Ayats Found (2)
Surah 58 : Ayat 8
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ نُهُواْ عَنِ ٱلنَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَيَتَنَـٰجَوْنَ بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٲنِ وَمَعْصِيَتِ ٱلرَّسُولِ وَإِذَا جَآءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ ٱللَّهُ وَيَقُولُونَ فِىٓ أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا ٱللَّهُ بِمَا نَقُولُۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَاۖ فَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟1 یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اُس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے2 اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری اِن باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا3 اُن کے لیے جہنم ہی کافی ہے اُسی کا وہ ایندھن بنیں گے بڑا ہی برا انجام ہے اُن کا
3 | یعنی وہ اپنے نزدیک اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقہ سے سلام کرتے اسی وقت ہم پر عذاب آ جاتا۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا، حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں، لہٰذا یہ رسول نہیں ہیں |
2 | یہ یہود اور منافقین کا مشترک رویہ تھا۔ متعدد روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ یہودی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور انہوں نے السام علیک یا ابا القاسم کہا۔ یعنی السلام علیک کا تلفظ کچھ اس انداز سے کیا کہ سننے والا سمجھے سلام کہا ہے، مگر دراصل انہوں نے سام کہا تھا جس کے معنی موت کے ہیں۔ حضورؐ نے جواب میں فرمایا و علیکم۔ حضرت عائشہ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا موت تمہیں آۓ اور اللہ کی لعنت اور پھٹکار پڑے۔ حضورؐ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ اے عائشہ، اللہ کو بد زبانی پسند نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ، آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟ حضورؐ نے فرمایا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا؟ میںنے ان سے کہہ دیا ’’اور تم پر بھی‘‘)بخاری،مسلم،ابن جریر،ابن ابی حاتم)۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ منافقین اور یہود، دونوں نے سلام کا یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا (ابن جریر) |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کو اس روش سے منع فرما چکے تھے، اس پر بھی جب وہ باز نہ آۓ تب براہ راست اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ فرمان عتاب نازل ہوا |
Surah 4 : Ayat 114
۞ لَّا خَيْرَ فِى كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَٮٰهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَـٰحِۭ بَيْنَ ٱلنَّاسِۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٲلِكَ ٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِ ٱللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اُسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے