Ayats Found (5)
Surah 3 : Ayat 47
قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِى وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِى بَشَرٌۖ قَالَ كَذَٲلِكِ ٱللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۚ إِذَا قَضَىٰٓ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
یہ سن کر مریمؑ بولی، 1"پروردگار! میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا" جواب ملا، "ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے"
1 | یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا ، تیرے ہاں بچّہ پیدا ہو گا۔ یہی لفظ کَذٰلِکَ (ایسا ہی ہو گا) حضرت زکریّا کے جواب میں بھی کہا گیا تھا۔ اس کا جو مفہُوم وہاں ہے وہی یہاں بھی ہونا چاہیے۔ نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان اِسی معنی کی تائید کر تا ہے کہ حضرت مریم ؑ کو صِنفی مواصلت کے بغیر بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی اور فی الواقع اِسی صورت سے حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی۔ ورنہ اگر بات یہی تھی کہ حضرت مریم ؑ کے ہاں اُسی معروف فطری طریقہ سے بچہ پیدا ہونے والا تھا جس طرح دنیا میں عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، اور اگر حضرت عیٰسی کی پیدائش فی الواقع اُسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھیرتا ہے جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے، اور وہ تمام بیانات بھی بے معنی قرار پاتے ہیں جو ولادتِ مسیح ؑ کے باب میں قرآن کے دُوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو الٰہ اور ابن اللہ اسی وجہ سے سمجھا تھا کہ ان کی پیدائش غیر فطری طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی، اور یہُودیوں نے حضرت مریم ؑ پر الزام بھی اسی وجہ سے لگایا کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ اگر یہ سرے سے واقعہ ہی نہ تھا تب ان دونوں گروہوں کے خیالات کی تردید میں بس اتنا کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو، وہ لڑکی شادی شدہ تھی ، فلاں شخص اس کا شوہر تھا، اور اسی کی نطفے سے عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔ یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کے بجائے آخر اتنی لمبی تمہید اُٹھانے اور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح بن فلاں کہنے کے بجائے مسیح بن مریم کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی جس سے بات سلجھنے کے بجائے اور اُلجھ جائے۔ پس جو لوگ قرآن کو کلام اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیح علیہ السّلام کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسبِ معمُول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اظہار ما فی الضمیر اور بیانِ مدّعا کی اُتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں (معاذاللہ) |
Surah 5 : Ayat 17
لَّقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ ٱللَّهِ شَيْــًٔا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ ٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًاۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَاۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا مسیح ابن مریم ہی خدا ہے1 اے محمدؐ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اُس کو اِس ارادے سے باز رکھ سکے؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور اُن سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے2 اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے
2 | اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ ہے اس طرف کہ محض مسیح ؑ کی اعجاز ی پیدائش اور ان کے اخلاقی کمالات اور محسُوس معجزات کو دیکھ کر جو لوگ اس دھوکہ میں پڑ گئے کہ مسیح ؑ ہی خدا ہے وہ درحقیقت نہایت نادان ہیں۔ مسیح ؑ تو اللہ کے بے شمار عجائب ِ تخلیق میں سے محض ایک نمونہ ہے جسے دیکھ کر ان ضعیف ُ البصر لوگوں کی نگاہیں چُوندھیا گئیں۔ اگر اِن لوگوں کی نگاہ کچھ وسیع ہوتی تو انہیں نظر آتا کہ اللہ نے اپنی تخلیق کے اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز نمونے پیش کیے ہیں اور اس کی قدرت کسی حد کے اند ر محدُود نہیں ہے ۔ پس یہ بڑی بے دانشی ہے کہ مخلوق کے کمالات کو دیکھ کر اسی پر خالق ہونے کا گمان کر لیا جائے۔ دانشمند وہ ہیں جو مخلوق کے کمالات میں خالق کی عظیم الشان قدرت کے نشانات دیکھتے ہیں اور ان سے ایمان کا نُور حاصل کرتے ہیں |
1 | عیسائیوں نے ابتداءً مسیح ؑ کی شخصیت کو انسانیت اور الوہیت کا مرکب قرار دے کر جو غلطی کی تھی ، اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے لیے مسیح ؑ کی حقیقت ایک معما بن کر رہ گئی جسے اُن کے علماء نے لفّاظی اور قیاس آرائی کی مدد سے حل کرنے کی جتنی کوشش کی اُتنے ہی زیادہ اُلجھتے چلے گئے ۔ اُن میں سے جس کے ذہن پر اِس مرکب شخصیت کے جُزوِ انسانی نے غلبہ کیا اس نے مسیح ؑ کے ابن اللہ ہونے اور تین مستقل خداؤں میں سے ایک ہونے پر زور دیا۔ اور جس کے ذہن پر جُزوِ اُلُوہیّت کا اثر زیادہ غالب ہوا اس نے مسیح ؑ کو اللہ تعالٰی کا جسمانی ظہُور قرار دے کر عین اللہ بنا دیا اور اللہ ہونے کی حیثیت ہی سے مسیح ؑ کی عبادت کی۔ ان کے درمیان بیچ کی راہ جنہوں نے نکالنی چاہی انہوں نے سارا زور ایسی لفظی تعبیریں فراہم کرنے پر صرف کر دیا جن سے مسیح ؑ کو انسان بھی کہا جاتا رہے اور اس کے ساتھ خدا بھی سمجھا جا سکے، خدا اور مسیح ؑ الگ الگ بھی ہوں اور پھر ایک بھی رہیں۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ نساء، حاشیہ نمبر ۲۱۲، ۲۱۳ و ۲۱۵) |
Surah 30 : Ayat 54
۞ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةًۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۖ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْقَدِيرُ
اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت میں تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے1 اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
1 | یعنی بچپن،جوانی اوربڑھاپا،یہ ساری حالتیں اسی کی پیداکردہ ہیں۔یہ اسی کی مشیت پرموقوف ہے کہ جسے چاہےکمزورپیداکرےاورجس کوچاہےطاقت وربنائے،جسےچاہے بچپن سے جوانی تک نہ پہنچنےدےاورجس کوچاہےجوان مرگ کردے،جسےچاہے لمبی عمردےکربھی تندرست وتوانارکھے اورجس کو چاہےشاندار جوانی کےبعد بڑھاپے میں اس طرح ایڑیاں رگڑوائےکہ دنیااسے دیکھ کرعبرت کرنے لگے۔انسان اپنی جگہ جس گھمنڈ میں چاہے مبتلا ہوتارہےمگرخداکےقبضہٴ قدرت میں وہ اِس طرح بے بس ہے کہ جوحالت بھی خدااس پرطاری کردےاسے وہ اپنی کسی تدبیرسےنہیں بدل سکتا۔ |
Surah 24 : Ayat 45
وَٱللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّن مَّآءٍۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰ بَطْنِهِۦ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰٓ أَرْبَعٍۚ يَخْلُقُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے
Surah 28 : Ayat 68
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُۗ مَا كَانَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَةُۚ سُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کر لیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے1، اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
1 | یہ ارشاد دراصل شرک کی تردید میں ہے۔ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میںسے جوبےشمار معبود اپنے لیےبنالیےہیں، اوران کو اپنی اوصاف، مراتب اورمناصب سونپ رکھے ہیں، اس پراعتراض کرتےہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں،فرشتوں، جنوں اوردوسرے بندوں میں سے ہم خود جس کوجیسے چاہتے ہیں اوصاف، صلاحیتیں اورطاقتیں بخشے ہیں اورجوکام جس سے لینا چاہتے ہیں، لیتے ہیں۔یہ اختیارات آخر ان مشرکین کوکیسے اورکہاں سے مل گئے کہ میرے بندوں میںسے جس کوچاہیں مشکل کشاجسے چاہیں گنج بخش اورجسے چاہیں فریادرس قراردےلیں؟ جسے چاہیں بارش برسابے کامختار، جسے چاہیں روزگار یااولاد بخشنے والا،جسے چاہیں بیماری وصحت کامالک بنادیں؟ جسے چاہیں میری خدائی کے کسی حصے کافرماں رواٹھیرالیں؟ اورمیرے اختیارات میںسے جوکچھ جس کوچاہیں سونپ دیں؟ کوئی فرشتہ ہویاجن یانبی یاولی، بہرحال جوبھی ہے ہماراپیدا کیاہوا ہے۔ جوکمالات بھی کسی کوملے ہیں ہماری عطا وبخش سےملے ہیں۔ اورجوخدمات بھی ہم نے جس سے لینی چاہی ہے لی ہے۔اس برگزیدگی کے یہ معنی کیسے ہوگئے کہ یہ بندے بندگی کے مقامات سے اٹھا کرخدائی کےمرتبے پرپہنچادیے جائیں اورخدا کوچھوڑ کران کے آگے سرنیازجھکادیاجائے، ان کومدد کےلیے پکارا جانے لگے، ان سے حاجتیں طلب کی جانے لگیں، انہیں قسمتوں کابنانے اوربگاڑنے والا سمجھ لیاجائے، اورانہیں خدائی صفات واختیارات کاحامل قراردے دیاجائے؟ |