Ayats Found (9)
Surah 4 : Ayat 133
إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ وَيَأْتِ بِـَٔـاخَرِينَۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ ذَٲلِكَ قَدِيرًا
اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹا کر تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے، اور وہ اِس کی پوری قدرت رکھتا ہے
Surah 6 : Ayat 133
وَرَبُّكَ ٱلْغَنِىُّ ذُو ٱلرَّحْمَةِۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنۢ بَعْدِكُم مَّا يَشَآءُ كَمَآ أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ ءَاخَرِينَ
تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے1 اگر و ہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے جس طرح اُس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے
1 | تمہارا رب بے نیاز ہے“ یعنی اس کی کوئی غرض تم سے اٹکی ہوئی نہیں ہے، اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ نہیں ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہو، یا تمہاری فرماں برداری سے اس کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہو۔ تم سبمل کر سخت نافرمان بن جاؤ تو اس کی بادشاہی میں ذرہ برابر کمی نہیں کر سکتے ، اور سب کے سب مل کر اس کے مطیعِ فرمان اور عبادت گزار بن جاؤ تو اس کے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے اور نہ تمہاری نذر و نیاز کا ۔ اپنے بے شمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے بغیر ا س کے کہ ان کے بدلہ میں اپنے لیے تم سے کچھ چاہے۔ ”مہربانی اس کا شیوہ ہے“۔ یہاں موقع و محل کے لحاظ سے اس فقرے کے دو مفہُوم ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارا رب تم کو راہِ راست پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور حقیقت نفس الامری کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری راست روی سے اس کا کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے۔ لہٰذا یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ وہ تمھیں اُس صحیح طرزِ عمل کی تعلیم دیتا ہے جس سے تم بلند مدارج تک ترقی کرنے کے قابل بن سکتے ہو اور اس غلط طرزِ عمل سے روکتا ہے جس کی بدولت تم پست مراتب کی طرف تنزّل کرتے ہو۔ دوسرے یہ کہ تمہارا ربّ سخت گیر نہیں ہے، تم کو سزا دینے میں اُسے کوئِ لُطف نہیں آتا ہے ، وہ تمھیں پکڑنے اور مارنے پر تُلا ہوا نہیں ہے کہ ذرا تم سے قصُور سرزد ہو اور وہ تمہاری خبر لے ڈالے۔ درحقیقت وہ اپنی تمام تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے، غایت درجہ کے رحم و کرم کے ساتھ خدائی کر رہا ہے، اور یہی اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اسی لیے وہ تمہارے قصُور پر قصُور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ تم نافرمانیاں کرتے ہو، گناہ کرتے ہو، جرائم کا ارتکاب کرتے ہو، اس کے رزق سے پَل کر بھی اس کے احکام سے منہ موڑتے ہو، مگر وہ حلم اور عفو ہی سے کام لیے جاتا ہےاور تمھیں سنبھلنے اور سمجھنے اور اپنی اصلاح کر لینے کے لیے مُہلت پر مُہلت دیے جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تمھیں دنیا سے رخصت کر دیتا اور تمہاری جگہ کسی دُوسری قوم کو اُٹھا کھڑا کرتا، یا سارے انسانوں کو ختم کر کے کوئی اور مخلوق پیدا کر دیتا |
Surah 14 : Ayat 19
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟ 1وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے
1 | یہ دلیل ہے اُس دعوے کی جو اوپر کیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اِس بات کو سُن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانۂ تخلیق حق پر قائم ہوا ہے نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز حقیقت اور واقعیت پر مبنی نہ ہو، بلکہ ایک بے اصل قیاس و گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو ، اُسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی۔ اُس کے لیے قرار ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اُس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اُس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی یہ اُمید کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اور ریت کی حقیقت نہیں کہ وہ عمارتوں کے لیے مضبوط بنیاد بن سکے۔ لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اُسے ناکام ہونا ہی چاہیے۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سُن کر تمہیں حیرت کس لیے ہوتی ہے کہ خدا کی اِس کائنات میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اَور کی خدائی مان کر (جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے) زندگی بسر کرے گا ، اس کا پورا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختا ر ہو یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو ، تو اس جھوٹ پر ، اس خلاف ِ واقعہ مفروضہ پر، اپنے پورے نظامِ فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تواُ س کے لیے اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو؟ |
Surah 14 : Ayat 20
وَمَا ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ بِعَزِيزٍ
ایسا کرنا اس پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے1
1 | دعوے پر دلیل پیش کرنے کے بعد فورًا ہی یہ فقرہ نصیحت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک شبہہ کا ازالہ بھی ہے جو اوپر کی دو ٹوک بات سُن کر آدمی کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے ۔ ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ اگر بات وہی ہے جو اِن آیتوں میں فرمائی گئی ہے تو یہاں ہر باطل پرست اور غلط کار آدمی فنا کیوں نہیں ہو جاتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نادان! کیا تُو سمجھتا ہے کہ اسے فنا کردینا اللہ کے لیے کچھ دشوار ہے ؟ یا اللہ سے اس کا کوئی رشتہ ہے کہ اس کی شرارتوں کے باوجود اللہ نے محض اقربا پروری کی بنا پر اُسے مجبورًا چھوٹ دے رکھی ہو؟ اگر یہ بات نہیں ہے ، اور تُو خود جانتا ہے کہ نہیں ہے، تو پھر تجھے سمجھنا چاہیے کہ ایک باطل پرست اور غلط کار قوم ہر وقت اس خطرے میں مبتلا ہے کہ اسے ہٹا دیا جائے اور کسی دوسری قوم کو اس کی جگہ کام کرنے کا موقع دے دیا جائے ۔ اس خطرے کے عملًا رُونما ہونے میں اگر دیر لگ رہی ہے تو اس غلط فہمی کے نشے میں مست نہ ہو جا کہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ مہلت کےایک ایک لمحے کو غنیمت جان اور اپنے باطل نظامِ فکر و عمل کی ناپائیداری کو محسوس کر کے اسے جلدی سے جلدی پائیدار بنیادوں پر قائم کر لے |
Surah 35 : Ayat 16
إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
وہ چاہے تو تمہیں ہٹا کر کوئی نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے
Surah 35 : Ayat 17
وَمَا ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ بِعَزِيزٍ
ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں1
1 | یعنی تم کچھ اپنے بل بوتے پر اس کی زمین میں نہیں دندنا رہے ہو۔ اس کا ایک اشارہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ تمہیں یہاں سے چلتا کرے اور کسی اور قوم کو تمہاری جگہ اٹھا کھڑا کرے۔ لہٰذا اپنی اوقات پہچانو اور وہ روش اختیار نہ کرو جس سے آخر کار قوموں کی شامت آیا کرتی ہے۔ خدا کی طرف سے جب کسی کی شامت آتی ہے تو ساری کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے اور اس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے روک سکے |
Surah 70 : Ayat 40
فَلَآ أُقْسِمُ بِرَبِّ ٱلْمَشَـٰرِقِ وَٱلْمَغَـٰرِبِ إِنَّا لَقَـٰدِرُونَ
پس نہیں1، میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے2 مالک کی، ہم اِس پر قادر ہیں
2 | یہاں اللہ تعالی نے خود اپنی ذات کی قسم کھائی ہے۔ مشرقوں اور مغربوں کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ سال کے دوران میں سورج ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع اور نئے زاویے پر غروب ہوتا ہے۔ نیز زمین کے مختلف حصوں پر سورج الگ الگ اوقات میں پے درپے طلوع اور غروب ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان اعتبارات سے مشرق اور مغرب ایک نہیں ہیں بلکہ بہت سے ہیں۔ ایک دوسرے اعتبار سے شمال اور جنوب کے مقابلے میں ا یک جہت مشرق ہے اور دوسری جہت مغرب۔ اس بنا پر سورہ شعراء ، آیت 28 اور سورہ مزمل، آیت 19 میں رب المشرق و المغرب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک ا ور لحاظ سے زمین کے دو مشرق اور دو مغرب ہیں، کیونکہ جب زمین کے ایک نصف کرے پھر سورج غروب ہوتا ہے تو دوسرے پر طلوع ہوتا ہے۔ اس بنا پر سورہ رحمن ، آیت 17 میں رب المشرقین و رب الغربین کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الرحمن ، حاشیہ 17) |
1 | یعنی بات وہ نہیں ہے جو انہوں نے سمجھ رکھی ہے |
Surah 70 : Ayat 41
عَلَىٰٓ أَن نُّبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
کہ اِن کی جگہ اِن سے بہتر لوگ لے آئیں اور کوئی ہم سے بازی لے جانے والا نہیں ہے1
1 | یہ ہے وہ بات جس پر اللہ تعالٰی نے اپنے رب المشارق والمغارب ہونے کی قسم کھائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم چونکہ مشرقوں اور مغربوں کے مالک ہیں اس لیے پوری زمین ہمارے قبضہ قدرت میں ہے اور ہماری گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ ہم جب چاہیں ہلاک کر سکتے ہیں اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اٹھا سکتے ہیں جو تم سے بہتر ہو |
Surah 76 : Ayat 28
نَّحْنُ خَلَقْنَـٰهُمْ وَشَدَدْنَآ أَسْرَهُمْۖ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ أَمْثَـٰلَهُمْ تَبْدِيلاً
ہم نے ہی اِن کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں، اور ہم جب چاہیں اِن کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں1
1 | اصل الفاظ ہیں اذا شنا بدلنا امثالھم تبدیلاً۔ اس فقرے کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ ہم جب چاہیں انہیں ہلاک کر کے انہی کے جنس کے دوسرے لوگ ان کی جگہ لا سکتے ہیں جو اپنےکردارمیں ان سےمختلف ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ ہم جب چاہیں ان کی شکلیں تبدیل کر سکتے ہیں، یعنی جس طرح ہم کسی کو تندرست اور سلیم الاعضاء بنا سکتے ہیں اسی طرح ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ کسی کو مفلوج کر دیں، کسی کو لقوہ مار جائے اور کوئی کسی بیماری یا حادثے کا شکار ہو کر اپاہج ہو جائے۔ تیسرے یہ کہ ہم جب چاہیں موت کے بعد ان کو دوبارہ کسی اور شکل میں پیدا کر سکتے ہیں |