Ayats Found (7)
Surah 13 : Ayat 24
سَلَـٰمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ
اور اُن سے کہیں گے کہ 1"تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو" پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر!
1 | اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہےکہ ملائکہ ہر طرف سے آ آ کر ان کو سلام کریں گے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ملائکہ ان کو اس بات کی خوشخبری دیں گے کہ اب تم ایسی جگہ آگئے ہو جہاں تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اب یہاں تم ہر آفت سے، ہر تکلیف سے ہر مشقت سے ، اور ہر خطرے سے اور اندیشے سے محفوظ ہو۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حِجر ، حاشیہ نمبر ۲۹) |
Surah 15 : Ayat 46
ٱدْخُلُوهَا بِسَلَـٰمٍ ءَامِنِينَ
اور اُن سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر
Surah 16 : Ayat 32
ٱلَّذِينَ تَتَوَفَّـٰهُمُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ طَيِّبِينَۙ يَقُولُونَ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمُ ٱدْخُلُواْ ٱلْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اُن متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں "سلام ہو تم پر، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے"
Surah 19 : Ayat 62
لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَـٰمًاۖ وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا
وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سُنیں گے، جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے1 اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا
1 | اصل میں لفظ ’’سلام‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں عیب اور نقص سے محفوظ۔ جنت میں جو نعمتیں انسان کو میسر ہوں گی ان میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہو گی کہ وہاں بیہودہ اور فضول گندی بات سننے میں نہ آۓ گی۔ وہاں کا پورا معاشرہ ایک ستھرا اور سنجیدہ اور پاکیزہ معاشرہ ہو گا جس کا ہر فرد سلیم الطبع ہو گا۔ وہاں کے رہنے والوں کو غیبتوں اور گالیوں اور فحش گانوں اور دوسری بری آوازوں کی سماعت سے پوری نجات مل جاۓ گی۔ وہاں آدمی جو کچھ سنے گا۔ بَھلی اور معقول اور بجا باتیں ہی سنے گا۔ اس نعمت کی قدر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا میں فی الواقع ایک پاکیزہ اور ستھرا ذوق رکھتا ہو۔ کیونکہ وہی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ انسان کے لیے ایک ایسی گندی سوسائٹی میں رہنا کتنی بڑی مصیبت ہے جہاں کسی وقت بھی اس کے کان جھوٹ، غیب، فتنہ و فساد، گندگی اور شہوانیت کی باتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ |
Surah 25 : Ayat 75
أُوْلَـٰٓئِكَ يُجْزَوْنَ ٱلْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُواْ وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَـٰمًا
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل1 منزل بلند کی شکل میں پائیں گے2 آداب و تسلیمات سے اُن کا استقبال ہو گا
2 | اصل میں لفظ غُرْفَہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بلند و بالا عمارت کے ہیں ۔ اس کا ترجمہ عام طور پر ’’بالا خانہ‘‘ کیا جاتا ہے جس سے آدمی کے ذہن میں ایک دو منزلہ کوٹھے کی سی تصویر آ جاتی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسان جو بڑی سے بڑی اور اونچی سے اونچی عمارتیں بناتا ہے ، حتّیٰ کہ ہندوستان کا روضہ تاج اور امریکہ کے ’‘ فلک شگاف‘‘ (Sky-scrapers) تک جنت کے ان محلات کی محض ایک بھونڈی سی نقل ہیں جن کا ایک دھندلا سا نقشہ اولاد آدم کے لا شعور میں محفوظ چلا آتا ہے |
1 | صبر کا لفظ یہاں اپنے وسیع ترین مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ دشمنان حق کے مظالم کو مردانگی کے ساتھ برداشت کرنا ۔ دین حق کو قائم اور سربلندی کرنے کی جدو جہد میں ہر قسم کے مصائب اور تکلیفوں کو سہہ جانا ۔ ہر خوف اور لالچ کے مقابلے میں راہ راست پر ثابت قدم رہنا ۔ شیطان کی تمام ترغیبات اور نفس کی ساری خواہشات کے علی الرغم فرض کو بجا لانا، حرم سے پرہیز کرنا اور حدود اللہ پر قائم رہنا ۔ گناہ کی ساری لذتوں اور منفعتوں کو ٹھکرا دینا اور نیکی و دوستی کے ہر نقصان اور اس کی بدولت حاصل ہونے والی ہر محرومی کو انگیز کر جانا۔ غرض اس ایک لفظ کے اندر دین اور دینی رویے اور دینی اخلاق کی ایک دنیا کی دنیا سمو کر رکھ دی گئی ہے |
Surah 39 : Ayat 73
وَسِيقَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْ رَبَّهُمْ إِلَى ٱلْجَنَّةِ زُمَرًاۖ حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَٲبُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَٱدْخُلُوهَا خَـٰلِدِينَ
اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے، اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے، تو اُس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ "سلام ہو تم پر، بہت اچھے رہے، داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے"
Surah 56 : Ayat 26
إِلَّا قِيلاً سَلَـٰمًا سَلَـٰمًا
جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی1
1 | اصل الفاظ ہیں الا قیلاً سلٰماً سلٰماً۔ بعض مفسرین و مترجمین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہاں ہر طرف سلام سالم ہی کی آوازیں سننے میں آئیں گی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہے قول سلیم، یعنی ایسی گفتگو جو عیوب کلام سے پاک ہو جس میں وہ خرابیاں نہ ہوں جو پچھلے فقرے میں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں سلام کا لفظ قریب قریب اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے جس کے لیے انگریزی میں لفظ sane استعمال ہوتا ہے |