Ayats Found (19)
Surah 3 : Ayat 200
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پا مردی دکھاؤ1، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے
1 | اصل عربی متن میں صَابِرُوْا کا لفظ آیا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ کفار اپنے کفر پر جو مضبوطی دکھا رہے ہیں اور اس کو سربلند رکھنے کے لیے جو زحمتیں اُٹھارہے ہیں تم ان کے مقابلے میں ان سے بڑھ کر پامردی دکھا ؤ ۔ دوسرے یہ کہ ان کے مقابلہ میں ایک دُوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھا ؤ |
Surah 8 : Ayat 46
وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَـٰزَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْۖ وَٱصْبِرُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اور اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو1، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
1 | یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھو۔ جلد بازی ، گھبراہٹ، ہِراس،طمع اور نا مناسب جوش سے بچو۔ ٹھنڈے دلی اور جچی تلی قوت فیصلہ کےساتھ کام کرو۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیظ و غضب کا ہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سرزد نہ کرنے پائے۔ مصائب کا حملہ ہواور حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں تو اضطراب میں تمہارے حواس پر اگندہ نہ ہو جائیں۔ حصول مقصد کے شوق سے بے قرار ہو کر یا کسی نیم پختہ تدبیر کو سر سری نظر میں کارگر دیکھ کر تمہارے ارادے شتاب کاری سے مغلوب نہ ہوں۔ اور اگر کبھی دنیوی فوائد و منافع اور لذاتِ نفس کی تر غیبات تمہیں اپنی طرف لبھا رہی ہوں تو ان کے مقابلہ میں بھی تمہاری نفس اس درجہ کمزور نہ ہو کہ بے اختیار ان کیطرف کھینچ جاؤ۔ یہ تمام مفہومات صرف ایک لفظ”صبر“میں پوشیدہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان تمام حیثیات سے صابر ہوں ، میری تائید انہی کو حاصل ہے |
Surah 11 : Ayat 49
تِلْكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهَآ إِلَيْكَۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَآ أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَاۖ فَٱصْبِرْۖ إِنَّ ٱلْعَـٰقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
اے محمدؐ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم، پس صبر کرو، ا نجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے1
1 | یعنی جس طرح نوح اور ان کے ساتھیوں ہی کا آخر کار بول بالا ہوا، اسی طرح تمہارا ااور تمہارے ساتھیوں کا بھی ہو گا۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ ابتداءِ کار میں دشمنانِ حق خواہ کتنے ہی کامیاب ہوں مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو خدا سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے مقصدِ حق کے لیے کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس وقت جو مصائب و شدائد تم پر گزر رہے ہیں جن مشکلات سے تم دوچار ہو رہے ہو اور تمہاری دعوت کو دبانے میں تمہارے مخالفوں کو بظاہر جو کامیابی ہوتی نظر آرہی ہے اس پر بد دل نہ ہو بلکہ ہمت اور صبر کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جاؤ |
Surah 11 : Ayat 115
وَٱصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ
اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا
Surah 16 : Ayat 127
وَٱصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِى ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ
اے محمدؐ، صبر سے کام کیے جاؤ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اِن لوگوں کی حرکات پر ر نج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو
Surah 20 : Ayat 130
فَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ ٱلشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَاۖ وَمِنْ ءَانَآىِٕ ٱلَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ ٱلنَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ
پس اے محمدؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی1، شاید کہ تم راضی ہو جاؤ2
2 | اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جاؤ جس میں اپنے مشن کی خاطر تمہیں طرح طرح کی ناگوار باتیں سہنی پڑ رہی ہیں، اور اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو جاؤ کہ تم پر ناحق ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں کو بھی سزا نہیں دی جاۓ گی، وہ داعی حق کو ستاتے بھی رہیں گے اور زمین میں دندناتے بھی پھریں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم ذرا یہ کام کر کے تو دیکھو، اس کا نتیجہ وہ کچھ سامنے آۓ گا جس سے تمہارا دل خوش ہو جاۓ گا۔ یہ دوسرا مطلب قرآن میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا : عَیٰیٓ اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْموْداً، ’’توقع ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر پہنچا دے گا‘‘ آیت 79۔ اور سورہ ضحٰی میں فرمایا : وَلَلْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَالْاُوْلیٰ ہ وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی، ’’تمہارے لیے بعد کا دور یقیناً پہلے دور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمہارا رب تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ |
1 | یعنی چونکہ اللہ تعالٰی ان کو ابھی ہلاک نہیں کرنا چاہتا، اور ان کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کر چکا ہے، اس لیے اس کی دی ہوئی اس مہلت کے دوران میں یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کریں اس کو تمہیں برداشت کرنا ہو گا اور صبر کے ساتھ ان کی تمام تلخ و ترش باتیں سنتے ہوۓ اپنا فریضۂ تبلیغ و تذکیر انجام دینا پڑے گا۔ اس تحمل و برداشت اور اس صبر کی طاقت تمہیں نماز سے ملے گی جس کو تمہیں ان اوقات میں پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ ’’رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح‘‘ کرنے سے مراد نماز ہے، جیسا کہ آگے چل کر خود فرما دیا : وَأ مُرْ اَھْلَکَ بَالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ،’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔‘‘ نماز کے اوقات کی طرف یہاں بھی صاف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز۔ سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز۔ اور رات کے اوقات میں عشا اور تہجد کی نماز۔ رہے دن کے کنارے، تو وہ تین ہی ہو سکتے ہیں۔ ایک کنارہ صبح ہے، دوسرا کنارہ زوال آفتاب، اور تیسرا کنارہ شام۔لہٰذا دن کے کناروں سے مراد فجر، ظہر اور مغرب کی نماز ہی ہو سکتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم۔ ہود، حاشیہ 113۔ بنی اسرائیل، حاشیہ 91 تا 97، جلد سوم، الروم حاشیہ 24۔ جلد چہارم، المومن۔ حاشیہ 74۔ |
Surah 30 : Ayat 60
فَٱصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۖ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ ٱلَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ
پس (اے نبیؐ) صبر کرو، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے1، اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے2
2 | یعنی دشمن تم کوایساکمزورنہ پائیں کہ ان کےشوروغوغا سےتم دب جاؤ،یاان کی بہتان وافترا کی مہم سےتم مرعوب ہوجاؤ،یاان کی پھبتیوں اورطعنوں اورتضحیک واستہزاءسےتم پست ہمت ہوجاؤ،یاان کی دھمکیوں اورطاقت کےمظاہروں اورظلم وستم سے تم ڈرجاؤ،ان کے دیے ہوئےلالچوں سےتم پھسل جاؤ،یاقومی مفاد کےنام پرجواپیلیں وہ تم سےکررہے ہیں ان کی بناپرتم ان کے ساتھ مصالحت کرلینےپراترآؤ۔اس کےبنائے وہ تم کواپنے مقصدکےشعور میں اتنا ہوشمند،اوراپنےیقین وایمان میں اتنا پختہ اوراس عزم میں اتناراسخ،اوراپنے کیرکٹرمیں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایاجاسکے،نہ کسی قیمت پرتمہیں خریداجاسکے،نہ کسی فریب سےتم کوپُھسلایاجاسکے،نہ کوئی خطرہ یانقصان یاتکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹاسکےاورنہ دین کےمعاملہ میں کسی لین دین کاسودا تم سے چکایاجاسکے۔یہ سارامضمون اللہ تعالٰی کےکلام بلاغت نظام نےاس ذراسےفقرےمیں سمیٹ دیاہےکہ’’یہ بےیقین لوگ تم کوہلکانہ پائیں‘‘۔اب اس بات کاثبوت تاریخ کی بےلاگ شہادت دیتی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا پرویسےہی بھاری ثابت ہوئے جیسااللہ اپنے آخری نبیؐ کوبھاری بھرکم دیکھناچاہتاتھا۔آپ سے جس نےجس میدان میں بھی زورآزمائی کی اس نے اسی میدان میں مات کھائی اورآخراس شخصّیت عظمٰی نے وہ انقلاب برپاکرکےدکھادیا جسےروکنے کےلیےعرب کےکفروشرک نے اپنی ساری طاقت صرف کردی اوراپنے سارےحربےاستعمال کرڈالے۔ |
1 | اشارہ ہےاُس وعدے کی طرف جواوپرآیت نمبر۴۷ میں گزرچکاہے۔وہاں اللہ تعالٰی نے اپنی یہ سنت بیان کی ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کےرسولوں کی لائی ہوئی بّینات کامقابلہ تکذیب و تضحیک اورہٹ دھرمی کےساتھ کیاہےاللہ نےایسےمجرموں سے ضرورانتقام لیاہے(فَاَنتَقَمنَا مِنَ الَّذِینَ اَجرَمُوا)،اوراللہ پریہ حق ہےکہ مومنوں کی نُصرت فرمائے(وَکَانَ حَقًّا عَلَینَا نَٓصرُالمُومِنِینَ)۔ |
Surah 31 : Ayat 17
يَـٰبُنَىَّ أَقِمِ ٱلصَّلَوٲةَ وَأْمُرْ بِٱلْمَعْرُوفِ وَٱنْهَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَآ أَصَابَكَۖ إِنَّ ذَٲلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ
بیٹا، نماز قائم کرنے کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر1 یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے2
2 | دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اصلاحِ خلق کے لیے اُٹھنا اور اس کی مشکلات کو انگیز کرنا کم ہمت لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جن کے لیے بڑا دِل گُردہ چاہیے۔ |
1 | اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص بھی نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے کا کام کرے گا اس پر مصائب کا نزول ناگزیر ہے۔ دُنیا لازماً ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتی ہے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے۔ |
Surah 38 : Ayat 17
ٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَٱذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُۥدَ ذَا ٱلْأَيْدِۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌ
اے نبیؐ، صبر کرو اُن باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں1، اور اِن کے سامنے ہمارے بندے داؤدؑ کا قصہ بیان کرو2 جو بڑی قوتوں کا مالک تھا3 ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا
3 | اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد، ’’ہاتھوں والا‘‘۔ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں، دوسرے زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ’’ہاتھوں والے‘‘ تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے۔ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں۔مثلاً جسمانی طاقت، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا۔فوجی اور سیاسی طاقت، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی۔ اخلاقی طاقت، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے۔ اور عبادت کی طاقت، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود، صحیحین کی روایت کے مطابق، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے۔ امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرواء کے حوالہ وے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ و الیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَا نَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ،’’وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے‘‘۔ |
2 | اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو۔‘‘ پہلے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے۔ اور دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ اس قصے کی یاد خود تمہیں صبر کرنے میں مدد دے گی۔ چونکہ یہ قصہ بیان کرنے سے دونوں ہی باتیں مقصود ہیں، اس لیے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جو دونوں مفہوموں پر دلالت کرتے ہیں (حضرت داؤد کے قصے کی تفصیلات اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکی ہیں : تفہیم القرآن جلد اول، صفحہ 191۔ جلد دوم، صفحات 597 و 624۔ جلد سوم، صفحات 173 تا 176 و 560۔ 561۔ جلد چہارم، حواشی سورہ صفحہ نمبر 14 تا 16)۔ |
1 | اشارہ ہے کفار مکہ کی ان باتوں کی طرف جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ان کی یہ بکواس کہ یہ شخص ساحر اور کذاب ہے،اور ان کا یہ اعتراض کہ اللہ میاں کے پاس رسول بنانے کے لیے کیا بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا۔اور یہ الزام کہ اس دعوت توحید سے اس شخص کا مقصد کوئی مذہبی تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کی نیت کچھ اور ہی ہے۔ |
Surah 23 : Ayat 55
أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِۦ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ
کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں