Ayats Found (3)
Surah 28 : Ayat 35
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَـٰنًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَاۚ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أَنتُمَا وَمَنِ ٱتَّبَعَكُمَا ٱلْغَـٰلِبُونَ
فرمایا "ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں کا ہی ہو گا1"
1 | اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت موسٰیؑ کی اس ملاقات اورگفتگو کاحال اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورہ طٰہٰ(آیت ۹تا۴۸) میںبیان ہوا ہے۔ قرآن مجید کے اس بیان کاجوشخص بھی اُس داستان سے مقابلہ کرےگا جواس سلسلہ میںبائیبل کی کتاب خروج(باب ۴،۳) میںبیان کی گئی ہے، اوراگر کچھ ذوق سلیم رکھتا ہوتو خود محسوس کرلے گا کہ ان دونوں میں سے کلام الٰہی کونسا ہے اورانسانی داستان گوئی کااطلاق کس پرہوتا ہے۔ نیز وہ اس معاملہ میں بھی بآسانی رائے قائم کرسکےگا کہ آیا قرآن کی یہ روایت معاذاللہ بائیبل اوراسرئیلی روایات کی نقل ہے، یا وہ خداخود اصل واقعہ بیان فرمارہاہے جس نے حضرت موسٰیؑ کوباریاب فرمایا تھا ۔(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ حاشیہ ۱۹) |
Surah 47 : Ayat 35
فَلَا تَهِنُواْ وَتَدْعُوٓاْ إِلَى ٱلسَّلْمِ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ وَٱللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَـٰلَكُمْ
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو1 تم ہی غالب رہنے والے ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا
1 | یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمیعت اسلام کی علمبرداری کر رہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو، بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہو جائیں۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے، اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں |
Surah 59 : Ayat 21
لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُۥ خَـٰشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ ٱللَّهِۚ وَتِلْكَ ٱلْأَمْثَـٰلُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے1 یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں
1 | اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس طرح خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کر رہا ہے، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب ہوتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا۔لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بے حسی اور بے فکری جو قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے حقیقت حال جان چکا ہے اور پھر بھی اس پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے، نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں ان کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا۔ بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان و بے شعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہے ہی نہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 120) |