Ayats Found (3)
Surah 4 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَآءًۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْحَامَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے1 اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے
1 | چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصُوصیّت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح اُٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دُوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دُوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔ ” تم کو ایک جان سے پیدا کیا“ یعنی نوعِ انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دُوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسلِ انسانی پھیلی۔ ”اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا ( تَلموُد میں اَور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوّا کو حضرت آدم علیہ السّلام کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا)۔ لیکن کتاب اللہ اِس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہُوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعیّن کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے |
Surah 5 : Ayat 117
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَآ أَمَرْتَنِى بِهِۦٓ أَنِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنتَ ٱلرَّقِيبَ عَلَيْهِمْۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ
میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں
Surah 33 : Ayat 52
لَّا يَحِلُّ لَكَ ٱلنِّسَآءُ مِنۢ بَعْدُ وَلَآ أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَٲجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ رَّقِيبًا
اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو1، البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے2 اللہ ہر چیز پر نگران ہے
2 | یہ آیت اس امر کی صراحت کر رہی ہے کہ منکوحہ بیویوں کے علاوہ مملوکہ عورتوں سے بھی تمتع کی اجازت ہے اور ان کے لیے تعداد کی کوئی قید نہیں ہے۔ اسی مضمون کی تصریح سوُرۂ نساء آیت ۳، سُورۂ مومنون آیت ۶، اور سورۂ معارج آیت ۳۰ میں بھی کی گئی ہے۔ ان تمام آیات میں مملوکہ عورتوں کو منکوحہ ازواج کے بالمقابل ایک الگ صنف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے اور پھر ان کے ساتھ ازدواجی تعلق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ نیز سورۂ نساء کی آیت ۳ منکوحہ بیویوں کے لیے چار کی حد مقرر کرتی ہے، مگر نہ اُس جگہ اللہ تعالٰی نے مملوکہ عورتوں کے لیے تعداد کی حد مقرر کی ہے اور نہ دوسری متعلقہ آیات میں ایسی کسی حد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ بلکہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کے بعد دوسری عورتوں سے نکاح کرنا، یا موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لانا حلال نہیں ہے، البتہ مملوکہ عورتیں حلال ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مملوکہ عورتوں کے معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی شریعت یہ گنجائش مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید کر عیاشی کرنے کے لیے دیتی ہے۔ بلکہ یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا، اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے، اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اب اگر کوئی شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدّت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے، تو یہ قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اُٹھا نا ہے جس کی ذمّہ داری خود اسی شخص پر عائد ہو گی نہ کہ خدا کی شریعت پر۔ اسی طرح شریعت نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو، جبکہ ان کی قوم مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرنے یا فدیہ دے کر اُن کو چھڑانے کے لیے تیار نہ ہو، لونڈی بنانے کی اجازت دی، اور جن اشخاص کی ملکیت میں وہ حکومت کی طرف سے دیدی جائیں اُن کو یہ حق دیا کہ ان عورتوں سے تمتع کریں اُن کا وجود معاشرے کے لیے اخلاقی فساد کا سبب نہ بن جائے۔ پھر چونکہ لڑائیوں میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی کوئی تعداد معین نہیں ہو سکتی تھی اس لیے قانوناً اس امر کی بھی کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک شخص بیک وقت کتنے غلام اور کتنے لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت کو بھی اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ اگر کسی لونڈی یا غلام کا نباہ ایک مالک سے نہ ہو سکے تو وہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل ہو سکے اور ایک ہی شخص کی دائمی ملکیت مالک و مملوک دونوں کے لیے عذاب نہ بن جائے۔ شریعت نے یہ سارے قواعد انسانی حالات و ضروریات کو ملحوظ رکھ کر سہولت کی خاطر بنائے تھے۔ اگر ان کو مالدار لوگوں نے عیاشی کا ذریعہ بنا لیا تو اس کا الزام انہی پر ہے نہ کہ شریعت پر۔ |
1 | اس ارشاد کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جو عورتیں اوپر آیت نمبر ۵۰ میں حضورؐ کے لیے حلال کی گئی ہیں ان کے سوا دوسری کوئی عورت اب آپؐ کے لیے حلال نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جب آپ کی ازواجِ مطہرات اس بات کے لیے راضی ہو گئی ہیں کہ تنگی و ترشی میں آپؐ کا ساتھ دیں اور آخرت کے لیے دُنیا کو انہوں نے تج دیا ہے، اور اس پر بھی خوش ہیں کہ آپؐ جو برتاؤ بھی ان کے ساتھ چاہیں کریں، تو اب آپؐ کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ ا ن میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں۔ |