Ayats Found (2)
Surah 58 : Ayat 9
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا تَنَـٰجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَـٰجَوْاْ بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٲنِ وَمَعْصِيَتِ ٱلرَّسُولِ وَتَنَـٰجَوْاْ بِٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اُس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے1
1 | اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ(آپس میں راز کی بات کرنا) بجاۓ خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کے جائز یا نا جائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں، اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جاۓ، اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں۔ جن لوگوں کا اخلاص، جن کی راست بازی، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو، انہیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بد کرداری کے لیے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیا کر دیتی ہیں کہ ضرور کسی نۓ فتنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار آدمی باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کر لیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل و تیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و نا جائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سر گوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے، یا کسی کا حق دلوانا ہے، یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے، تو یہ کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ کار ثواب ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کے لیے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے، یا کسی کا حق مارنا ہ، یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجاۓ خود ایک بُرائی ہے اور اس کے لیے نجویٰ بُرائی پر بُرائی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلے میں آداب مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجیٰ اثنان دون صا حبھما فان ذالک یحزنہٗ۔ ’’ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں، کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہو گا‘‘(بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)۔ دوسری حدیث میں حضور کے الفاظ یہ ہیں فلا یتنا جیٰ اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذٰالک یحزنہٗ۔ ’’ دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر، کیونکہ یہ اس کے لیے باعث رنج ہو گا‘‘ (مسلم )۔ اسی نا جائز سر گوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ نا جائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے |
Surah 58 : Ayat 10
إِنَّمَا ٱلنَّجْوَىٰ مِنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ لِيَحْزُنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَلَيْسَ بِضَآرِّهِمْ شَيْــًٔا إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ
کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے، اور وہ اس لیے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اُس سے رنجیدہ ہوں، حالانکہ بے اذن خدا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے1
1 | یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کچھ لوگوں کی سرگوشیاں دیکھ کر یہ شبہ بھی ہو جاۓ کہ وہ اسی کے خلاف کی جا رہی ہیں، تب بھی اسے اتنا رنجیدہ نہ ہونا چاہیے کہ محض شبہ ہی شبہ پر کوئی جوابی کار روائی کرنے کی فکر میں پڑ جاۓ، یا اپنے دل میں اس پر کوئی غم، یا کینہ، یا غیر معمولی پریشانی پرورش کرنے لگے۔ اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ اعتماد اس کے قلب میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول اندیشوں اور خیالی خطروں سے اس کو نجات مل جاۓ گی اور وہ اشرار کو ان کے حال پر چھوڑ کر پورے اطمینان و سکون کو غارت کر دے، نہ کم ظرف ہوتا ہے کہ غلط کار لوگوں کے مقالے میں آپے سے باہر ہو کر خود بھی خلاف انصاف حرکتیں کرنے لگے |