Ayats Found (7)
Surah 4 : Ayat 77
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوٓاْ أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ ٱلْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ ٱلنَّاسَ كَخَشْيَةِ ٱللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةًۚ وَقَالُواْ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا ٱلْقِتَالَ لَوْلَآ أَخَّرْتَنَآ إِلَىٰٓ أَجَلٍ قَرِيبٍۗ قُلْ مَتَـٰعُ ٱلدُّنْيَا قَلِيلٌ وَٱلْأَخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ ٱتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلاً
تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر1 کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا2
2 | یعنی اگر تم خدا کے دین کی خدمت بجا لاؤ اور اس کی راہ میں جانفشانی دکھاؤ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کے ہاں تمہارا اجر ضائع ہو جائے |
1 | اس آیت کے تین مفہُوم ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں: ایک مفہُوم یہ ہے کہ پہلے یہ لوگ خود جنگ کے لیے بے تاب تھے۔ بار بار کہتے تھے کہ صاحب ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے، ہمیں ستایا جا تا ہے ، مارا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں، آخر ہم کب تک صبر کریں، ہمیں مقابلہ کی اجازت دی جائے۔ اُس وقت ان سے کہا جاتا تھا کہ صبر کرو اور نماز و زکوٰۃ سے ابھی اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو، تو یہ صبر و برداشت کا حکم ان پر شاق گزرتا تھا ۔ مگر اب جو لڑائی کا حکم دے دیا گیا تو انہی تقاضا کرنے والوں میں سے ایک گروہ دشمنوں کا ہجوم اور جنگ کے خطرات دیکھ دیکھ کر سہما جا رہا ہے۔ دوسرا مفہُوم یہ ہے کہ جب تک مطالبہ نماز اور زکوٰۃ اور ایسے ہی بے خطر کاموں کا تھا اور جانیں لڑانے کا کوئی سوال درمیان میں نہ آیا تھا یہ لوگ پکّے دیندار تھے۔ مگر اب جو حق کی خاطر جان جوکھوں کا کام شروع ہوا تو ان پر لرزہ طاری ہونے لگا۔ تیسرا مفہُوم یہ ہے کہ پہلے تو لُوٹ کھسُوٹ اور نفسانی لڑائیوں کے لیے ان کی تلوار ہر وقت نیام سے نکلی پڑتی تھی اور رات دن کا مشغلہ ہی جنگ و پیکار تھا۔ اُس وقت انہیں خونریزی سے ہاتھ روکنے اور نماز و زکوٰۃ سے نفس کی اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب جو خدا کے لیے تلوار اُٹھانے کا حکم دیا گیا تو وہ لوگ جو نفس کی خاطر لڑنے میں شیر دل تھے، خدا کی خاطر لڑنے میں بُزدل بنے جاتے ہیں۔ وہ دستِ شمشیر زن جو نفس اور شیطان کی راہ میں بڑی تیزی دکھاتا تھا اب خدا کی راہ میں شل ہوا جاتا ہے۔ یہ تینوں مفہُوم مختلف قسم کے لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں اور آیت کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ تینوں پر یکساں دلالت کرتے ہیں |
Surah 8 : Ayat 43
إِذْ يُرِيكَهُمُ ٱللَّهُ فِى مَنَامِكَ قَلِيلاًۖ وَلَوْ أَرَٮٰكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَـٰزَعْتُمْ فِى ٱلْأَمْرِ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ سَلَّمَۗ إِنَّهُۥ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ
اور یاد کرو وہ وقت جبکہ اے نبیؐ، خدا اُن کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا1، اگر کہیں وہ تمہیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے، لیکن اللہ ہی نے اِس سے تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے
1 | یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ سے نکل رہے تھے یا راستہ میں کسی منزل پر تھے اور یہ متحقق نہ ہوا تھا کہ کفار کا لشکر فی الواقع کتنا ہے ۔ اس وقت حضور ؐ نے خواب میں اس لشکر کو دیکھا اور جو منظر آپ کے سامنے پیش کیا گیا اس سے آپ نے اندازہ لگایا کہ دشمنوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہیں ہے ۔ یہی خواب آپ نے مسلمانوں کو سنا دیا اور اس سے ہمت پا کر مسلمان آگے بڑھتے چلے گئے |
Surah 9 : Ayat 38
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ ٱنفِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱثَّاقَلْتُمْ إِلَى ٱلْأَرْضِۚ أَرَضِيتُم بِٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا مِنَ ٱلْأَخِرَةِۚ فَمَا مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا فِى ٱلْأَخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
اے لوگو1 جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا
1 | یہاں سے وہ خطبہ شروع ہوتا ہے جو غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نازل ہوا تھا۔ |
Surah 9 : Ayat 39
إِلَّا تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْــًٔاۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا1، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا2، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
2 | یعنی خدا کا کام کچھ تم منحصر نہیں ہے کہ تم کرو گے تو ہو گا ورنہ نہ ہو گا۔ درحقیقت یہ تو خدا کا فضل و احسان ہے کہ وہ تمہیں اپنے دین کی خدمت کا زرین موقع دے رہا ہے۔ اگر تم اپنی نادانی سے اس موقع کو کھو دو گے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی توفیق بخش دے گا اور تم نامراد رہ جاؤگے |
1 | اسی سے یہ مسئلہ نکلا ہے کہ جب تک نفیر عام (جنگی خدمت کے لیے عام بلاوا) نہ ہو، یا جب تک کسی علاقے کی مسلم آبادی یا مسلمانوں کے کسی گروہ کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم نہ دیا جائے، اس وقت تک تو جہاد فرض کفایہ رہتا ہے ، یعنی اگر کچھ لوگ اسے ادا کرتے رہیں تو باقی لوگوں پر سے اس کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے ۔ لیکن جب امام المسلمین کی طرف سے مسلمانوں کو جہاد کا عام بلاوا ہو جائے، یا کسی خاص گروہ یا خاص علاقے کی آبادی کو بلاوا دے دیا جائے تو ، پھر جنہیں بلاوا دیا گیا ہو ان پر جہاد فرض عین ہے، حتٰی کہ جو شخص کسی حقیقی معذوری کےبغیر نہ نکلے ا س کاایمان تک معتبر نہیں ہے |
Surah 9 : Ayat 42
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّٱتَّبَعُوكَ وَلَـٰكِنۢ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ ٱلشُّقَّةُۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ لَوِ ٱسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَـٰذِبُونَ
اے نبیؐ، اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا1 اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں
1 | یعنی یہ دیکھ کر کہ مقابلہ روم جیسی طاقت سے ہے اور زمانہ شدید گرمی کا ہے اور ملک میں قحط برپا ہے اور نئے سال کی فصلیں جن سے آس لگی ہوئی تھی، کٹنے کے قریب ہیں، ان کو تبوک کا سفر بہت ہی گراں محسُوس ہونے لگا |
Surah 9 : Ayat 46
۞ وَلَوْ أَرَادُواْ ٱلْخُرُوجَ لَأَعَدُّواْ لَهُۥ عُدَّةً وَلَـٰكِن كَرِهَ ٱللَّهُ ٱنۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ ٱقْعُدُواْ مَعَ ٱلْقَـٰعِدِينَ
اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسندہی نہ تھا1، اس لیے اس نے انہیں سست کر دیا اور کہہ دیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ
1 | یعنی بادل نا خواستہ اٹھنا اللہ کو پسند نہیں تھا۔ کیونکہ جب وہ شرکت جہاد کے جذبے اور نیت سے خالی تھے اور ان کے اندر دین کی سربلندی کے لیے جاں فشانی کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی، تو وہ صرف مسلمانوں کی شرما شرمی سے بددلی کے ساتھ یا کسی شرارت کی نیت سے مستعدی کے ساتھ اُٹھتے اور یہ چیز ہزار خرابیوں کی موجب ہوتی جیسا کہ بعد والی آیت میں بتصریح فرما دیا گیا ہے |
Surah 9 : Ayat 56
وَيَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَـٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ
وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں، حالانکہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوف زدہ ہیں