Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 20
يَكَادُ ٱلْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَـٰرَهُمْۖ كُلَّمَآ أَضَآءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَآ أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَـٰرِهِمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اِس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑ ے ہو جاتے ہیں1 اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سَلب کر لیتا2، یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے
2 | یعنی جس طرح پہلی قسم کے منافقین کا نورِ بصیرت اس نے بالکل سَلب کر لیا، اسی طرح اللہ ان کو بھی حق کے لیے اندھا بہرا بنا سکتا تھا۔ مگر اللہ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ جو کسی حد تک دیکھنا اور سُننا چاہتا ہو، اسے اُتا بھی نہ دیکھنے سُننے دے۔ جس قدر حق دیکھنے اور حق سُننے کے لیے یہ تیار تھے، اسی قدر سماعت و بصارت اللہ نے ان کے پاس رہنے دی |
1 | پہلی مثال اُن منافقین کی تھی جو دل میں قطعی منکر تھے اور کسی غرض و مصلحت سے مسلمان بن گئے تھے۔ اور یہ دُوسری مثال اُن کی ہے جو شک اور تذبذب اور ضعفِ ایمان میں مبتلا تھے، کچھ حق کے قائل بھی تھے، مگر ایسی حق پرستی کے قائل نہ تھے کہ اس کی خاطر تکلیفوں اور مصیبتوں کو بھی برداشت کر جائیں۔ اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے جو انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا۔ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک سے مُراد مشکلات و مصائب کا وہ، ہُجوم اور وہ سخت مجاہدہ ہے جو تحریکِ اسلامی کے مقابلہ میں اہل جاہلیّت کی شدید مزاحمت کے سبب سے پیش آرہا تھا۔ مثال کے آخری حِصّہ میں ان منافقین کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب معاملہ ذرا سہل ہوتا ہے تو یہ چل پڑتے ہیں ، اور جب مشکلات کے دَلْ بادَل چھانے لگتے ہیں، یا ایسے احکام دیے جاتے ہیں جن سے ان کے خواہشاتِ نفس اور ان کے تعصّبات ِ جاہلیت پر ضرب پڑتی ہے ، تو ٹھِٹک کر کھڑے ہو جاتے ہیں |
Surah 36 : Ayat 66
وَلَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰٓ أَعْيُنِهِمْ فَٱسْتَبَقُواْ ٱلصِّرَٲطَ فَأَنَّىٰ يُبْصِرُونَ
ہم چاہیں تو اِن کی آنکھیں موند دیں، پھر یہ راستے کی طرف لپک کر دیکھیں، کہاں سے اِنہیں راستہ سجھائی دے گا؟