Ayats Found (5)
Surah 46 : Ayat 33
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ ٱللَّهَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَـٰدِرٍ عَلَىٰٓ أَن يُحْــِۧىَ ٱلْمَوْتَىٰۚ بَلَىٰٓ إِنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اور کیا اِن لوگوں کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مُردوں کو جلا اٹھائے؟ کیوں نہیں، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے
Surah 75 : Ayat 3
أَيَحْسَبُ ٱلْإِنسَـٰنُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُۥ
کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اُس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے1؟
1 | اوپر کی دو دلیلیں، جوقسم کی صورت میں بیان کی گئی ہیں، صرف دو باتیں ثابت کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کا خاتمہ (یعنی قیامت کا پہلا مرحلہ) ایک یقینی امر ہے۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوسری زندگی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے ایک ا خلاقی وجود ہونے کے منطقی اورفطری تقاضے پورے نہیں ہو سکتے، اوریہ امرضرورواقع ہونے والا ہے کیونکہ انسان کے اندر ضمیر کی موجودگی اس پر گواہی دے رہی ہے۔ اب یہ تیسری دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ زندگی کے بعد موت ممکن ہے۔ مکہ میں جو لوگ اس کا انکار کرتے تھے وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کومرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزرچکے ہوں ، جن کے جسم کا ذرہ ذرہ خاک میں مل کر پراگندہ ہو چکا ہو، جن کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو کر نہ معلوم زمین میں کہاں کہاں منتشر ہوچکی ہوں جن میں سے کوئی جل مرا ہو، کوئی درندوں کے پیٹ میں جا چکا ہو، کوئی سمندرمیں غرق ہو کر مچھلیوں کی غذابن چکا ہو، ان سب کے اجزائے جسم پھر سے جمع ہوجائیں اورہرانسان پھر وہی شخص بن کر اٹھ کھڑا ہو جو دس بیس ہزاربرس پہلے بھی وہ تھا؟ اس کا نہایت معقول اورانتہائی پر زور جواب ا للہ تعالی نے اس مختصر سے سوال کی شکل میں دے یا ہے’’کیا انسا ن یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو کبھی جمع نہ کر سکیں گے؟‘‘ یعنی اگر تم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ تمہارے یہ منتشراجزائے جسم کسی وقت آپ سے آپ جمع ہو جائیں گے اور تم آپ سے آپ اسی جسم کے ساتھ اٹھو گے، تو بلاشبہ تمہارا اس کوناممکن سمجھنا بجا ہوتا۔ مگر تم سےتوکہا یہ گیا ہے کہ یہ کام خود نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالی ایسا کرے گا۔ اب کیا تم واقعی یہ سمجھ رہے ہو کہ کائنات کا خالق ، جسے تم خود بھی خالق مانتے ہو، اس کام سےعاجزہے؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میں کوئی شخص جو خدا کو خالقِ کائنات مانتا ہو، نہ اس وقت یہ کہہ سکتا تھا اور نہ آج یہ کہہ سکتا ہےکہ خدا بھی یہ کام کرنا چاہےتونہیں کرسکتا۔ اور اگرکوئی بے وقوف ایسی بات کہے تو اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ تم جس جسم میں اس وقت موجود ہو اس کے بے شماراجزاء کوہوااور پانی اورمٹی اورنہ معلوم کہاں کہاں سے جمع کر کے اسی خدا نے کیسے یہ جسم بنا دیا جس کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ پھر ان اجزا کو جمع نہیں کرسکتا |
Surah 75 : Ayat 4
بَلَىٰ قَـٰدِرِينَ عَلَىٰٓ أَن نُّسَوِّىَ بَنَانَهُۥ
ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں1
1 | یعنی بڑی بڑی ہڈیوں کو جمع کر کے تمہارا ڈھانچہ پھر سے کھڑا کردینا تو درکنار، ہم تو اس بات پر بھی قادرہیں کہ تمارے نازک ترین اجزائےجسم حتیٰ کہ تمہاری انگلیوں کی پوروں تک کو پھرویسا ہی بنا دیں جیسی وہ پہلےتھیں |
Surah 75 : Ayat 40
أَلَيْسَ ذَٲلِكَ بِقَـٰدِرٍ عَلَىٰٓ أَن يُحْــِۧىَ ٱلْمَوْتَىٰ
کیا وہ اِس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر زندہ کر دے1؟
1 | یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی دلیل ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق کا آغاز کر کے پورا انسان بنا دینے تک کا سارا فعل اللہ تعالی ہی کی قدرت اورحکمت کا کرشمہ ہے ان کے لیے تو فی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں، کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی برتیں، ان کی عقل یہ تسلیم کرنے سے انکارنہیں کرسکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں پیدا کر تا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجود میں لے آنے پر قادر ہے۔ رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں وہ اگر ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے نہیں ہیں تو آخران کے پاس اس بات کی کیا توجیہ ہے کہ آغاز آفرینش سے آج تک دنیا کے ہر حصےاورقوم میں کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجےمیں لڑکوں اورلڑکیوں کی پیدائش مسلسل اس تناسب سے ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کہیں کسی زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتی چلی جائیں اورآئندہ اس کی نسل چلنےکا کوئی امکان باقی نہ رہے؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جا رہا ہے؟ اتنا بڑا دعویٰ کرنے کے لیے آدمی کو کم از کم اتنا بے شرم ہونا چاہیے کہ وہ اٹھ کر بے تکلف ایک روز یہ د عویٰ کر بیٹھے کہ لندن اور نیویارک ، ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الروم، حواشی 27 تا 30۔ جلد چہارم ، الشوریٰ، حاشیہ 77)۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو اللہ تعالی کے اس سوال کے جواب میں کبھی بلی (کیوں نہیں) ، کبھی سبحنک اللھم فبلی (پاک ہے تیری ذات ، خداوندا، کیوں نہیں) اور کبھی سبحانک فبلی یا سبحانک و بلی فرمایا کرتے تھے (ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو داؤود)۔ ابو داؤود میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب تم سورہ تین میں آیت الیس اللہ با حکم الحاکمین (کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟) پڑھو تو کہو بلی و انا علی ذلک من الشاھدین (کیوں نہیں، میں اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں)۔ اور جب سورۃ قیامہ کی یہ آیت پڑھو تو کہو بلیٰ، اور جب سورہ مرسلات کی آیت فبای حدیث بعدہ یومنون (اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟) پڑھو تو کہو امنا باللہ (ہم اللہ پر ایمان لائے)۔ اسی مضمون کی روایات امام احمد ، ترمذی ، ابن المنذر ، ابن مردویہ، بہیقی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں |
Surah 86 : Ayat 8
إِنَّهُۥ عَلَىٰ رَجْعِهِۦ لَقَادِرٌ
یقیناً وہ (خالق) اُسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے1
1 | یعنی جس طرح وہ انسان کو وجود میں لاتا ہے اور استقرارِ حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کی نگہبانی کرتا ہے، یہی اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ وہ اسے موت کے بعد پلٹا کر پھر وجود میں لا سکتا ہے۔ اگر وہ پہلی چیز پر قادر تھا اور اسی قدرت کی بدولت انسان دنیا میں زندہ موجود ہے، تو آخر کیا معقول دلیل یہ گمان کرنے کے لیے پیش کی جا سکتی ہے کہ دوسری چیز پر وہ قادر نہیں ہے۔ اس قدرت کا ا نکار کرنے کے لیے آدمی کو سرے سے اس بات ہی کا انکار کرنا ہو گا کہ خدا اسے وجود میں لایا ہے، اور جو شخص اس کا انکار کرے اس سے کچھ بعید نہیں کہ ایک روز اس کے دماغ کی خرابی اس سے یہ دعوی بھی کرا دے کہ دنیا کی تمام کتابیں ایک حادثہ کے طور پر چھپ گئی ہے، دنیا کے تمام شہر ایک حادثہ کے طور پر بن گئے ہیں، اور زمین پر کوئی اتفاقی حادثہ ایسا ہو گیا تھا جس سے تمام کارخانے بن کر خود بخود چلنے لگے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اور اس کے جسم کی بناوٹ اور اس کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور صلاحیتوں کا پیدا ہونا اور اس کا ا یک زندہ ہستی کی حیثیت سے باقی رہنا ان تمام کاموں سے بدرجہا زیادہ پیچیدہ عمل ہے جو انسان کے ہاتھوں دنیا میں ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ اتنا بڑا پیچیدہ عمل اس حکمت اور تناسب اور تنظیم کے ساتھ اگر اتفاقی حادثہ کے طور پر ہو سکتا ہو تو پھر کونسی چیز ہے جسے ایک دماغی مریض حادثہ نہ کہہ سکے |