Ayats Found (8)
Surah 3 : Ayat 153
۞ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُۥنَ عَلَىٰٓ أَحَدٍ وَٱلرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِىٓ أُخْرَٮٰكُمْ فَأَثَـٰبَكُمْ غَمَّۢا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُواْ عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ أَصَـٰبَكُمْۗ وَٱللَّهُ خَبِيرُۢ بِمَا تَعْمَلُونَ
یاد کرو جب تم بھاگے چلے جا رہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمہیں نہ تھا، اور رسولؐ تمہارے پیچھے تم کو پکار رہا تھا1 اُس وقت تمہاری اس روش کا بدلہ اللہ نے تمہیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیے2 تاکہ آئندہ کے لیے تمہیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے
2 | رنج ہزیمت کا، رنج اس خبر کا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے، رنج اپنے کثیر التعداد مقتولوں اور مجرُوحوں کا، رنج اس بات کا کہ اب گھروں کی بھی خبر نہیں ، تین ہزار دشمن، جن کی تعداد مدینہ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، شکست خوردہ فوج کو روندتے ہوئے قصبہ میں آگھُسیں گے اور سب کو تباہ کر دیں گے |
1 | جب مسلمانوں پر اچانک دو طرف سے بیک وقت حملہ ہوا اور ان کی صفحوں میں ابتری پھیل گئی تو کچھ لوگ مدینہ کی طرف بھاگ نکلے اور کچھ اُحد پر چڑھ گئے ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انچ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ دُشمنوں کا چاروں طرف ہجوم تھا، دس بارہ آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت پاس رہ گئی تھی، مگر اللہ کا رسُول اس نازک موقع پر بھی پہاڑ کی طرح اپنی جگہ جما ہوا تھا اور بھاگنے والوں کو پکار رہا تھا اِلَیَّ عِبَادَ اللہِ اِلَیَّ عِبَادَاللہِ، اللہ کے بندو میری طرف آ ؤ ، اللہ کے بندو میری طرف آ ؤ |
Surah 3 : Ayat 154
ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنۢ بَعْدِ ٱلْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَآئِفَةً مِّنكُمْۖ وَطَآئِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِٱللَّهِ غَيْرَ ٱلْحَقِّ ظَنَّ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ ٱلْأَمْرِ مِن شَىْءٍۗ قُلْ إِنَّ ٱلْأَمْرَ كُلَّهُۥ لِلَّهِۗ يُخْفُونَ فِىٓ أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ ٱلْأَمْرِ شَىْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَـٰهُنَاۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِى بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ ٱلَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ ٱلْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْۖ وَلِيَبْتَلِىَ ٱللَّهُ مَا فِى صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِى قُلُوبِكُمْۗ وَٱللَّهُ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ
اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کر دی کہ وہ اونگھنے لگے1 مگر ایک دوسرا گروہ، جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنے مفاد ہی کی تھی، اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا جو سراسر خلاف حق تھے یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ، "اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟" ان سے کہو "(کسی کا کوئی حصہ نہیں) اِس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں" دراصل یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں اُسے تم پر ظاہر نہیں کرتے ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ، "اگر (قیادت کے) اختیارات میں ہمارا کچھ حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے" ان سے کہہ دو کہ، "اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے" اور یہ معاملہ جو پیش آیا، یہ تو اس لیے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اُسے آزما لے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اُسے چھانٹ دے، اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے
1 | یہ ایک عجیب تجربہ تھا جو اس وقت لشکرِ اسلام کے بعض لوگوں کو پیش آیا۔ حضرت ابو طلحہؓ جو اس جنگ میں شریک تھے خود بیان کرتے ہیں کہ اس حالت میں ہم پر اُونگھ کا ایسا غلبہ ہو رہا تھا کہ تلواریں ہاتھ سے چھُوٹی پڑتی تھیں |
Surah 9 : Ayat 40
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ ٱللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِىَ ٱثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِى ٱلْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَـٰحِبِهِۦ لَا تَحْزَنْ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَاۖ فَأَنزَلَ ٱللَّهُ سَكِينَتَهُۥ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُۥ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلسُّفْلَىٰۗ وَكَلِمَةُ ٱللَّهِ هِىَ ٱلْعُلْيَاۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنی ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ 1"غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے" اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے
1 | یہ اُس موقع کا ذکر ہے جب کفارِ مکہ نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا تہیہ کر لیا تھا اور آپؐ عین اس رات کو، جو قتل کے لیے مقرر کی گئی تھی ، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ جا چکی تھی۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یہ منافقانہ ایمان رکھتے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ اس حالت میں جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ صرف ایک رفیق حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے، اور اس خیال سے کہ آپ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا ، آپ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر (جو شمال کی طرف تھی) جنوب کی راہ اختیار کی۔ یہاں تین دن تک آپ غارِ ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن آپ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے ایسا نہ چھوڑا جہاں آپ کو تلاش نہ کیا ہو۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اُس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر ؓ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں کسی نے ذرا آگے بڑھ کر غار میں جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ نے یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ کو تسکین دی کہ ”غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے“ |
Surah 12 : Ayat 69
وَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَىٰ يُوسُفَ ءَاوَىٰٓ إِلَيْهِ أَخَاهُۖ قَالَ إِنِّىٓ أَنَا۟ أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
یہ لوگ یوسفؑ کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ 1"میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا) اب تو اُن باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں"
1 | اس فقرے میں وہ ساری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو اکیس بائیس برس کے بعد دونوں ماں جائے بھائیوں کے ملنے پر پیش آئی ہوگی۔ حضرت یوسفؑ نے بتایا ہو گا کہ وہ کن حالات سے گزرتے ہوئے اس مرتبے پر پہنچے۔ بن یمین بے سنایا ہوگا کہ ان کے پیچے سوتیلے بھائٰیوں نے اس کے ساتھ کیا کیا بدسلوکیاں کیں۔ پھر حضرت یوسفؑ نے بھائی کو تسلی دی ہوگی کہ اب تم میرے پاس ہی رہو گے، ان ظالموں کے پنجے میں تم کو دوبارہ نہیں جانے دوں گا۔ بعید نہیں کہ اسی موقع پر دونوں بھائیوں میں یہ بھی طے ہوگیا ہو کہ بن یمین کو مصر میں روک رکھنے کے لیے کیا تدبیرکی جائے جس سے وہ پردہ بھی پڑا رہے جو حضرت یوسفؑ مصلحتہً ابھی ڈالے رکھنا چاہتے تھے۔ |
Surah 12 : Ayat 86
قَالَ إِنَّمَآ أَشْكُواْ بَثِّى وَحُزْنِىٓ إِلَى ٱللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اُس نے کہا "میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو
Surah 15 : Ayat 88
لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِۦٓ أَزْوَٲجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَٱخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ
تم اُس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ اِن کے حال پر اپنا دل کڑھاؤ1 انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جھکو
1 | یعنی اُن کے اِس حال پر نہ کُڑھو کہ اپنے خیر خواہ کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں، اپنی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں کو اپنی خوبیاں سمجھے بیٹھے ہیں، خود اُس راستے پر جا رہے ہیں اور اپنی ساری قوم کے اس پر لیے جا رہے ہیں جس کا یقینی انجام ہلاکت ہے ، اور جو شخص اِنہیں سلامتی کی راہ دکھا رہا ہے اُس کی سعیِ اصلاح کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیے ڈالتے ہیں |
Surah 16 : Ayat 127
وَٱصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِى ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ
اے محمدؐ، صبر سے کام کیے جاؤ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اِن لوگوں کی حرکات پر ر نج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو
Surah 27 : Ayat 70
وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُن فِى ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ
اے نبیؐ، اِن کے حال پر رنج نہ کرو اور نہ اِن کی چالوں پر دل تنگ ہو1
1 | یعنی تم نےسمجھانےکاحق اداکردیا۔اب اگریہ نہیںمانتےاوراپنی حماقت پراصرارکرکےعزاب الٰہی کے مستحق بنناہی چاہتے ہیں تو تم خواہ مخواہ ان کےحال پرکڑھ کڑہ کراپنی جان کیون ہلکان کرو۔ پھر یہ حقیقت وصداقت سےلڑنے اورتمہاری اصلاحی کوششوں کونیچادکھانےکےلیے جوگھٹیا درجے کی چالیں چل رہےہیں اُن پرکبیدہ خاطرہونےکی تمہیں کیا ضرورت ہے۔ تمہاری پشت پرخداکی طاقت ہے۔ یہ تمہاری بات نہ مانیں گے تواپنا کچھ بگاڑیں گے۔ تمہاراکچھ نہیںبگاڑسکتے۔ |