Ayats Found (5)
Surah 7 : Ayat 54
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٲتِۭ بِأَمْرِهِۦٓۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
در حقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا1، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا2 جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے3 بڑا با برکت ہے اللہ4، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار
4 | برکت کے اصل معنی ہیں نمو، افزائش اور بڑھوتری کے ، اور اسی کے ساتھ اس لفظ میں رفعت و عظمت کا مفہوم بھی ہے اور ثبات اور جماؤ کا بھی۔ پھر ان سب مفہومات کے ساتھ خیر اور بھلائی کا تصورّ لازماً شامل ہے۔ پس اللہ کے نہایت با برکت ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی خوبیوں اور بھلائیوں کی کوئی حد نہیں ہے، بے حدوحساب خیرات اس کی ذات سے پھیل رہی ہیں، اور وہ بہت بلند و بر تر ہستی ہے ، کہیں جا کر اس کی بلندی ختم نہیں ہوتی ، اور اس کی یہ بھلائی اور رفعت مستقل ہے، عارضی نہیں ہے کہ کبھی اس کو زوال ہو۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، الفرقان، حواشی۔١۔١۹) |
3 | یہ اُسی مضمون کی مزید تشریح ہے جو”استواء علی العرش“ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا۔ یعنی یہ کہ خدا محض خالق ہی نہیں آمر اور حا کم بھی ہے۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کر کے نہ تو دوسروں کے حوالے کر دیا کہ وہ اس میں حکم چلائیں، اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصّے کو خود مختار بنا دیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے۔ بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ لیل ونہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے ہو رہی ہے، جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے۔سورج اور چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں بالکل مسخّر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو خدا ان سے لے رہا ہے |
2 | خد ا کے استواءعلی العرش(تخت سلطنت پر جلوہ فرماہونے )کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لا محدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور ا س پر جلوہ فرما ہوے سے مراد یہ ہو کہ اللہ نے کا ئنات کو پیدا کر کے اس کی زمامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لی۔ بہر حال استواء علی العرش کا تفصیلی مفہوم خواہ کچھ بھی ہو، قرآن میں اس کے ذکر کا اصل مقصد یہ ذہن نشین کر نا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالقِ کا ئنات ہی نہیں ہے بلکہ مدبّر ِ کائنات بھی ہے۔ وہ دنیا کو وجود میں لانے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر کہیں بیٹھ نہیں گیا ہے بلکہ عملاً وہی سارے جہان کے جزو کل پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ سلطانی و حکمرانی کے تمام اختیارات بالفعل اس کے ہاتھ میں ہیں،ہر چیز اس کے امر کی تابع ہے، ذرّہ ذرّہ اس کے فرمان کا مطیع ہے اور موجودات کی قسمتیں دائماً اس کے حکم سے وابستہ ہیں۔ اس طرح قرآن اُ س کی بنیادی غلط فہمی کی جڑ کاٹنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کبھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوا ہے اور کبھی خود مختیاری و خود سری کی ضلالت میں۔ خدا کو کائنات کے انتظام سے عملاً بے تعلق سمجھ لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ آدمی یا تو اپنی قسمت کو دوسرں سےوابستہ سمجھے اور ان کے آگے سر جھکادے ، یا بھر اپنی قسمت کا مالک خود اپنے آپ کو سمجھے اور خود مختار بن بیٹھے۔ یہاں ایک اور بات اور قابل توجہ ہے۔ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے انسانی زبان میں سے زیادہ تر وہ الفاظ، مصطلحات، استعارے اور انداز بیان انتخاب کیے گئے ہیں جو سلطنت و بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو سمجھ کر قرآن کو پڑھتا ہوا سے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ بعض کم فہم ناقدین کے معکوس دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کتاب جس عہد کی ”تصنیف “ہے اس زمانہ میں انسان کے ذہن پر شاہی نظام کا تسلط تھا اس لیے مصنف نے(جس سے مراد ان ظالموں کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں) خدا کو بادشاہ کے رنگ میں پیش کیا۔ حالانکہ دراصل قرآن فس دائمی و ابدی حقیقت کو پیش کر رہا ہے وہ اس کے بر عکس ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں پادشاہی صرف ایک ذات کی ہے، اور حاکمیت (Sovereignity ) جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے، اور یہ نظامِ کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے، لہذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا کُلّی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اُسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اور سیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان (Sovereign )بھی تسلیم کرے |
1 | یہاں دن کا لفظ یا تو اسی چوبیس گھنٹے کے دن کا ہم معنی ہے جسے دنیا کے لوگ دن کہتے ہیں، یا پھر یہ لفظ دور ( Period ) کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورة الحج آیت نمبر ۴۷ میں فرمایا وَاِنَّ یَوْمًاعِنْدَرَبِّکِ کَاَلْفِ سَنَةٍمِمَّاتَعُدُّوْنَ(اور حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے برابر ہے اُس حساب سے جو تم لوگ لگاتے ہو)، اور سورة مارج کی آیت ۴ میں فرمایا کہ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَةُوَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ(فرشتے اور جبرائیل اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے)۔اس کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔(مزید تشریح کے لیے ملا حظہ ہو حٰم السجدہ حواشی ١١ تا ١۵) |
Surah 13 : Ayat 2
ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَاۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَۖ كُلٌّ يَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّىۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہو1 ں، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا2، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا3 اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے4 اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے5، شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو6
6 | اوپر جن آثارِ کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی، اور عدالت الہٰی میں انسان کی حاضری، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی ، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سُن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیاگیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو اِنہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہو سکتاہے۔ مذکورۂ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے: ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرامِ فلکی پیدا کیے ہیں ، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کُروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے ، اُس کے لیے نوعِ انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پید ا کردینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اِسی نظامِ فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اِس کا پیدا کرنے والا کما ل درجے کا حکیم ہے ، اور اُس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعو ر صاحب ِ اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد ،اور اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کر نے کے بعد، اس کے کارنامۂ زندگی کا حساب نہ لے، اُس کے ظالموں سے باز پرس اور اُس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے ، اُ س کے نیکوکار وں کو جزا اور اُس کے بدکاروں کو سزا نہ دے، اور اُس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تونے کیا معاملہ کیا۔ ایک اندھا راجہ تو بے شک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خوابِ غفلت میں سرشار ہو سکتا ہے، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے |
5 | یعنی اِس امر کی نشانیاں کہ رسولِ خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں۔ کائنات میں ہر طرف اُن پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بے شمار نشانات اُن کی تصدیق کر رہے ہیں |
4 | یعنی یہ نظام صرف اِسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے ، بلکہ اس کے تمام اجزا ء اور اُن میں کام کرنے والی ساری قوتیں اِس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اُس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مِٹ جاتی ہے ۔ یہ حقیقت جس طرح اِس نظام کے ایک ایک جُزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اِس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ اس عالم ِ طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہوگا۔ لہٰذا قیامت ، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے ، اس کا آنا مُستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مُستبَعد ہے |
3 | یہاں یہ امر ملحوظ ِ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی ، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جارہے ہیں ، اللہ کے سوا کسی ا ورکے ہیں۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے ۔ بلکہ ان واقعات کو ، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظامِ کائنات میں صاحبِ اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانےکا مستحق ہو۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجود ِ باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار ، ایک بے عیب حکمت، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر ، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر ، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو |
2 | اِس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۴۱ ۔ مختصرًا یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش (یعنی سلطنتِ کائنات کے مرکز) پر اللہ تعالیٰ کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض کے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں ، اور نہ مختلف خداؤں کی آماج گاہ ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں ، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کر ناے والا خود چلا رہاہے |
1 | بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بے حد و حساب اجرام فلکی کو تھامے ہوئے ہو۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی |
Surah 14 : Ayat 33
وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ دَآئِبَيْنِۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ
جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا1
1 | تمہارے لیے مسخر کیا“ کو عام طور پر لوگوں کو غلطی سے”تمہارے تابع کر دیا“ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس مضمون کی آیات سے عجیب عجیب معنی پیدا کرنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض لوگ تو یہاں تک سمجھ بیٹھے کہ اِن آیات کی رو سے تسخیر سمٰوات و ارض انسان کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ انسان کے لیے ان چیزوں کو مسخر کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے قوانین کا پابند بنا رکھا ہے جن کی بدولت وہ انسان کے لیے نافع ہو گئی ہیں۔ کشتی اگر فطرت کےچند مخصوص قوانین کی پابند نہ ہوتی تو انسان کبھی بحری سفر نہ کر سکتا۔ دریا اگر مخصوص قوانین میں جکڑے ہوئَے نہ ہوتے تو کبھی اُن سے نہریں نہ نکالی جا سکتیں۔ سورج اور چاند اور روز و شب اگر ضابطوں میں کسے ہوئے نہ ہوتے تو یہاں زندگی ہی ممکن نہ ہوتی کجا کہ ایک پھلتا پھولتا انسانی تمدن وجود میں آسکتا۔ |
Surah 16 : Ayat 12
وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَۖ وَٱلنُّجُومُ مُسَخَّرَٲتُۢ بِأَمْرِهِۦٓۗ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اُس نے تمہاری بھلائی کے لیے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور سب تارے بھی اُسی کے حکم سے مسخر ہیں اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں
Surah 39 : Ayat 5
خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۖ يُكَوِّرُ ٱلَّيْلَ عَلَى ٱلنَّهَارِ وَيُكَوِّرُ ٱلنَّهَارَ عَلَى ٱلَّيْلِۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَۖ كُلٌّ يَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّىۗ أَلَا هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْغَفَّـٰرُ
اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے1 وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے اُسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے2
2 | یعنی زبردست ایسا ہے کہ اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی طاقت اس کی مزاحمت نہیں کر سکتی۔ مگر یہ اس کا کرم ہے کہ تم یہ کچھ گستاخیاں کر رہے ہو اور پھر بھی وہ تم کو فوراً پکڑ نہیں لیتا بلکہ مہلت پر مہلت دیے جاتا ہے۔اس مقام پر عقوبت میں تعجیل نہ کرنے اور مہلت دینے کو مغفرت (درگزر) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم‘ابراہیم‘حاشیہ ۲۶،النحل،حاشیہ ۶۔جلد سوم‘العنکبوت‘حاشیہ ۷۵ |