Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 253
۞ تِلْكَ ٱلرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ ٱللَّهُۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَـٰتٍۚ وَءَاتَيْنَا عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَيَّدْنَـٰهُ بِرُوحِ ٱلْقُدُسِۗ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلَ ٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ وَلَـٰكِنِ ٱخْتَلَفُواْ فَمِنْهُم مَّنْ ءَامَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلُواْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخر میں عیسیٰ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی اگر اللہ چاہتا، تو ممکن نہ تھا کہ اِن رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے، وہ آپس میں لڑتے مگر (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے، اس وجہ سے) انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ہاں، اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے1
1 | مطلب یہ ہے کہ رسُولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رُونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا۔ نہیں، اگر وہ چاہتا ، تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا۔ مگر اس کی مشیّت نہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انھیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبُور کر دے۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا ، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں اِنتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انھیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بیّنات سے لوگوں کو راستی کی طرف بُلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے، وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا، مگر معاذ اللہ اُسے کامیابی نہ ہوئی |
Surah 3 : Ayat 40
قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِى غُلَـٰمٌ وَقَدْ بَلَغَنِىَ ٱلْكِبَرُ وَٱمْرَأَتِى عَاقِرٌۖ قَالَ كَذَٲلِكَ ٱللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ
زکریاؑ نے کہا، 1"پروردگار! بھلا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہوگا، میں تو بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے" جواب ملا، "ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے"
1 | یعنی تیرے بڑھاپے اور تیری بیوی کے بانجھ پن کے باوجود اللہ تجھے بیٹا دے گا |
Surah 14 : Ayat 27
يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱلْقَوْلِ ٱلثَّابِتِ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْأَخِرَةِۖ وَيُضِلُّ ٱللَّهُ ٱلظَّـٰلِمِينَۚ وَيَفْعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ
ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے1، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے 2اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے
2 | یعنی جو ظالم کلمۂ طیّبہ کو چھوڑ کر کسی کلمۂ خبیثہ کی پیروی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ذہن کو پراگندہ اور اُن کی مساعی کو پریشان کر دیتا ہے۔ وہ کسی پہلو سے بھی فکر و عمل کی صحیح راہ نہیں پاسکتے۔ ان کا کوئی تیر بھی نشانے پر نہیں بیٹھتا |
1 | یعنی دنیا میں اُن کو اِس کلمہ کی وجہ سے ایک پائدار نقطۂ نظر ، ایک مستحکم نظامِ فکر ، اور ایک جامع نظریہ ملتا ہے جو ہر عُقدے کو حل کر نے اور ہر گُتھی کو سلجھانے کے لیے شاہِ کلید کا حکم رکھتا ہے۔ سیرت کی مضبوطی اور اخلاق کی اُستواری نصیب ہوتی ہے جسے زمانہ کی گردشیں متزلزل نہیں کر سکتیں ۔ زندگی کے ایسے ٹھوس اصول ملتے ہیں جو ایک طرف اُن کے قلب کو سکون اور دماغ کو اطمینان بخشتے ہیں اور دوسری طرف انہیں سعی و عمل کی راہوں میں بھٹکنے ، ٹھوکریں کھانے، اور تلوُّن کا شکار ہونے سے بچاتے ہیں۔ پھر جب وہ موت کی سرحد پار کر کے عالم آخرت کے حدود میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کسی قسم کی حیرانی اور سراسیمگی و پریشانی اُن کو لاحق نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہاں سب کچھ ان کی توقعات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ وہ اُس عالم میں اِس طرح داخل ہوتے ہیں گویا اُس کی راہ و رسم سے پہلے ہی واقف تھے۔ وہاں کوئی مرحلہ ایسا پیش نہیں آتا جس کی اُنہیں پہلے خبر نہ دے دی گئی ہو اور جس کے لیے انہوں نے قبل از وقت تیار ی نہ کر رکھی ہو۔ اِ س لیے وہاں ہر منزل سے وہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ ان کا حال وہاں اُس کافر سے بالکل مختلف ہوتا ہے جسے مرتے ہی اپنی توقعات کے سراسر خلاف ایک دوسری ہی صورت حال سے اچانک سابقہ پیش آتا ہے |
Surah 22 : Ayat 14
إِنَّ ٱللَّهَ يُدْخِلُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
(اِس کے برعکس) اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے1، یقیناً ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے2
2 | یعنی اللہ کے اختیارات غیر محدود ہیں۔ دنیا میں ، یا آخرت میں ، یا دونوں جگہ، وہ جس کو جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے جو کچھ چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ وہ دینا چاہے تو کوئی روکنے والا نہیں۔ نہ دینا چاہے تو کوئی دلوانے والا نہیں |
1 | یعنی جن کا حال اس مطلب پرست، مذبذب اور بے یقین مسلمان کا سا نہیں ہے ، بلکہ جو ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر خدا اور رسول اور آخرت کو ماننے کا فیصلہ کرتے ہیں ، پھر ثابت قدمی کے ساتھ راہ حق پر چلتے رہتے ہیں ، خواہ اچھے حالات سے سابقہ پیش آئے یا برے حالات سے ، خواہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں یا انعامات کی بارشیں ہونے لگیں |
Surah 22 : Ayat 18
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسْجُدُ لَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ وَٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلْجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ ٱلنَّاسِۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ ٱلْعَذَابُۗ وَمَن يُهِنِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُۥ مِن مُّكْرِمٍۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ ۩
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں1 وہ سب جو آسمانوں میں ہیں2 اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان3 اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں؟4 اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے5، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے6
6 | یہاں سجدہ تلاوت واجب ہے ، اور سورہ حج کا یہ سجدہ متفق علیہ ہے سجدہ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 157 |
5 | یہاں ذلت اور عزت سے مراد حق کا انکار اور اس کی پیروی ہے ، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلت اور عزت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے۔ جو شخص کھلے کھے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے ، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے ، اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جواس نے خود مانگی ہے۔پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اس عزت سے سر فراز کر دے |
4 | مطلب یہ ہے کہ اگر چہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائیگا۔ لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی کو یارا نہیں ہے۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے جھکاتا ہے ، مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بے اختیار ہستی کے آگے جھک رہا وہ بھی اس کی اطاعت پر اسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ کسی فرشتے ، کسی جن، کسی نبی اور ولی ، اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفت اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اورمعبودیت کا مقام دیا جا سکے ، یا خداوند عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جا سکتے۔ کسی قانون بے حاکم اور فطرت بے صانع اور نظام بے ناظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلا تا رہے اور قدرت و حکمت کے ہو حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خد اکے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا بر سر باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہو گا |
3 | یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بلارادہ اور بطوع و رغبت بھی اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے ، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے ، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانون فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے |
2 | یعنی فرشتے ، اَجرام فلکی، اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماوراء دوسرے جہانوں میں ہیں ، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں ، یا حیوانات، نباتات ، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الرعد ، حاشیہ 24۔25 ، الجحل، حاشیہ 41۔ 42 |
Surah 11 : Ayat 107
خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَٲتُ وَٱلْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں1، الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے بے شک تیرا رب پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے2
2 | یعنی کوئی اور طاقت تو ایسی ہے ہی نہیں جو ان لوگوں کو اس دائمی عذاب سے بچا سکے۔البتہ اگر اللہ تعالٰیخود ہی کسی کے انجام کو بدلنا چاہیے یا کسی کو ہمیشگی کا عذاب دینے کی بجائے ایک مدت تک عذاب دے کر معاف کر دینے کا فیصلہ فرمائے تو اسے ایسا کرنے کو پورا اختیار ہے کیونکہ اپنے قانون کا وہ خود ہی واضع ہے کوئی بالاتر قانون ایسا نہیں ہے جو اس کے اختیارات کو محدود کرتا ہو |
1 | ان الفاظ سے یا تو عالم آ خرت کے زمین و آسمان مراد ہیں یا پھر محض محاورے کے طور پر ان کو دوام اور ہمشگی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے بہر حال موجودہ زمین و آسمان تو مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کے بیان کی رو سے یہ قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں جن واقعات کا زکر ہو رہا ہے وہ قیامت کے بعد پیش آنے والے ہیں |
Surah 85 : Ayat 16
فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
اور جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے1
1 | ’’بخشنے والا ہے‘‘ کہہ کر یہ امید دلائی گئی ہے کہ کوئی اگر اپنے گناہوں سے باز آ کر توبہ کر لے تو اس کا دامن رحمت میں جگہ پا سکتا ہے۔ ’’محبت کرنے والا‘‘ کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو اپنی خلق سے عداوت نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اس کو مبتلائے عذاب کرے، بلکہ جس مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے اس سے وہ محبت رکھتا ہے اور سزا صرف اس وقت دیتا ہے جب وہ سرکشی سے باز ہی نہ آئے۔ ’’مالک عرش‘‘ کہہ کر انسان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ سلطنت کائنات کا فرمانروا وہی ہے، اس سے سرکشی کرنے والا اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ ’’بزک و برتر‘‘ کہہ کر انسان کو اس کمینہ پن پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی ہستی کے مقابلہ میں گستاخی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اور آخری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ’’جو کچھ چاہے کر ڈالنےوالا ہے‘‘، یعنی پوری کائنات میں کسی کی بھی طاقت نہیں ہے کہ اللہ جس کام کا ارادہ کرے اس میں وہ مانع و مزاحم ہو سکے |