Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 150
وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُۥ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَٱخْشَوْنِى وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِى عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو، اپنا رُخ مسجد حرام کی طرف پھیرا کرو، اور جہاں بھی تم ہو، اُسی کی طرف منہ کر کے نما ز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے1 ہاں جو ظالم ہیں، اُن کی زبان کسی حال میں بند نہ ہوگی تو اُن سے تم نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو اور اس لیے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں2 اور اس توقع پر3 کہ میرے اس حکم کی پیروی سے تم اسی طرح فلاح کا راستہ پاؤ گے
3 | یعنی اس حکم کی پیروی کرتے ہوئے یہ اُمید رکھو۔ یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ بادشاہ کا اپنی شان ِ بے نیازی کے ساتھ کسی نوکر سے یہ کہہ دینا کہ ہماری طرف سے فلاں عنایت و مہربانی کے اُمیدوار رہو، اس بات کے لیے بالکل کافی ہوتا ہے کہ وہ ملازم اپنے گھر شادیانے بجوادے اور اسے مبارکبادیاں دی جانے لگیں |
2 | نعمت سے مُراد وہی امامت اور پیشوائی کی نعمت ہے، جو بنی اسرائیل سے سَلْب کر کے اس اُمت کو دی گئی تھی۔ دُنیا میں ایک اُمّت کی راست روی کا یہ انتہائی ثمرہ ہے کہ وہ اللہ کے اَمِرتَشْرِیْعِی سے اقوامِ عالم کی رہنما و پیشوا بنائی جائے اور نَوعِ انسانی کو خدا پرستی اور نیکی کے راستے پر چلانے کی خدمت اس کے سپرد کی جائے۔ یہ منصب جس اُمت کو دیا گیا ، حقیقت میں اُس پر اللہ کے فضل و انعام کی تکمیل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا یہ حکم دراصل اس منصب پر تمہاری سرفرازی کا نشان ہے، لہٰذا تمہیں اس لیے بھی ہمارے اس حکم کی پیروی کرنی چاہیے کہ ناشکری و نافرمانی کرنے سے کہیں یہ منصب تم سے چھین نہ لیا جائے۔ اس کی پیروی کر و گے، تو یہ نعمت تم پر مکمل کر دی جائے گی |
1 | یعنی ہمارے اس حکم کی پُوری پابندی کرو۔ کبھی ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی شخص مقررہ سَمْت کے سوا کسی دُوسری سَمْت کی طرف نماز پڑھتے دیکھا جائے۔ ورنہ تمہارے دُشمنوں کو تم پر یہ اعتراض کرنے کا موقع مل جائے گا کہ کیا خوب اُمّتِ وَسَط ہے، کیسے اچھے حق پرستی کے گواہ بنے ہیں، جو یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہ حکم ہمارے ربّ کی طرف سے آیا ہے اور پھر اس کی خلاف ورزی بھی کیے جاتے ہیں |
Surah 5 : Ayat 3
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةُ وَٱلدَّمُ وَلَحْمُ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ وَٱلْمُنْخَنِقَةُ وَٱلْمَوْقُوذَةُ وَٱلْمُتَرَدِّيَةُ وَٱلنَّطِيحَةُ وَمَآ أَكَلَ ٱلسَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِٱلْأَزْلَـٰمِۚ ذَٲلِكُمْ فِسْقٌۗ ٱلْيَوْمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَٱخْشَوْنِۚ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًاۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ فِى مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍۙ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تم پر حرام کیا گیا مُردار1، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو25، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور3 وہ جو کسی آستا نے4 پر ذبح کیا گیا ہو5 نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو6 یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو7 آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو)8 البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے9
9 | ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۱۷۲ |
8 | دین کو مکمل کر دینے سے مُراد ُس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواب اُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نعمت تمام کرنے سے مُراد نعمتِ ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا ، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچّا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجۂ قبولیّت عطا فر مایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کو جُوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبُوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر اندازِ کلام سے خود بخود یہ بات نِکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہین تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حُدُود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔ مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر سن ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی ۔ لیکن جس سلسلۂ کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صُلحِ حُدَیبیَہ سے متصل زمانہ (سن ۶ ہجری) کا ہے اور سیاقِ عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلۂ کلام اِن فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے ، وَ الْعِلْم ُ عِنْدَ اللہ، کہ ابتداءً یہ آیت اِسی سیاق ِ کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیّت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا |
7 | آج“ سے مراد کوئی خاص دن اور تاریخ نہیں ہے بلکہ وہ دَور یا زمانہ مراد ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ ہماری زبان میں بھی آج کا لفظ زمانۂ حال کے لیے عام طور پر بولا جاتا ہے۔ ”کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے“، یعنی اب تمہارا دین ایک مستقل نظام بن چکا ہے اور خوس اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ و قائم ہے۔ کفار جو اب تک اس کے قیام میں مانع و مزاحم رہے ہیں ، اب اس طرف سے مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اِسے مٹا سکیں گے اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیّت کی طرف واپس لے جا سکیں گے۔ ”لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو“، یعنی اس دین کے احکام اور اس کے ہدایات پر عمل کر نے میں اب کسی کافر طاقت کے غلبہ و قہر اور در اندازی و مزاحمت کا خطرہ تمہارے لیے باقی نہیں رہا ہے۔ انسانوں کے خوف کی اب کوئی وجہ نہیں رہی۔ اب تمہیں خدا سے ڈرنا چاہیے کہ اس کے احکام کی تعمیل میں اگر کوئی کوتاہی تم نے کی تو تمہارے پاس کوئی ایسا عذر نہ ہوگا جس کی بنا پر تمہارے ساتھ کچھ بھی نرمی کی جائے۔ اب شریعتِ الہٰی کی خلاف ورزی کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ تم دُوسرے کے اثر سے مجبُور ہو، بلکہ اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے |
6 | اِس آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے اس کی تین بڑی قسمیں دُنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حُکم ان تینوں پر حاوی ہے: (۱) مشرکانہ فال گیری، جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پُوچھا جاتا ہے ، یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے، یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکینِ مکّہ نے اِس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہُبَل دیوتا کے بُت کو مخصُوص کر رکھا تھا ۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پُوچھنا ہو، یا خُون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو، غرض کوئی کام بھی ہو، اس کے لیے ہُبَل کے پانسہ دار ( صاحبِ القِداح) کے پاس پہنچ جاتے، اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہُبَل سے دُعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پھر پانسہ دار اِن تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا ، اور جو تیر بھی فال میں نِکل آتا اس پر لِکھے ہوئے لفظ کو ہُبَل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ (۲) توہّم پرستانہ فال گیری، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلۂ علمِ غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل ، نجوم، جفر، مختلف قسم کے شگون اور نچھتر، اور فال گیری کے بے شمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں۔ (۳)جُوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نِکل آیا ہے لہٰذا ہزار ہا آدمیوں کی جیب سے نِکلا ہوا روپیہ اُس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمّہ کے بہت سے حل صحیح ہیں، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اُس حل کے مطابق نِکل آیا ہو جو صاحبِ معمّہ کے صندوق میں بند ہے۔ اِن تین اقسام کو حرام کر دینے کے بعد قُرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صُورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے، اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے ، اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صُورت میں ان کی رضا مندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جا سکتا ہے۔ یا مثلاً دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہو گیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے ۔ اس صُورت میں ضرورت ہو تو قریہ اندازی کی جاسکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بالعمُوم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرمانے تھے جبکہ دو برابر حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی اور آپ ؐ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ ؐ خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دُوسرے کو ملال ہو گا |
5 | اس مقام پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیُود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں اُن کی اصل بُنیاد اُن اشیاء کے طبّی فوائد یا نقصانات نہیں ہوتے، بلکہ اُن کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔ جہاں تک طبیعی اُمُور کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ دریافت کرنا انسان کا اپنا کام ہے کہ مادّی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غزائے صالح بہم پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید ہیں یا نقصان دہ ہیں۔ شریعت اِن اُمُور میں اس کی رہنمائی کی ذمّہ داری اپنے سر نہیں لیتی۔ اگر یہ کام اس نے اپنے ذمّہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے سنکھیا کو حرام کیا ہوتا۔ لیکن آپ دیکھتے ہی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اُس کا، یا اُن دُوسرے مفردات و مرکبّات کا ، جو انسان کے لیے سخت مُہلک ہیں، سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز پر روشنی ڈالتی ہے وہ دراصل اُس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر ہوتا ہے، اور کونسی غذائیں طہارتِ نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں ، اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے صحیح یا غلط ہیں۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ، اور اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسّر ہی نہیں ہیں، اور اسی بنا پر انسان نے اکثر اِن اُمُور میں غلطیاں کی ہیں، اس لیے شریعت صرف اِنہی اُمُور میں، اس کی رہنمائی کرتی ہے ۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انہیں اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا بُرا اثر پڑتا ہے، یا وہ طہارت کے خلاف ہیں، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے۔ بر عکس اس کے جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ان کی حِلّت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِن بُرائیوں میں سے کوئی بُرائی اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ خدا نے ہم کو ان اشیاء کی حُرمت کے وجوہ کیوں نہ سمجھائے تا کہ ہمیں بصیرت حاصل ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے وجوہ کو سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ مثلاً یہ بات کہ خُون ، یا سُور کے گوشت یا مُردار کے کھانے سے ہماری اخلاقی صفات میں کیا خرابیاں رُونما ہوتی ہیں، کس قدر اور کس طرح ہوتی ہیں، اس کی تحقیق ہم کسی طرح نہیں کر سکتے ، کیونکہ اخلاق کو نا پنے اور تولنے کے ذرائع ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ اگر بالفرض اُن کے بُرے اثرات کو بیان کر بھی دیا جاتا تو شبہ کرنے ولا تقریباً اُسی مقام پر ہوتا جس مقام پر وہ اب ہے، کیونکہ وہ اس بیان کی صحت و عدمِ صحت کو آخر کس چیز سے جانچتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حرام و حلال کے حُدُود کی پابندی کا انحصار ایمان پر رکھ دیا ہے۔ جو شخص اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ کتاب ، اللہ کی کتاب ہے اور رسول ، اللہ کا رسول ہے ، اور للہ علیم و حکیم ہے، وہ اس کے مقرر کیے ہوئے حُدُود کی پابندی کرے گا، خواہ ان کی مصلحت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اور جو شخص اس بُنیادی عقیدے پر ہی مطمئن نہ ہو، اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جن چیزوں کی خرابیاں انسانی علم کے احاطہ میں آگئی ہیں صرف انہی سے پرہیز کرے ا ور جن کی خرابیوں کا علمی احاطہ نہیں ہو سکا ہے ان کے نقصانات کا تختہ ٔ مشق بنتا رہے |
4 | اصل میں لفظ” نُصُب“ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیراللہ کی نذر و نیاز چڑھانے کے لیے لوگوں نے مخصُوص کر رکھا ہو، خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مُورت ہو یا نہ ہو۔ ہماری زبان میں اس کا ہم معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا سے ، یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو |
3 | یعنی جو جانور مذکورۂ بالا حوادث میں سے کسی حادثے کا شکار ہوجانے کے باوجود مرا نہ ہو بلکہ کچھ آثارِ زندگی اس میں پائےجاتے ہوں ، اس کو اگر ذبح کر لیا جائے تو اُسے کھا یا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حلال جانور کا گوشت صرف ذبح کرنے سے حلال ہوتا ہے ، کوئی دُوسرا طریقہ اس کو ہلاک کر نے کا صحیح نہیں ہے۔ یہ ”ذبح“ اور ”ذکاۃ“ اسلام کے اصطلاحی لفظ ہیں۔ ان سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے جس سے جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے۔ جھٹکا کرنے یا گلا گھُونٹنے یا کسی اور تدبیر سے جانور کو ہلاک کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خُون کا بیشتر حصہ جسم کے اندر ہی رُک کر رہ جاتا ہے اور وہ جگہ جگہ جم کر گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔۔ بر عکس اس کے ذبح کرنے کی صُورت میں دماغ کے ساتھ جسم کا تعلق دیر تک باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے رگ رگ کا خُون کھِنچ کر باہر آجاتا ہے اور اس طرح پُورے جسم کا گوشت خُون سے صاف ہوجاتا ہے۔ خون کے متعلق ابھی اُوپر ہی یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حرام ہے، لہٰذا گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خُون اس سے جُدا ہو جائے |
2 | یعنی جس کو ذبح کرتے وقت خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو، یا جس کو ذبح کرنے سے پہلے یہ نیت کی گئی ہو کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی نذر ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۱۷۱) |
1 | یعنی وہ جانور جو طبعی موت مر گیا ہو |
Surah 5 : Ayat 44
إِنَّآ أَنزَلْنَا ٱلتَّوْرَٮٰةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌۚ يَحْكُمُ بِهَا ٱلنَّبِيُّونَ ٱلَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَٱلرَّبَّـٰنِيُّونَ وَٱلْأَحْبَارُ بِمَا ٱسْتُحْفِظُواْ مِن كِتَـٰبِ ٱللَّهِ وَكَانُواْ عَلَيْهِ شُهَدَآءَۚ فَلَا تَخْشَوُاْ ٱلنَّاسَ وَٱخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُواْ بِـَٔـايَـٰتِى ثَمَنًا قَلِيلاًۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی سارے نبی، جو مسلم تھے، اُسی کے مطابق اِن یہودی بن جانے والوں کے معاملات1 کا فیصلہ کرتے تھے، اور اِسی طرح ربانی اور احبار بھی2 (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں
2 | ربّانی = علماء – احبار = فقہاء |
1 | یہاں ضمناً اس حقیقت پر بھی متنبّہ کر دیا گیا کہ انبیاء سب کے سب ”مسلم“ تھے، بخلاف اس کے یہ یہودی ”اسلام “ سے ہٹ کر اور فرقہ بندی میں مبتلا ہو کر صرف”یہودی“ بن کر رہ گئے تھے |
Surah 5 : Ayat 54
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَسَوْفَ يَأْتِى ٱللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُۥٓ أَذِلَّةٍ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلْكَـٰفِرِينَ يُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآئِمٍۚ ذَٲلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے1، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے2 یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے
2 | یعنی اللہ کے دین کی پَیروی کرنے میں، اُس کے احکام پر عملدرآمد کرنے میں، اور اِس دین کی رُو سے جو کچھ حق ہے اُسے حق اور جو کچھ باطل ہے اُسے باطل کہنے میں اُنہیں کوئی باک نہ ہوگا۔ کسی کی مخالفت، کسی کی طعن و تشنیع ، کسی کے اعتراض اور کسی کی پھبتیوں اور آوازوں کی وہ پروا نہ کریں گے۔ اگر رائے عام اسلام کی مخالف ہو اور اسلام کے طریقے پر چلنے کے معنی اپنے آپ کو دُنیا بھر میں نکّو بنا لینے کے ہوں تب بھی وہ اسی راہ پر چلیں گے جسے وہ سچّے دل سے حق جانتے ہیں |
1 | مومنوں پر نرم“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہلِ ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے۔ اُس کی ذہانت ، اُس کی ہوشیاری، اُس کی قابلیت، اُس کا رسُوخ و اثر، اُس کا مال، اُس کا جسمانی زور، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو۔ مسلمان اپنے درمیان اس کو ہمیشہ ایک نرم خو، رحم دل، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں۔ ”کفار پر سخت“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن آدمی اپنے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلُوص ، اصُول کی مضبُوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخلالفینِ اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کے مانند ہو کہ کسی طرح اپنے مقام سے ہٹایا نہ جا سکے۔ وہ اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ بنائیں۔ انہیں جب بھی اس سے سابقہ پیش آئے اُن پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ اللہ کا بندہ مر سکتا ہے مگر کسی قیمت پر بِک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا |
Surah 9 : Ayat 13
أَلَا تُقَـٰتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوٓاْ أَيْمَـٰنَهُمْ وَهَمُّواْ بِإِخْرَاجِ ٱلرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍۚ أَتَخْشَوْنَهُمْۚ فَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
کیا تم نہ لڑو گے1 ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو
1 | اب تقریر کا رُخ مسلمانوں کی طرف پھرتا ہے ا ور ان کو جنگ پر ابھارنے اور دین کے معاملہ میں کسی رشتہ و قرابت اور کسی دنیوی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کی پُر زور تلقین کی جاتی ہے ۔ اس حصہ تقریر کی پوری رُوح سمجھنے کے لیے پھر ایک مرتبہ اُس صورت حال کو سامنے رکھ لینا چاہیے جو اُس وقت درپیش تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام اب ملک کے ایک بڑے حصہ پر چھا گیا تھا اور عرب میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ رہی تھی جو اس کو دعوت مبارزت دے سکتی ہو ، لیکن پھر بھی جو فیصلہ کن قدم اور انتہائی انقلابی قدم اس موقع پر اُٹھایا جا رہا تھا اس کے اندر بہت سے خطرناک پہلو ظاہر بین نگاہوں کو نظر آرہے تھے: اوّلاً تمام مشرک قبائل کو بیک وقت معاہدات کی منسوخی کا چیلنج دے دینا، پھر مشرکین کے حج کی بندش ، کعبے کی تولیت میں تغیر، اور رسوم جاہلیت کا کلّی انسداد یہ معنی رکھتا تھا کہ ایک مرتبہ سارے ملک میں آگ سی لگ جائے اور اور مشرکین و منافقین اپنا آخری قطرۂ خون تک اپنے مفادات اور تعصبات کی حفاظت کے لیے بہا دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ ثانیًا حج کو صرف اہل توحید کے لیے مخصوص کر دینے اور مشرکین پر کعبے کا راستہ بند کر دینے کے معنی یہ تھے کہ ملک کی آبادی کا ایک معتدبہ حصہ ، جو ابھی مشرک تھا ، کعبہ کی طرف اُس نقل و حرکت سے باز رہ جائے جو صرف مذہبی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ معاشی حیثیت سے بھِ عرب میں غیر معمولی حیثیت رکھتی تھی اور جس پر اُس زمانہ میں عرب کی معاشی زندگی کا بہت بڑا انحصار تھا۔ ثالثًا جو لوگ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ان کے لیے یہ معاملہ بڑی کڑی آزمائش کا تھا کیونکہ ان کے بہت سے بھائی بند، عزیز اقارب ابھی تک مشرک تھے اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے مفاد قدیم نطام جاہلی کے مناصب سے وابستہ تھے۔ اب جو بظاہر تمام مشرکین عرب کا تہس نہس کر ڈالنے کی تیاری کی جا رہی تھی تو اس کے معنی یہ تھے کہ یہ نئے مسلمان خود اپنے ہاتھوں اپنے خاندانوں اور اپنے جگر گوشوں کو پیوند خاک کریں اور ان کے جاہ و منصب اور صدیوں کے قائم شدہ امتیازات کا خاتمہ کردیں۔ اگرچہ فی الواقع اِن میں سے کوئی خطرہ بھی عملًا بروئے کار نہ آیا۔ اعلانِ براءَت سے ملک میں حربِ کلّی کی آگ بھڑکنے کے بجائے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ تمام اطراف و اکناف عرب سے بچے کھچے مشرک قبائل اور امراء و ملوک کے وفد آنے شروع ہو گئے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسلام و اطاعت کا عہد کیا اور ان کے اسلام قبول کر لینے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو اس کی پوزیشن پر بحال رکھا۔ لیکن جس وقت اِس نئی پالیسی کا اعلان کیا جا رہا تھا اُس وقت تو بہر حال کوئی بھی اِس نتیجہ کو پیشگی نہ دیکھ سکتا تھا۔ نیز یہ کہ اس اعلان کے ساتھ ہی اگر مسلمان اسے بزور نافذ کر نے کے لیے پوری طرح تیار نہ ہو جاتے تو شاید یہ نتیجہ برآمد بھی نہ ہو تا ۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کو اس موقع پر جہاد فی سبیل اللہ کی پر جوش تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے اُن تمام اندیشوں کو دور کر دیا جاتا جو اس پالیسی پر عمل کرنے میں ان کو نظر آرہے تھے اور ان کو ہدایت کی جاتی کہ اللہ کی مرضی پوری کرنے میں انہیں کسی چیز کی پروا نہ کرنی چاہیے ۔ یہی مضمون اس تقریر کا موضوع ہے |
Surah 9 : Ayat 18
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٲةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا ٱللَّهَۖ فَعَسَىٰٓ أُوْلَـٰٓئِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ ٱلْمُهْتَدِينَ
اللہ کی مسجدوں کے آباد کار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نما ز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے
Surah 33 : Ayat 37
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِىٓ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَٱتَّقِ ٱللَّهَ وَتُخْفِى فِى نَفْسِكَ مَا ٱللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى ٱلنَّاسَ وَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَـٰهُۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَـٰكَهَا لِكَىْ لَا يَكُونَ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِىٓ أَزْوَٲجِ أَدْعِيَآئِهِمْ إِذَا قَضَوْاْ مِنْهُنَّ وَطَرًاۚ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ مَفْعُولاً
اے نبیؐ1، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا2 کہ "اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ڈر3" اُس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو4 پھر جب زیدؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا5 تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا6 تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں7 اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہیے تھا
7 | یہ الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے یہ کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ایسی ضرورت اور مصلحت کی خاطر کرایا تھا جو اس تدبیر کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے پوری نہ ہو سکتی تھی۔ عرب میں منہ بولے رشتوں کے بارے میں جو غلط رسوم رائج ہو گئی تھیں، ان کے توڑنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ، اللہ کا رسول خود آگے بڑھ کر ان کو توڑ ڈالے۔ لہٰذا یہ نکاح اللہ تعالٰی نے محض نبی کے گھر میں ایک بیوی کا اضافہ کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت کی خاطر کروایا۔ |
6 | یہ الفاظ اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نکاح خود اپنے خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے حکم کی بنا پر کیا تھا۔ |
5 | یعنی جب زیدؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی عدّت پور ی ہو گئی۔’’حاجت پوری کر چکا‘‘ کے الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ زیدؓ کی اس سے کوئی حاجت باقی نہ رہی۔ اور یہ صورتِ حال محض طلاق دے دینے سے رونما نہیں ہوتی، کیوں کہ عدّت کے دَوران میں شوہر کو اگر کچھ دلچسپی باقی ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے، اور شوہر کی یہ حاجت بھی مطلقہ بیوی سے باقی رہتی ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جائے۔ اس لیے مطلّقہ بیوی کے ساتھ اس کے سابق شوہر کی حاجت صرف اُسے وقت ختم ہو تی ہے جب عدّت گزر جائے۔ |
4 | بعض لوگوں نے اس فقرے کا اُلٹا مطلب یہ نکال لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حضرت زینبؓ سے نکاح کے خواہشمند تھے، اور آپؐ کا جی چاہتا تھا کہ حضرت زیدؓ ان کو طلاق دے دیں، مگر جب انہوں نے آ کر عرض کیا کہ میں بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو آپؐ نے معاذاللہ اوپری دِل سے ان کو منع کیا، اس پر اللہ تعالٰی فرما رہا ہے کہ ’’تم دِل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔‘‘ حالاں کہ اصل بات اس کے برعکس ہے۔ اگر اس سورہ کی آیات نمبر ۱۔۲۔۳۔اور۔۷ کے ساتھ ملا کر یہ فقرہ پڑھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حضرت زیدؓ اور ان کی اہلیہ کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اسی زمانے میں اللہ تعالٰی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اشارہ کر چکا تھا کہ زیدؓ جب اپنی بیوی کو طلاق دیں تو ان کی مطلقہ خاتون سے آپ کو نکاح کرنا ہو گا۔ لیکن چوں کہ حضورؐ جانتے تھے کہ عرب کی اس سوسائٹی میں منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے.........اور وہ بھی عین اس حالت میں جبکہ مٹھی بھر مسلمانوں کے سوا باقی سارا عرب آپؐ کے خلاف پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا۔اِس لیے آپؐ اس شدید آزمائش میں پڑنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اسی بنا پر جب حضرت زیدؓ نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورؐ نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنے بیوی کو طلاق نہ دو۔ آپؐ کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو میں اِس بلا میں پڑنے سے بچ جاؤں، اور نہ اس کے طلاق دے دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہو گی اور پھر مجھ پر وہ کیچڑ اُچھالی جائے گی کہ پناہ بخدا۔ مگر اللہ تعالٰی اپنے نبیؐ کو اولو العزمی اور رضا بقضا کے جس بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اُس کے لحاظ سے حضورؐ کی یہ بات اُس کو فروتر نظر آئی کہ آپؐ نے قصداً زیدؓ کو طلاق سے روکا تاکہ آپؐ اُس کام سے بچ جائیں جس میں آپؐ کو بدنامی کا اندیشہ تھا، حالاں کہ اللہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر وہ کام آپؐ سے لینا چاہتا تھا۔’’تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘ کے الفاظ صاف صاف اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یہی بات اس آیت کی تشریح میں امام زین العابدین حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالٰی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دے چکا تھا کہ زینب ؓ آپ کی بیویوں میں شامل ہونے والی ہیں، مگر جب زیدؓ نے آکر اُن کی شکایت آپؐسے کی تو آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو۔ اس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ میں تمہیں پہلے خبر دے چکا تھا کہ میں تمہارا نکاح زینبؓ سے کرنے والا ہوں، تم زیدؓ سے یہ بات کہتے وقت اُس بات کو چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا‘‘ (ابن جریر۔ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم) علامۂ آلوسی نے بھی تفسیر رُوح المعانی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ عتاب کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے زیدؓ سے یہ کیوں کہا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو، حالانکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زینبؓ تمہاری بیویوں میں شامل ہوں گی‘‘۔ |
3 | یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت زید ؓ سے حضرت زینبؓ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے۔ اور انہوں نے بار بار شکایات پیش کرنے کے بعد آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ حضرت زینبؓ نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان کر ان کے نکاح جانا قبول کر لیا تھا، لیکن وہ اپنے دِل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹا سکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں،اُن کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں، اور وہ عرب کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود اس کم تر درجے کے آدمی سے بیاہی گئی ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہوں نے کبھی حضرت زیدؓ کو اپنے برابر کا نہ سمجھا، اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدّت گزری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ |
2 | یہاں سے آیت ۴۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین ‘ یہود اور مشرکین نے آپؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفانِ عظیم بر پا کر رکھا تھا۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذ ہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے ، بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تن انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان بندگانِ حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا ، اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے |
1 | یہاں سے آیت ۴۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین‘ یہود اور مشرکین نے آپؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفانِ عظیم برپا کر رکھا تھا۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذ ہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالٰی کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے، بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تن انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان بندگانِ حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا، اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ |