Ayats Found (3)
Surah 24 : Ayat 12
لَّوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُواْ هَـٰذَآ إِفْكٌ مُّبِينٌ
جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا1 اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے2؟
2 | یعنی یہ بات تو قابل غور تک نہ تھی۔ اسے تو سنتے ہی ہر مسلمان کو سراسر جھوٹ اور کذب و افتراء کہہ دینا چاہیے تھا۔ ممکن ہے کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ جب یہ بات تھی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق نے اسے کیوں نہ اول روز ہی جھٹلا دیا اور کیوں انہوں نے اسے اتنی اہمیت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور باپ کی پوزیشن عام آدمیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اگر چہ ایک شوہر سے بڑھ کر کوئی اپنی بیوی کو نہیں جان سکتا اور ایک شریف و صالح بیوی کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شوہر لوگوں کے بہتانوں پر فی الواقع بد گمان نہیں ہو سکتا، لیکن اگر اس کی بیوی پر الزام لگا دیا جاۓ تو وہ اس مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ اسے بہتان کہہ کر رد کر بھی دے تو کہنے والوں کی زبان نہ رکے گی، بلکہ وہ اس پر ایک اور ردّا یہ چڑھائیں گے کہ بیوی نے میاں صاحب کی عقل پر کیسا پردہ ڈال رکھا ہے ، سب کچھ کر رہی ہے اور میاں یہ سمجھتے ہیں کہ میری بیوی بڑی پاک دامن ہے۔ ایسی ہی مشکل ماں باپ کو پیش آتی ہے۔ وہ غریب اپنی بیٹی کی عصمت پر صریح جھوٹے الزام کی تردید میں اگر زبان کھولیں بھی تو بیٹی کی پوزیشن صاف نہیں ہوتی۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ ماں باپ ہیں ،اپنی بیٹی کی حمایت نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ یہ چیز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور ام رومان کو اندر ہی اندر غم سے گھلاۓ دے رہی تھی۔ ورنہ حقیقت میں کوئی شک ان کو لاحق نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو خطبے ہی میں صاف فرما دیا تھا کہ میں نے نہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق یہ الزام لگایا جا رہا ہے |
1 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے لوگوں ،یا اپنی ملت اور اپنے معاشرے کے لوگوں سے بیک گمان کیوں نہ کیا۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، اور اس ذو معنی فقرے کے استعمال میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے خوب سمجھ لینا چاہیے۔ جو صورت معاملہ حضرت عائشہ اور صفوان بن معطل کے ساتھ پیش آئی تھی وہ یہی تو تھی کہ قافلے کی ایک خاتون(قطع نظر اس سے کہ وہ رسول کی بیوی تھیں ) اتفاق سے پیچھے رہ گئی تھیں اور قافلے ہی کا ایک آدمی جو خود اتفاق سے پیچھے رہ گیا تھا، انہیں دیکھ کر اپنے اونٹ پر ان کو بٹھا لایا۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ معاذ اللہ یہ دونوں تنہا ایک دوسرے کو پاکر گناہ میں مبتلا ہو گۓ تو اس کا یہ کہنا اپنے ظاہر الفاظ کے پیچھے دو اور مفروضے بھی رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ قائل (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) اگر خود اس جگہ ہوتا تو کبھی گناہ کیے بغیر نہ رہتا، کیونکہ وہ اگر گناہ سے رکا ہوا ہے تو صرف اس لیے کہ اسے صنف مقابل کا کوئی فرد اس طرح تنہائی میں ہاتھ نہ آگیا، ورنہ ایسے نادر موقع کو وہ چھوڑنے والا نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ جس معاشرے سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کی اخلاقی حالت کے متعلق اس کا گمان یہ ہے کہ یہاں کوئی عورت بھی ایسی نہیں ہے اور نہ کوئی مرد ایسا ہے جسے اس طرح کا کوئی موقع پیش آ جاۓ اور وہ گناہ سے باز رہ جاۓ۔ یہ تو اس عورت میں ہے جب کہ معاملہ محض ایک مرد اور ایک عورت کا ہو۔ اور بالفرض اگر وہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہوں ، اور عورت جو اتفاقاً قافلے سے بچھڑ گئی تھی، اس مرد کے کسی دوست یا رشتہ دار یا ہمساۓ یا واقف کار کی بیوی بہن ، یا بیٹی ہو تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ اس کے معنی پھر یہ ہو جاتے ہیں کہ کہنے والا خود اپنی ذات کے متعلق بھی اور اپنے معاشرے کے متعلق بھی ایسا سخت گھناؤنا تصور رکھتے ہے جسے شرافت سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ کون بھلا آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے کسی دوست یا ہمساۓ یا واقف کار کے گھر کی کوئی عورت اگر اتفاق سے کہیں بھولی بھٹکی اسے راستے میں مل جاۓ تو وہ پہلا کام بس اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے ہی کا کرے گا، پھر کہیں اسے گھر پہنچانے کی تدبیر سوچے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس سے ہزار گنا زیادہ سخت تھا۔ خاتون کوئی اور نہ تھیں ، رسولؐ اللہ کی بیوی تھیں جنہیں ہر مسلمان اپنی ماں سے بڑھ کر احترام کے لائق سمجھتا تھا،جنہیں اللہ نے خود ہر مسلمان پر ماں کی طرح حرام قرار دیا تھا۔ مرد نہ صرف یہ کہ اسی قافلے کا ایک آدمی، اسی فوج کا ایک سپاہی اور اسی شہر کا ایک باشندہ تھا، بلکہ وہ مسلمان تھا، ان خاتون کے شوہر کو اللہ کا رسول اور اپنا ہادی و پیشوا مانتا تھا، اور ان کے فرمان پر جان قربان کرنے کے لیے جنگ بدر جیسے خطرناک معرکے میں شریک ہو چکا تھا۔ اس صورت حال میں تو اس قول کا ذہنی پس منظر گھناؤنے پن کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے جس سے بڑھ کر کسی گندے تخیل کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ مسلم معاشرے کے جن افراد نے یہ بت زبان سے نکالی یا اسے کم از کم شک کے قابل خیال کیا انہوں نے خود اپنے نفس کا بھی بہت برا تصور قائم کیا اور اپنے معاشرے کے لوگوں کو بھی بڑے ذلیل اخلاق و کردار کا مالک سمجھا |
Surah 24 : Ayat 16
وَلَوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَآ أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَـٰذَا سُبْحَـٰنَكَ هَـٰذَا بُهْتَـٰنٌ عَظِيمٌ
کیوں نہ اُسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ "ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے"
Surah 24 : Ayat 17
يَعِظُكُمُ ٱللَّهُ أَن تَعُودُواْ لِمِثْلِهِۦٓ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو