Ayats Found (2)
Surah 47 : Ayat 35
فَلَا تَهِنُواْ وَتَدْعُوٓاْ إِلَى ٱلسَّلْمِ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ وَٱللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَـٰلَكُمْ
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو1 تم ہی غالب رہنے والے ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا
1 | یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمیعت اسلام کی علمبرداری کر رہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو، بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہو جائیں۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے، اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں |
Surah 47 : Ayat 20
وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌۖ فَإِذَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا ٱلْقِتَالُۙ رَأَيْتَ ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ ٱلْمَغْشِىِّ عَلَيْهِ مِنَ ٱلْمَوْتِۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو1 افسوس اُن کے حال پر
1 | مطلب یہ ہے کہ جن حالات سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے اور کفار کا جو رویہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تھا، اس کی بنا پر جنگ کا حکم آنے سے پہلے ہی اہل ایمان کی عام راۓ یہ تھی کہ اب ہمیں جنگ کی اجازت مل جانی چاہیے۔ بلکہ وہ بے چینی کے ساتھ اللہ کے فرمان کا انتظار کر رہے تھے اور بار بار پوچھتے تھے کہ ہمیں ان ظالموں سے لڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا؟ مگر جو لوگ منافقت کے ساتھ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گۓ تھے ان کا حال مومنوں کے حال سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اپنی جان و مال کو خدا اور اس کے دین سے عزیز تر رکھتے تھے اور اس کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ جنگ کے حکم نے آتے ہی ان کو اور سچے اہل ایمان کو ایک دوسرے سے چھانٹ کر الگ کر دیا۔ جب تک یہ حکم نہ آیا تھا، ان میں اور عام اہل ایمان میں بظاہر کوئی فرق و امتیاز نہ پایا جاتا تھا۔ نماز وہ بھی پڑھتے تھے اور یہ بھی۔ روزے رکھنے میں بھی انہیں تامل نہ تھا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام انہیں قبول تھا۔ مگر جب اسلام کے لیے جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو ان کے نفاق کا حال کھل گیا اور نمائشی ایمان کا وہ لبادہ اتر گیا جو انہوں نے اوپر سے اوڑھ رکھا تھا۔ سورہ نساء میں ان کی اس کیفیت کو یوں بیان کی گیا ہے: ’’تم نے دیکھا ان لوگوں کو جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا حال یہ ہے کہ انسانوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے خد اسے ڈرنا چاہیے۔ بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ۔ کہتے ہیں، خدایا، یہ لڑائی کا حکم ہمیں کیوں دے دیا؟ ہمیں ابھی اور کچھ مہلت کیوں نہ دی؟(آیت 77) |