Ayats Found (3)
Surah 17 : Ayat 73
وَإِن كَادُواْ لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ ٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ لِتَفْتَرِىَ عَلَيْنَا غَيْرَهُۥۖ وَإِذًا لَّٱتَّخَذُوكَ خَلِيلاً
اے محمدؐ، ان لوگوں نے اِس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اُس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو1 اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں اپنا دوست بنا لیتے
1 | یہ اُن حالات کی طر ف اشارہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکے میں پیش آرہے تھے۔کفارِ مکہ اس بات کے درپے تھے کہ جس طرح بھی ہو آپ کو توحید کی اس دعوت سے ہٹا دیں جسے آپ پیش کر رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح آپ کو مجبور کر دیں کہ آپ ان کے شرک اور رسومِ جاہلیت سے کچھ نہ کچھ مصالحت کر لیں۔اس غرض کے لیے انہوں نے آپ کو فتنے میں ڈالنے کی ہر کوشش کی۔فریب بھی دیے، لالچ بھی دلائے، دھمکیاں بھی دیں، جھوٹے پروپگنڈے کا طوفان بھی اُٹھایا، ظلم و ستم بھی کیا، معاشی دباؤ بھی ڈالا، معاشرتی مقاطعہ بھی کیا، اور وہ سب کچھ کر ڈالا جو کسی انسان کے عزم کو شکست دینے کے لیے کیا جاسکتا تھا۔ |
Surah 24 : Ayat 61
لَّيْسَ عَلَى ٱلْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُواْ مِنۢ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ ءَابَآئِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَـٰتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَٲنِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَٲتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَـٰمِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّـٰتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَٲلِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَـٰلَـٰتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُۥٓ أَوْ صَدِيقِكُمْۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُواْ جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًاۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُبَـٰرَكَةً طَيِّبَةًۚ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے1 اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ2 البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے
2 | قدیم زمانے کے اہل عرب میں بعض قبیلوں کی تہذیب یہ تھی کہ ہر ایک الگ الگ کھانا لے کر بیٹھے اور کھاۓ۔ وہ مل کر ایک ہی جگہ کھانا برا سمجھتے تھے ، جیسا کہ ہندوؤں کے ہاں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض قبیلے تنہا کھانے کو برا جانتے تھے ، حتیٰ کہ فاقہ کر جاتے تھے اگر کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہو۔ یہ آیت اسی طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے |
1 | اس آیت کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے۔ اول یہ کہ آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ بیمار، لنگڑے ، اندھے اور اسی طرح دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں ہے ، اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں۔ دوم یہ کہ قرآن کیاخلاقی تعلیمات سے اہل عرب کی ذہنیت میں جو زبردست انقلاب واقع ہوا تھا س کی وجہ سے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کے معاملے میں ان کی حس انتہائی نازک ہو گئی تھی۔ ابن عباس کے بقول، اللہ تعالیٰ نے جب ان کو حکم دیا کہ لَا تَأ کُلُوْآ اَمْوَا لَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (ایک دوسرے کے مال نا جائز طریقوں سے نہ کھاؤ) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے تھے ، حتیٰ کہ بالکل قانونی شرطوں کے مطابق صاحب خانہ کی دعوت و اجازت جب تک نہ ہو ، وہ سمجھتے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا بھی نا جائز ہے۔ سوم یہ کہ اس میں اپنے گھروں سے کھانے کا جو ذکر ہے وہ اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں کھانا بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاں کھانا، اور نہ ظاہر ہے کہ اپنے گھر سے کھانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ ان تین باتوں کو سمجھ لینے کے بعد آیت کا یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک معذور آدمی کا تعلق ہے ، وہ اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے ، اس کی معذوری بجاۓ خود سارے معاشرے پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے۔ اس لیے جہاں سے بھی اس کو کھانے کے لیے ملے وہ اس کے لیے جائز ہے۔ رہے عام آدمی ، تو ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان لوگوں کے گھر جن کا ذکر کیا گیا ہے ، یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں ورنہ خیانت ہو گی۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے ہاں جاۓ اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بے تکلف کھا یا جا سکتا ہے۔ جن رشتہ داروں کے نام یہاں لیے گۓ ہیں ان میں اولاد کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آدمی کی اولاد کا گھر اس کا اپنا ہی گھر ہے۔ دوستوں کے معاملے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان سے مراد بے تکلف اور جگری دوست ہیں جن کی غیر موجودگی میں اگر یار لوگ ان کا حلوا اُڑا جائیں تو نا گوار گزرنا تو درکنار انہیں اس پر الٹی خوشی ہو |
Surah 29 : Ayat 25
وَقَالَ إِنَّمَا ٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ أَوْثَـٰنًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ ثُمَّ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَٮٰكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّـٰصِرِينَ
اور اُس نے کہا1 "تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے2 مگر قیامت کے روز تم ایک دُوسرے کا انکار اور ایک دُوسرے پر لعنت کرو گے 3اور آگ تمہارا ٹھکانا ہو گی اور کوئی تمہارا مدد گار نہ ہو گا"
3 | یعنی عقیدہ باطلہ پر تمہاری یہ ہئیت اجتماعی آخرت میں بنی نہیں رہ سکتی۔ وہاں آپس کی محبت دوستی تعاون، رشتہ داری اور عقیدت وارادت کے صرف عہی تعلقات برقرار رہ سکتے ہیں جو دینا میں خدائے واحد کی بندگی اور نیکی و تقوی پر قائم ہوئے ہوں۔ کفر و شرک اور گمراہی و بدراہی پر جُڑے ہوئے سارے رشتے وہاں کٹ جائیں گے، ساری مجتیں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی، ساری عقیدتیں نفرت میں بدل جائیں گی، بیٹے اور باپ، شوہر اور بیوی، پیراور مرید تک ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ہر ایک اپنی گمراہی کی ذٓمہ داری دوسرے پر ڈال کر پکارے گا کی اس ظالم نے مجھے خراب کیا اس لیے اسے دوہرا عذاب دیا جائے۔ یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے مثلا سورہ خرف میں فرمایا اَلاَ خَلاَءُ یَومَذِِ بَعضُہم لِبَعض عَدو اَلاَ المُتَقِینَ (آیت ۶۷) ۔ دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے متقین کے۔ سورہ اعراف میں فرمایا: کُلماَ دَخَلَت اُمَۃ لَعَنَت اُختَھاَ حَتٰی اِذَ ادَا رَکُو فِیہاَ جَمِیعا قَالَت اُخرٰھُم لِاُ ولٰھُم رَبَنَا ھٰوُلَاء اَضَلُونَا فَا تِھِم عَذَابا ضِعفا مِنَ النَارِ (آیت ۳۸) ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے پاس والے گروہ پر لعنت کرتا ہُوا داخل ہون گا حتی کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گر وہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا اے ہمارے رب، یہ لوگ تھے جہنوں نے گمراہ کیا، لہذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔ اور سورہ احزاب میں فرمایا وَقاَلُو رَبَنَا اِنَا اَطَعنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَءَ نَا فَاضَلُونَا السَبِیلَا رَبَنَا اٰتِھم ضَعفَیِن مِنَ العَذَابِ وَلعَنھۃم لَعنِِا کَبِیرا (آیات ۶۷۔۶۸)۔ اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب، ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو راہ سے بے راہ کر دیا، اے ہمارے رب تو انہیں دوہری سزا دے اور ان پر سخت لعنت فرما |
2 | یعنی تم نے خدا پرستی کے بجائے بُت پرستی کی بنیاد پر اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر کر لی ہے جو دینوی زندگی کی حد تک تمہارا قومی شیرازہ باندھ سکتی ہے۔ اس لیے کہ یہاں کسی عقیدے پر بھی لوگ جمع ہو سکتے ہیں خواہ حق ہو یا باطل۔ اور ہر اتفاق و اجتماع، چاہے وہ کیسے ہی غلط عقیدے پر ہو، باہم دوستوں، رشتہ واریوں، برادریوں اور دوسرے تمام مذہبی، معاشرتی و تمدنی اور معاشی و سیاسی تعلقات کے قیام کا ذریعہ بن سکتا ہے |
1 | سلسہ کلام سے متر شح ہوتا ہے کہ یہ بات آگ سے بسلامت نکل آنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں سے فرمائی ہوگی |