Ayats Found (9)
Surah 4 : Ayat 157
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا ٱلْمَسِيحَ عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ ٱللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْۚ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِى شَكٍّ مِّنْهُۚ مَا لَهُم بِهِۦ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا ٱتِّبَاعَ ٱلظَّنِّۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَۢا
اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا
Surah 6 : Ayat 116
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِى ٱلْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور اے محمدؐ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں1
1 | یعنی بیشتر لوگ جو دنیا میں بستے ہیں علم کے بجائے قیاس و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور ان کے عقائد، تخیلات ، فلسفے، اُصُولِ زندگی اور قوانینِ عمل سب کے سب قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ بخلاف اس کے اللہ کے راستہ ، یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ جو اللہ کی رضا کے مطابق ہے، لازماً صرف وہی ایک ہے جس کا علم اللہ نے خود دیا ہے نہ کہ وہ جس کو لوگوں نے بطورِ خود اپنے قیاسات سے تجویز کر لیا ہے۔ لہٰذا کسی طالبِ حق کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دُنیا کے بیشتر انسان کِس راستہ پر جا رہے ہیں بلکہ اسے پُوری ثابت قدمی کے ساتھ اُس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے ، چاہے اس راستہ پر چلنے کے لیے وہ دُنیا میں اکیلا ہی رہ جائے |
Surah 6 : Ayat 148
سَيَقُولُ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكْنَا وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَىْءٍۚ كَذَٲلِكَ كَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُواْ بَأْسَنَاۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَآۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ
یہ مشرک لوگ (تمہاری ان باتوں کے جواب میں) ضرور کہیں گے کہ 1"اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھراتے" ایسی ہی باتیں بنا بنا کر اِن سے پہلے کے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزا انہوں نے چکھ لیا ان سے کہو "کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو"
1 | یعنی وہ اپنے جرم اور اپنی غلط کاری کے لیے وہی پُرانا عذر پیش کریں گے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیّت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھیرا رکھا ہے انھیں حرام ٹھیرائیں۔ ورنہ اگر خدا نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے ۔ پس چونکہ ہم اللہ کی مشیّت کے مطابق یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس لیے درست کر رہے ہیں، اس کا الزام اگر ہے تو ہم پر نہیں ، اللہ پر ہے۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے |
Surah 10 : Ayat 36
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّاۚ إِنَّ ٱلظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ ٱلْحَقِّ شَيْــًٔاۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمُۢ بِمَا يَفْعَلُونَ
حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں1، حالاں کہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے
1 | یعنی جنہوں نے مذاہب بنائے، جنہوں نے فلسفے تصنیف کیے، اور جنہوں نے قوانینِ حیات تجویز کیے انہوں نے بھی یہ سب کچھ علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان و قیاس کی بنا پر کیا۔ اورجنہوں نے ان مذہبی اور دنیوی رہنماؤں کی پیروی کی انہوں نے بھی جان کر اور سمجھ کر نہیں بلکہ محض اس گمان کی بنا پر اُن گا اتباع اختیار کر لیا کہ ایسے بڑے بڑے لوگ جب یہ کہتے ہیں اور باپ دادا ان کو مانتے چلے آرہے ہیں اور ایک دنیا ان کی پیروی کر رہی ہے تو ضرور ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ |
Surah 10 : Ayat 66
أَلَآ إِنَّ لِلَّهِ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِۗ وَمَا يَتَّبِعُ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ شُرَكَآءَۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے، سب سے سب اللہ کے مملوک ہیں اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں
Surah 45 : Ayat 24
وَقَالُواْ مَا هِىَ إِلَّا حَيَاتُنَا ٱلدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَآ إِلَّا ٱلدَّهْرُۚ وَمَا لَهُم بِذَٲلِكَ مِنْ عِلْمٍۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
یہ لوگ کہتے ہیں کہ 1"زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو" در حقیقت اِس معاملہ میں اِن کے پاس کوئی علم نہیں ہے یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں
1 | یعنی کوئی ذریعہ علم ایسا نہیں ہے جس سے ان کو بتحقیق یہ معلوم ہو گیا ہو کہ اس زندگی کے بعد انسان کے لیے کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، اور یہ بات بھی انہیں معلوم ہو گئی ہو کہ انسان کی روح کسی خدا کے حکم سے قبض نہیں کی جاتی ہے بلکہ آدمی محض گردش ایام سے مر کر فنا ہو جاتا ہے۔ منکرین آخرت یہ باتیں کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ محض گمان کی بنا پر کرتے ہیں۔ علمی حیثیت سے اگر وہ بات کریں تو زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ بس یہ ہے کہ ’’ ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں‘‘، لیکن یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ ’’ ہم جانتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح علمی طریقہ پر وہ یہ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ آدمی کی روح خدا کے حکم سے نکالی نہیں جاتی ہے بلکہ وہ محض اس طرح مر کر ختم ہو جاتا ہے جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جاۓ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کہہ سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں جانتے کہ فی الواقع کیا صورت پیش آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب انسانی ذرائع علم کی حد تک زندگی بعد موت کے ہونے یا نہ ہونے، اور قبض روح واقع ہونے یا گردش ایام سے آپ ہی آپ مر جانے کا یکساں احتمال ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ امکان آخرت کے احتمال کو چھوڑ کر حتمی طور پر انکار آخرت کے حق میں فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور ہے کہ دراصل اس مسئلے کا آخری فیصلہ وہ دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی خواہش کی بنا پر کرتے ہیں؟ چونکہ اس کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو اور موت کی حقیقت نیستی اور عدم نہیں بلکہ خدا کی طرف سے قبض روح ہو، اس لیے وہ اپنے دل کی مانگ کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں اور دوسری بات کا انکار کر دیتے ہیں |
Surah 45 : Ayat 32
وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَٱلسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُم مَّا نَدْرِى مَا ٱلسَّاعَةُ إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ
اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں، یقین ہم کو نہیں ہے1"
1 | اس سے پہلے آیت 24 میں جن لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے وہ آخرت کا قطعی اور کھلا انکار کرنے والے تھے۔ اور یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اس کا یقین رکھتے اگر چہ گمان کی حد تم اس کے امکان سے منکر نہیں ہیں۔ بظاہر ان دونوں گروہوں میں اس لحاظ سے بڑا فرق ہے کہ ایک بالکل منکر ہے اور دوسرا اس کے ممکن ہونے کا گمان رکھتا ہے۔ لیکن نتیجے اور انجام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے کہ آخرت کے انکار اور اس پر یقین نہ ہونے کے اخلاقی نتائج بالکل ایک جیسے ہیں۔ کوئی شخص خواہ آخرت کو نہ مانتا ہو، یا اس کا یقین نہ رکھتا ہو،دونوں صورتوں میں لازماً وہ خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کے احساس سے خالی ہو گا، اور یہ عدم احساس اس کو لازماً فکر و عمل کی گمراہیوں میں مبتلا کر کے رہے گا۔ صرف آخرت کا یقین ہی دنیا میں آدمی کے رویے کو درست رکھ سکتا ہے۔ یہ اگر نہ ہو تو شک اور انکار، دونوں اسے ایک ہی طرح کی غیر ذمہ دارانہ روش پر ڈال دیتے ہیں۔ اور چونکہ یہی غیر ذمہ دارانہ روش آخرت کی بد انجامی کا اصل سبب ہے، اس لیے دوزخ میں جانے سے انکار کرنے والا بچ سکتا ہے، نہ یقین رکھنے والا |
Surah 53 : Ayat 23
إِنْ هِىَ إِلَّآ أَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَـٰنٍۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَمَا تَهْوَى ٱلْأَنفُسُۖ وَلَقَدْ جَآءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ ٱلْهُدَىٰٓ
دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے اِن کے لیے کوئی سند نازل نہیں1 کی حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے2 ہیں حالانکہ اُن کے رب کی طرف سے اُن کے پاس ہدایت آ چکی ہے3
3 | یعنی ہر زمانے میں ابنیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان گمراہ لوگوں کو حقیقت بتاتے رہے ہیں اور اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے آ کر ان کو بتا دیا ہے کہ کائنات میں در اصل خدائی کس کی ہے |
2 | بالفاظ دیگر ان کی گمراہی کے بنیادی وجوہ دو ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کسی چیز کو اپنا عقیدہ اور دین بنانے کے لیے علم حقیقت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ محض قیاس و گمان سے ایک بات فرض کر لیتے ہیں اور پھر اس پر اس طرح ایمان لے آتے ہیں کہ گویا وہی حقیقت ہے ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے یہ رویہ دراصل اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں اختیار کیا ہے ۔ ان کا دل یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایس معبود ہو جو دنیا میں ان کے کام تو بناتا رہے اور آخرت اگر پیش آنے والی ہی ہو تو وہاں انہیں بخشوانے کا ذمہ بھی لے لے ، مگر حرام و حلال کی کوئی پابندی ان پر نہ لگاۓ اور اخلاق کے کسی ضابطے میں ان کو نہ کسے ۔اسی لیے وہ انبیاء کے لاۓ ہوۓ طریقے پر خداۓ واحد کی بندگی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ان خود ساختہ معبودوں اور معبودنیوں کی عبادت ہی ان کو پسند آتی ہے |
1 | یعنی تم جن کو دیوی اور دیوتا کہتے ہو وہ نہ دیویاں ہیں اور نہ دیوتا، نہ ان کے اندر اُلوہیت کی کوئی صفت پائی جاتی ہے ، نہ خدائی کے اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ انہیں حاصل ہے ۔تم نے بطور خود ان کو خدا کی اولاد اور معبود اور خدائی میں شریک ٹھیرا لیا ہے ۔ خدا کی طرف سے کوئی سند ایسی نہیں آئی ہے جسے تم اپنے ان مفروضات کے ثبوت میں پیش کر سکو |
Surah 53 : Ayat 28
وَمَا لَهُم بِهِۦ مِنْ عِلْمٍۖ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّۖ وَإِنَّ ٱلظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ ٱلْحَقِّ شَيْــًٔا
حالانکہ اس معاملہ کا کوئی علم انہیں حاصل نہیں ہے، وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں1، اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا
1 | یعنی ملائکہ کے متعلق یہ عقیدہ انہوں نے کچھ اس بنا پر اختیار نہیں کیا ے کہ انہیں کسی ذریعہ علم سے یہ معلوم ہو گیا ہے کہو عورتیں ہیں اور خدا کی بیٹیاں ہیں، بلکہ انہوں نے محض اپنے قیاس و گمان سے ایک بات فرض کر لی ہے اور اس پر یہ آستانے بناۓ بیٹھے ہیں جن سے مرادیں مانگی جا رہی ہیں اور نذریں اور نیازیں ان پر چڑھائی جا رہی ہیں |