Ayats Found (2)
Surah 5 : Ayat 101
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَسْــَٔلُواْ عَنْ أَشْيَآءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْــَٔلُواْ عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ ٱلْقُرْءَانُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا ٱللَّهُ عَنْهَاۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں1، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی اب تک جو کچھ تم نے کیا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، وہ درگزر کرنے والا اور برد بار ہے
1 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دُنیا ہی کے کسی معاملہ میں۔ مثلاً ایک موقع پر ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ ؐ سے پُوچھ بیٹھے کہ”میرا اصلی باپ کون ہے؟“ اسی طرح بعض لوگ احکامِ شرع میں غیر ضروری پُوچھ گچھ کیا کرتے تھے ، اور خواہ مخواہ پُوچھ پُوچھ کر ایسی چیزوں کا تعیّن کیا کرا نا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معیّن رکھا ہے۔ مثلاً قرآن میں مُجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے حکم سُنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا” کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟“ آپ ؐ نے کچھ جواب نہ دیا ۔ اُنہوں نے پھر پُوچھا۔ آپ ؐ پھر خاموش ہوگئے۔ تیسری مرتبہ پُوچھنے پر آپ ؐ نے فرمایا”تم پر افسوس ہے ۔ اگر میری زبان سے ہاں نِکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نا فرمانی کرنے لگو گے“۔ ایسے ہی لا یعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی لوگوں کو کثرتِ سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہے تھے۔ چنانچہ حدیث میں ہے ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ۔ ” مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھیرائی گئی“۔ ایک دُوسری حدیث میں ہے ان اللہ فرض فرائض فلا تضیْعوھا و حرم حرمَات فلا تنتھکو ھا وحَدّ حُدُوْداً فلا تعتدُوْھَا وسَکتَ عَنْ اشیَا ء من غیر نسیان فلا تبحثو ا عنھا۔” اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو ۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو۔ کچھ حُدُود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اُسے بھُول لاحق ہوئی ہو، لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ“۔ ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبّہ کیا گیا ہے ۔ جن اُمُور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی، یا جو احکام برسبیلِ اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دُوسرے تعیّنات کا ذکر نہیں کیا ہے ، ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھُول ہو گئی، تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدُود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات اور تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ، اور اگر شارع کے کلام سے یہ چیزیں کسی طرح نہیں نکلتیں تو قیاس سے ، اِستنباط سے کِسی نہ کسی طرح مجمل کو مفصّل، مطلَق کو مقَیَّد، غیر معیّن کو معیّن بنا کر ہی چھوڑتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے ۔ اس لیے کہ ما بعد الطبیعی اُمُور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی، ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ اُلجھن کے مواقع بڑھیں گے، اور احکام میں جتنی قیُود زیادہ ہوں گی پَیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزی ِ حکم کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے |
Surah 5 : Ayat 106
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ شَهَـٰدَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ حِينَ ٱلْوَصِيَّةِ ٱثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ ءَاخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِى ٱلْأَرْضِ فَأَصَـٰبَتْكُم مُّصِيبَةُ ٱلْمَوْتِۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِنۢ بَعْدِ ٱلصَّلَوٲةِ فَيُقْسِمَانِ بِٱللَّهِ إِنِ ٱرْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِى بِهِۦ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَـٰدَةَ ٱللَّهِ إِنَّآ إِذًا لَّمِنَ ٱلْأَثِمِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی1 گواہ بنائے جائیں، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائں 2پھر اگر کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں) روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ "ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں، اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں، اگر ہم نے یسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے"
2 | اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے معاملات میں غیر مسلم کو شاہد بنانا صرف اُس حالت میں درست ہے جبکہ کوئی مسلمان گواہ بننے کے لیے میسّر نہ آسکے |
1 | یعنی دیندار ، راست باز اور قابلِ اعتماد مسلمان |