Ayats Found (12)
Surah 3 : Ayat 173
ٱلَّذِينَ قَالَ لَهُمُ ٱلنَّاسُ إِنَّ ٱلنَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَٱخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَـٰنًا وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ وَنِعْمَ ٱلْوَكِيلُ
اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، "تماررے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو"، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے
Surah 6 : Ayat 102
ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍ فَٱعْبُدُوهُۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ
یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے، ہر چیز کا خالق، لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے
Surah 11 : Ayat 12
فَلَعَلَّكَ تَارِكُۢ بَعْضَ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيْكَ وَضَآئِقُۢ بِهِۦ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَآءَ مَعَهُۥ مَلَكٌۚ إِنَّمَآ أَنتَ نَذِيرٌۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ
تو اے پیغمبرؐ! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کر نے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اور اِس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے 1"اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا" یا یہ کہ "اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا" تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے
1 | اس ارشاد کا مطلب سمجھنے کے لیے اُن حالات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے جن میں یہ فرمایا گیا ہے ۔ مکہ ایک ایسے قبیلے کا صرف مقام ہے جو تمام عرب پر اپنے مذہبی اقتدار ، اپنی دولت و تجارتت اور اپنے سیاسی دبدبے کی وجہ سے چھایا ہوا ہے۔ عین اس حالت میں جب کہ یہ لوگ اپنے انتہائی عروج پر ہیں اس بستی کا ایک آدمی اُٹھتا ہے اور علی الاعلان کہتا کہ جس مذہب کے تم پیشوا ہو وہ سراسر گمراہی ہے، جس نظام تمدن کے تم سردار ہو وہ اپنی جڑ تک گلا اور سڑا ہوا نظام ہے، خدا کا عذاب تم پرٹوٹ پڑنے کے لیے تُلا کھڑا ہے اور تمہارے لیے اس سے بچنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اُس مذہب ِ حق اور اس نظام صالح کو قبو ل کر لو جو میں خدا کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں۔ اس شخص کے ساتھ اس کی پاک سیرت اور اس کی معقول باتوں کے سوا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے جس سے عام لوگ اسے مامور من اللہ سمجھیں۔ اور گردوپیش کے حالات میں بھی مذہب و اخلاق اور تمدن کی گۃری بنیادی خرابیوں کے سوا کوئی ایسی ظاہر علامت نہیں ہے جو نزول عذاب کی نشان دہی کر تی ہو۔ بلکہ اس کے برعکس تمام نمایاں علامتیں یہی ظاہر کر رہی ہیں کہ ان لوگوں پر خدا کا (اور ان کے عقیدے کے مطابق) دیوتاؤں کا بڑا فضل ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک ہی کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں یہ بات کہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ، اور اس کے سوا کچھ ہو بھی نہیں سکتا ، کہ چند نہایت صحیح الدماغ اور حقیقت رس لوگوں کے سوا بستی کے سب لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ کوئی ظلم و ستم سے اس کو دبانا چاہتا ہے۔ کوئی جھوٹے الزامات اور اوچھے اعتراضات سے اس کی ہوا اُکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی متعصبانہ بے رخی سے اس کی ہمت شکنی کرتا ہے اور کوئی مذاق اُڑا کر، آوازے اور پھبتیاں کس کر، اور ٹھٹھے لگا کر اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے۔ یہ استقبال جو کئی سال تک اس شخص کی دعوت کا ہوتا رہتا ہے ، جیسا کچھ دل شکن اور مایوس کن ہو سکتا ہے، ظاہر ہے ۔ بس یہی صورتِ حال ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ہمت بندھانے کے لیے تلقین فرماتا ہے کہ اچھے حالات میں پھول جانا اور بُرے حالات میں مایوس ہو جانا چھچورے لوگوں کا کام ہے۔ ہماری نگاہ میں قیمتی انسان وہ ہے جو نیک ہو اور نیکی کے راستے پر صبر و ثبات اور پا مردی کے ساتھ چلنے والا ہو۔ لہٰذا جس تعصب سے ، جس بے رُخی سے ، جس تضحیک و استہزا سے اور جن جاہلانہ اعتراضات سے تمہارا مقابلہ کیا جا رہا ہے ان کی وجہ سے تمہارے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آنے پائے ۔ جو صداقت تم پر بذریعۂ وحی منکشف کی گئی ہے ا سکے اظہار و اعلان میں اور اس کی طرف دعوت دینے میں تمہیں قطعًا کوئی باک نہ ہو۔ تمہارے دلمیں اس خیال کا کبھی گزر تک نہ ہو کہ بلاں بات کیسے کہوں جبکہ لوگ سنتے ہی اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور فلاں حقیقت کا اظہار کیسے کروں جب کہ کوئی اس کے سننے تک کا روادار نہیں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، تم جسے حق پاتے ہو اسے بے کم و کاست اور بے خوف بیان کیے جاؤ، آگے سب معاملات اللہ کے حوالہ ہیں |
Surah 12 : Ayat 66
قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُۥ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ ٱللَّهِ لَتَأْتُنَّنِى بِهِۦٓ إِلَّآ أَن يُحَاطَ بِكُمْۖ فَلَمَّآ ءَاتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ ٱللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
ان کے باپ نے کہا "میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اِسے میرے پا س ضرور واپس لے کر آؤ گے الا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ" جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیے تو اس نے کہا "دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے"
Surah 28 : Ayat 28
قَالَ ذَٲلِكَ بَيْنِى وَبَيْنَكَۖ أَيَّمَا ٱلْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَٲنَ عَلَىَّۖ وَٱللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
موسیٰ نے جواب دیا "یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پُوری کر دوں اُس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے1"
1 | بعض لوگوں نےحضرت موسٰیؑ اورلڑکی کے والد کی اس گفتگو کونکاح کاایحاب وقبول سمجھ لیاہے اوریہ بحث چھیڑدی ہے کہ آیا باپ کی خدمت بیٹی کے نکاح کامہر قرارپاسکتی ہے؟ اورکیا عقد نکاح میں اس طرح کی خارجی شرائط شامل ہوسکتی ہیں؟ حالانکہ آیات زیر بحث کی عبارت سے خود ہی یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ یہ عقد نکاح نہ تھا بلکہ وہ ابتدائی بات چیت تھ جونکاح سے پہلے تجویز نکاح کے سلسلے میں بالعموم دنیا میں ہوا کرتی ہے۔ آخر یہ نکاح کاایجاب وقبول کیسے ہوسکتا ہےجبکہ یہ تعیُّن بھی اس میں نہ کیاگیا تھا کہ دونوں لڑکیوں میںسے کونسی نکاح میں دی جارہی ہے۔ اس گفتگو کا ماحصل تو صرف یہ تھا کہ لڑکی کے باپ نے کہا میںاپنی لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے کردینے کےلیے تیار ہوں، بشرطیکہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ آٹھ دس سام میرے ہاں رہ کرمیرے گھر کا کام کاج میںمیرا ہاتھ بٹاؤ گے۔ کیونکہ اس رشتے سے میری اصل غرض یہی ہے کہ میں بوڑھا آدمی ہوں، کوئی بیٹا میرے ہاں نہیں ہے جومیری جائداد کا انتظام سنبھالے، لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں جنہیں مجبوراََ باہرنکالتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ داماد میردست وبازوبن کررہے، یہ ذمہ داری اگر تم سنبھالنے کےلیےتیارہواورشادی کے بعد ہی بیوی کولے کرچلے جانے کاارادہ نہ رکھتے ہو، تومیں اپنی ایک لڑکی کا نکاح تم سےکردوں گا۔حضرت موسٰیؑ اس وقت خود ایک ٹھکانے کے طالب تھے۔ انہوں نےاس تجویز کوقبول کرلیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک معاہد کی صورت تھی جونکاح سے پہلے فریقین میںطے ہوئی تھی۔ اس کے بعد اصل عقد نکاح قاعدے کے مطابق ہُوا ہوگااوراس میں مہر بھی باندھاگیا ہوگا۔ اُس عقد میں خدمت کی شرط شامل ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ |
Surah 39 : Ayat 62
ٱللَّهُ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ
اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے1
1 | یعنی اس نے دنیا کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا ہے، بلکہ وہی ہر چیز کی خبر گیری اور نگہبانی کر رہا ہے۔ دنیاکی تمام چیزیں جس طرح اس کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہیں اسی طرح وہ اُس کے باقی رکھنے سے باقی ہیں، اس کے پرورش کرنے سے پھل پھول رہی ہیں، اور اس کی حفاظت و نگرانی میں کام کر رہی ہیں۔ |
Surah 4 : Ayat 81
وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُواْ مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ ٱلَّذِى تَقُولُۖ وَٱللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَۖ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلاً
وہ منہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے تم ان کی پروا نہ کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، وہی بھروسہ کے لیے کافی ہے
Surah 4 : Ayat 132
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلاً
ہاں اللہ ہی مالک ہے ان سب چیزوں کاجو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور کار سازی کے لیے بس و ہی کافی ہے
Surah 4 : Ayat 71
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ خُذُواْ حِذْرَكُمْ فَٱنفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ ٱنفِرُواْ جَمِيعًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو1، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر
1 | واضح رہے کہ یہ خطبہ اس زمانہ میں نازل ہوا تھا جب اُحُد کی شکست کی وجہ سے اطراف و نواح کے قبائل کی ہمتیں بڑھ گئیں تھیں اور مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھِر گئے تھے۔ آئے دن خبریں آتی رہتی تھیں کہ فلاں قبیلے کے تیور بگڑ رہے ہیں، فلاں قبیلہ دُشمنی پر آمادہ ہے، فلاں مقام پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ پے در پے غداریاں کی جا رہی تھیں۔ ان کے مبلّغین کو فریب سے دعوت دی جاتی تھی اور قتل کر دیا جاتا تھا۔ مدینہ کے حدُود سے باہر ان کے لیے جان و مال کی سلامتی باقی نہ رہی تھی۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ایک زبردست سعی و جہد اور سخت جاں فشانی کی ضرورت تھی تاکہ اِن خطرات کے ہجوم سے اسلام کی یہ تحریک مِٹ نہ جائے |
Surah 33 : Ayat 3
وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلاً
اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے1
1 | اس فقرے کے مخاطب پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ حضورؐ کو ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ جو فرض تم پر عائد کیا گیا ہے اِسے اللہ کے بھروسے پر انجام دو اور دنیا بھر بھی اگر مخالف ہو تو اس کے پرواہ نہ کرو۔ جب آدمی کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو کہ فلاں حکم اللہ تعالٰی کا دیا ہوا ہے تو پھر اسے بالکل مطمئن ہو جانا چاہیے کہ ساری خیر اور مصلحت اسی حکم کی تعمیل میں ہے۔ اس کے بعد حکمت و مصلحت دیکھنا اس شخص کا اپنا کام نہیں ہے، بلکہ اسے اللہ کے اعتماد پر صرف تعمیل ارشاد کرنی چاہیے۔ اللہ اس کے لیے بالکل کافی ہے کہ بندہ اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے۔ وہ رہنمائی کے لیے کافی ہے اور مدد کے لیے بھی، اور وہی اِس امر کا ضامن بھی ہے کہ اُس کی رہنمائی میں کام کرنے والا آدمی کبھی نتائج بد سے دو چار نہ ہو۔ |