قوم کےاخلاق سےواقف تھے،اس لیےان کےآتے ہی وہ پریشان ہوگئےکہ میں اپنےاِن مہمانوں کوٹھیراؤں تواس بدکردارقوم سےان کوبچانامشکل ہے،اورنہ ٹھیراؤں تویہ بڑی بےمروّتی ہےجسےشرافت گوارانہیں کرتی۔مزیدبرآں یہ اندیشہ بھی ہےکہ اگرمیں ان مسافروں کواپنی پناہ میں نہ لوں گاتورات انہیں کہیں اورگزارنی پڑیگی اوراس کےمعنی یہ ہوں گےکہ گویامیں نےخود انہیں بھیڑیوں کےحوالہ کیا۔اس کےبعد کاقصہ یہاں بیان نہیں کیاگیا ہے۔اس کی تفصیلات سورہٴ ہود،الحجراورالقمرمیں بیان ہوئی ہیں کہ ان لڑکوں کی آمدکی خبرسن کرشہرکےبہت سےلوگ حضرت لُوؑط کےمکان پرہجوم کرکےآگئےاوراصرارکرنےلگےکہ وہ اپنےان مہمانوں کوبدکاری کےلیےان کے حوالےکردیں۔ |