Ayats Found (32)
Surah 2 : Ayat 28
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٲتًا فَأَحْيَـٰكُمْۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے
Surah 2 : Ayat 73
فَقُلْنَا ٱضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَاۚ كَذَٲلِكَ يُحْىِ ٱللَّهُ ٱلْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اُس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ دیکھو اس طرح اللہ مُردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو1
1 | اِس مقام پر یہ بات تو بالکل صریح معلوم ہوتی ہے کہ مقتول کے اندر دوبارہ اتنی دیر کے لیے جان ڈالی گئی کہ وہ قاتل کا پتہ بتا دے۔ لیکن اس غرض کے لیے جو تدبیر بتائی گئی تھی، یعنی ”لاش کو اس کے ایک حصّے سے ضرب لگا ؤ ،“ اس کے الفاظ میں کچھ ابہام محسُوس ہوتا ہے۔ تا ہم اس کا قریب ترین مفہُوم وہی ہے جو قدیم مفسرین نے بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ اُوپر جس گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اسی کے گوشت سے مقتول کی لاش پر ضرب لگانے کا حکم ہوا۔ اس طرح گویا بیک کرشمہ دوکار ہوئے۔ ایک یہ کہ اللہ کی قدرت کا ایک نشان انہیں دکھایا گیا۔ دُوسرے یہ کہ گائے کی عظمت و تقدیس اور اس کی معبُودیّت پر بھی ایک کاری ضرب لگی کہ اس نام نہاد معبُود کے پاس اگر کچھ بھی طاقت ہوتی، تو اسے ذبح کرنے سے ایک آفت برپا ہو جانی چاہیے تھی، نہ کہ اس کا ذبح ہونا اُلٹا مفید ثابت ہوتا |
Surah 2 : Ayat 258
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِى حَآجَّ إِبْرَٲهِــۧمَ فِى رَبِّهِۦٓ أَنْ ءَاتَـٰهُ ٱللَّهُ ٱلْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ رَبِّىَ ٱلَّذِى يُحْىِۦ وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا۟ أُحْىِۦ وَأُمِيتُۖ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَأْتِى بِٱلشَّمْسِ مِنَ ٱلْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ ٱلْمَغْرِبِ فَبُهِتَ ٱلَّذِى كَفَرَۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا1؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی2 جب ابراہیمؑ نے کہا کہ 3"میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا: "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے"ابراہیمؑ نے کہا: "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا" یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا
3 | اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے پہلے فقرے ہی سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ربّ اللہ کےسوا کوئی دُوسرا نہیں ہوسکتا، تاہم نمرُود اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا۔ لیکن دُوسرے فقرے کے بعد اس کے لیے مزید ڈھٹائی سے کچھ کہنا مشکل ہو گیا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اُسی خدا کے زیرِ فرمان ہیں، جس کو ابراہیم ؑ نے ربّ مانا ہے۔ پھر وہ کہتا، تو آخر کیا کہتا؟ مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بے نقاب ہو رہی تھی ، اس کو تسلیم کر لینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہو جانے کے تھے، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا۔ لہٰذا وہ صرف ششدر ہی ہو کر رہ گیا، خود پرستی کی تاریکی سے نِکل کر حق پرستی کی روشنی میں نہ آیا۔ اگر اس طاغوت کے بجائے اس نے خدا کو اپنا ولی و مددگار بنایا ہوتا ، تو اس کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کی اس تبلیغ کے بعد راہِ راست کھُل جاتی ۔ تلموُد کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑ قید کر دیے گئے۔ دس روز تک وہ جیل میں رہے۔ پھر بادشاہ کی کونسل نے اُن کوزندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے آگ میں پھینکے جانے کا وہ واقعہ پیش آیا، جو سُورہ انبیاء ، رکوع ۵، العنکبوت، رکوع ۳-۲، اور الصافّات، رکوع ۴ میں بیان ہوا ہے |
2 | یعنی اس جھگڑنے میں جو بات ما بِہ ِ النّزاع تھی، وہ یہ تھی کہ ابراہیم ؑ اپنا ربّ کس کو مانتے ہیں۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اُس جھگڑنے والے شخص، یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی۔ اِن دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیّت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے: (۱) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائیٹیوں کی یہ مشترک خصُوصیّت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ربّ الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں، مگر صرف اسی کو ربّ اور تنہا اُسی کو خدا اور معبُود نہیں مانتے۔ (۲)خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک فوق الفطری (Supernatural ) خدائی، جو سلسلہء اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رُجوع کرتا ہے ۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اَرواح اور فرشتوں اور جِنوں اور سیّاروں اور دُوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھیراتے ہیں ، ان سے دُعائیں مانگتے ہیں، ان کے سامنے مراسِم پرستش بجا لاتے ہیں، اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدّنی اور سیاسی معاملات کی خدائی( یعنی حاکمیّت)، جو قوانینِ حیات مقرر کر نے کی مجاز اور اطاعتِ امر کی مستحق ہو، اور جسے دُنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ اِس دُوسری قسم کی خدائی کو دُنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے، یا اس کے ساتھ، شاہی خاندانوں اور مذہبی اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اکثر شاہی خاندان اِسی دُوسرے معنی میں خدائی کے مدّعی ہوئے ہیں ، اور اسے مستحکم کرنے کے لیے اُنہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خدا ؤ ں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک ِ سازش رہے ہیں۔ (۳) نمرود کا دعوائے خدائی بھی اسی دُوسری قسم کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبّر وہ خود ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسبابِ عالم کے پُورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اِس ملکِ عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکمِ مطلق مَیں ہوں، میری زبان قانون ہے، میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدّار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا ربّ نہ مانے یا میرے سوا کسی اَور کو ربّ تسلیم کرے۔ (۴) ابراہیم ؑ نے جب کہا کہ میں صرف ایک ربّ العالمین ہی کو خدا اور معبُود اور ربّ مانتا ہوں، اور اس کے سوا سب کو خدائی اور ربوبیّت کا قطعی طور پر منکر ہوں، تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبُودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابلِ برداشت ہے، بلکہ یہ سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زَد پڑتی ہے، اُسے کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ جُرمِ بغاوت کے الزام میں نمرُود کے سامنے پیش کیے گئے |
1 | اس شخص سے مُراد نمرُود ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ کے وطن(عراق) کا بادشاہ تھا۔ جس واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ، اس کی طرف کوئی اشارہ بائیبل میں نہیں ہے۔ مگر تَلْموُد میں یہ پُورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا باپ نمرُود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے دار (Chief Officer Of The State ) کا منصب رکھتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑنے جب کھُلم کھُلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شرُوع کی اور بُت خانے میں گھُس کر بُتوں کو توڑ ڈالا، تو اُن کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہُوئی ، جو یہاں بیان کی گئی ہے |
Surah 3 : Ayat 27
تُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَتُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِۖ وَتُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّۖ وَتَرْزُقُ مَن تَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے1
1 | جب انسان ایک طرف کافروں اور نافرمانوں کے کرتُوت دیکھتا ہے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں کِس طرح پَھل پھول رہے ہیں ، دوسری طرف اہلِ ایمان کی اطاعت شعاریاں دیکھتا ہے اور پھر ان کو اس فقر و فاقہ اور اُن مصائب و آلام کا شکار دیکھتا ہے، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہٴ کرام سن ۳ ہجری اور اس کے لگ بھگ زمانے میں مُبتلا تھے، تو قدرتی طور پر اس کے دل میں ایک عجیب حسرت آمیز استفہام گردش کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس استفہام کا جواب دیا ہے اور ایسے لطیف پیرائے میں دیا ہے کہ اس سے زیادہ لطافت کا تصّور نہیں کیا جا سکتا |
Surah 6 : Ayat 156
أَن تَقُولُوٓاْ إِنَّمَآ أُنزِلَ ٱلْكِتَـٰبُ عَلَىٰ طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَـٰفِلِينَ
اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دو گروہوں کو دی گئی تھی1، اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے
Surah 6 : Ayat 95
۞ إِنَّ ٱللَّهَ فَالِقُ ٱلْحَبِّ وَٱلنَّوَىٰۖ يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ ٱلْمَيِّتِ مِنَ ٱلْحَىِّۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے1 وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اور وہی مُردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے2 یہ سارے کام کرنے والا اللہ ہے، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟
2 | زندہ کو مُردہ سے نکالنے کا مطلب بے جان مادّہ سے زندہ مخلوقات کو پیدا کرنا ہے، اور مُردہ کو زندہ سے خارج کرنے کا مطلب جاندار اجسام میں سے بے جان مادّوں کو خارج کرنا |
1 | یعنی زمین کی تہوں میں بیج کو پھاڑ کر اس سے درخت کی کونپل نکالنے والا |
Surah 10 : Ayat 56
هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے
Surah 15 : Ayat 23
وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْىِۦ وَنُمِيتُ وَنَحْنُ ٱلْوَٲرِثُونَ
زندگی اور موت ہم دیتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں1
1 | یعنی تمہارے بعد ہم ہی باقی رہنے والے ہیں۔ تمہیں جو کچھ بھی ملا ہوا ہے محض عارضی استعمال کے لیے ملا ہوا ہے۔ آخر کار ہماری دی ہوئی ہر چیز کو یونہی چھوڑ کر تم خالی ہاتھ رخصت ہو جاؤ گے اور یہ سب چیزیں جو ں کی توں ہمارے خزانے میں رہ جائیں گی |
Surah 16 : Ayat 65
وَٱللَّهُ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو کہ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکا یک مردہ پڑی ہوئی زمین میں اُس کی بدولت جان ڈال دی یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے
Surah 22 : Ayat 6
ذَٲلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْحَقُّ وَأَنَّهُۥ يُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ وَأَنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے1، اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،
1 | اس سلسلہ کلام میں یہ فقرہ تین معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ ہی سچا ہے اور تمہارا یہ گمان محض باطل ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو۔ وہ نرا فلسفیوں کے خیال کا آفریدہ ، واجب الوجود اور علت العلل (First Cause) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعِل مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت ، اپنے ارادے ، اپنے علم اور اپنی حکمت سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ کھلنڈرا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے کھلونے بنائے اور پھر یونہی توڑ پھوڑ کا خاک میں ملا دے۔ وہ حق ہے ، اس کے سب کام سنجیدہ اور با مقصد اور پر حکمت ہیں |