Ayats Found (4)
Surah 3 : Ayat 103
وَٱعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواْۚ وَٱذْكُرُواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦٓ إِخْوَٲنًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَاۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
سب مل کر اللہ کی رسی1 کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا2 اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے3
3 | یعنی اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خُود اندازہ کر سکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اِس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اِسے چھوڑ کر پھر اُسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسُول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالتِ سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں |
2 | یہ اشارہ ہے اُس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہلِ عرب مبتلا تھے ۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں، اور شب و روز کے کشت و خون، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہو جاتی۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انھیں بچایا تو وہ یہی نعمتِ اسلام تھی۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے ، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اَوس اور خَزرَج کے وہ قبیلے ، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، باہم مل کر شیر و شکر ہو چکے تھے ، اور یہ دونوں قبیلے مکّہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بے نظیر ایثار و محبت کا برتا ؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے |
1 | اللہ کی رسّی سے مراد اس کا دین ہے ، اور اس کو رسّی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہلِ ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دُوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسّی کو ”مضبوط پکڑنے“ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجّہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رُونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السّلام کی اُمتوں کو ان کے اصل مقصدِ حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے |
Surah 8 : Ayat 63
وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مَّآ أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْۚ إِنَّهُۥ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور مومنوں کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے1، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے
1 | اشارہ ہے اُس بھائی چارے اور الفت و محبت کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے اہل عرب کے درمیان پیدا کر کے ان کو ایک مضبوط جتھا بنا دیا تھا، حالانکہ اس جتھے کے افراد اُن مختلف قبیلوں سے نکلے ہوئے تھے جن کے درمیان صدیوں سے سشمنیاں چلی آرہی تھیں۔ خصوصیت کے ساتھ اللہ کا یہ فضل اوس و خزرج کے معاملہ میں تو سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ یہدونوں قبیلے دو ہی سال پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور مشہور جنگ بُعاث کو کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے جس میں اًوس نے خزرج کو اور خزرج نے اوس کو گویا صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا تہمیہ کر لیا تھا۔ ایسی شدید حداوتوں کو دو تین سال کے اندر گہری دوستی و برادری میں تبدیل کر دینا اور ان متنا فرافزا کو جوڑ کر ایسی ایک بنیان مرصوص بنا دینا جیسی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلامی جماعت تھی، یقیناً انسان کی طاقت سے بالا تر تھا اور دنیوی اسباب کی مدد سے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام نہیں پا سکتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہماری تائید و نصرت نے یہ کچھ کر دکھا یا ہے تو آئندہ بھی تمہاری نظر دنیوی اسباب پر نہیں بلکہ خدا کی تائید پر ہونی چاہیے کہ جو کچھ کام بنے گا اسی سے بنے گا |
Surah 9 : Ayat 71
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۚ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓۚ أُوْلَـٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں1 یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے
1 | ”جس طرح منافقین ایک الگ اُمت ہیں اسی طرح اہلِ ایمان بھی ایک الگ امت ہیں۔ اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے۔ لیکن دونوں کے مزاج، اخلاق، اطوار، عادات اور طرزِ عمل میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ جہاں زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے ، مگر دل سچے ایمان سے خالی ہیں وہاں زندگی کا سارا رنگ ڈھنگ ایسا ہے جو اپنی ایک ایک ادا سے دعوائے ایمان کی تکذیب کررہاہے۔ اوپر کے لیبل پر تو لکھا ہے کہ یہ مُشک ہے مگر لیبل کے نیچے جو کچھ ہے وہ اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ یہ گوبر کے سوا کچھ نہیں۔ بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں مُشک اپنی صورت سے، اپنی خوشبو سے ، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمائش اور ہر معاملہ میں اپنا مُشک ہونا کھولے دے رہا ہے۔ اسلام و ایمان کے عربی نام نے بظاہر دونوں گروہوں کو ایک اُمت بنا رکھا ہے، مگر فی الواقع منافق مسلمانوں کا اخلاقی مزاج اور رنگِ طبیعت کچھ اور ہے اور صادق الایمان مسلمانون کا کچھ اور۔ اسی وجہ سے منافقانہ خصائل رکھنے والے مردوزن ایک الگ جتھا بن گئے ہیں جن کو خدا سے غفلت ، برائی سے دلچسپی، نیکی سے بُعد اور خیر سے عدم تعاون کی مشترک خصوصیات نے ایک دوسرے سے وابستہ اور اہلِ ایمان سے عملًا بے تعلق کر دیا ہے۔ اور دوسری جانب سچے مومن مردوزن ایک دوسرا گروہ بن گئے ہیں جس کے سارے افراد میں یہ خصوصیت مشترک ہے کہ نیکی سے وہ دلچسپی رکھتے ہیں، بدی سے نفرت کرتے ہیں، خدا کی یاد ان کے لیے غذا کی طرح زندگی کی ناگزیر ضروریات میں شامل ہے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کےلیے ان کے دل اور ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، اور خدا اور رسول کی اطاعت ان کی زندگی کا وتیرہ ہے۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انہیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑا اور منافقین کے گروہ سے توڑ دیا ہے |
Surah 8 : Ayat 72
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَـٰهَدُواْ بِأَمْوَٲلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلَّذِينَ ءَاوَواْ وَّنَصَرُوٓاْ أُوْلَـٰٓئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۚ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَلَمْ يُهَاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلَـٰيَتِهِم مِّن شَىْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُواْۚ وَإِنِ ٱسْتَنصَرُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ فَعَلَيْكُمُ ٱلنَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمِۭ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَـٰقٌۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام میں) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں1 ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے2
2 | اوپر کی آیت میں دارالاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ”سیاسی ولایت“ کے رشتہ سے خارج قرار دیا گیا تھا۔ اب یہ آیت اس امر کی توضیح کر تی ہے کہ اس رشتہ سے خارج ہونے کے باوجود وہ ”دینی اخوت“ کے رشتہ سے خارج نہیں ہیں۔ اگر کہیں ان پر ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی برادری کے تعلق کی بنا پر دارالاسلام کی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کریں۔ لیکن اس کے بعد مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایاگیا کہ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دُھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دارالاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جاسکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔ آیت میں معاہدہ کے لیے”میثاق“کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مادہ”وثوق“ ہے جو عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی بھروسے اور اعتماد کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ میثاق ہر اس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے، قطع نظر اس سے کہ ہمارا اُس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہد وپیمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ پھر آیت میں بینکم و بینھم میثاق کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، یعنی ”تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو“۔ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم ھکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دوقوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاق ذمہ داریوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں۔ اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ان کی اخلاقی ذمہ داریون سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبک دوش رہیں۔ البتہ حکومتِ دارالاسلام کے معاہدات کی پانبدیاں صرف اُن مسلمانوں پر ہی عائد ہوں گی جو اس حکومت کے دائرہ عمل میں رہتے ہوں اس دائرے سے باہر دنیا کے باقی مسلمان کسی طرح بھی ان ذمہ داریوں میں شریک نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں جو صلح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے کی تھی اس کی بنا پر کوئی پابندی حضرت ابوبصیر اور ابو جَندل اور اُن دوسرے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوئی جو دارالاسلام کی رعایا نہ تھے |
1 | یہ آیت اسلام کے دستوری قانون کی ایک اہم دفعہ ہے۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ”ولایت“کا تعلق صرف اُن مسلمانوں کے درمیان ہوگا جو یا تو دارالاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر باہر سے آئیں تو ہجرت کر کے آجائیں۔ باقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست کے حدودِارضی سے باہر ہوں، تو ان کے ساتھ مذہبی اخوت تو ضرور قائم رہے گی، لیکن”ولایت“کا تعلق نہ ہوگا، اور اسی طرح ان مسلمانوں سے بھی یہ تعلق ولایت نہ رہے گا جو ہجرت کر کے نہ آئیں بلکہ دارالکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں۔” ولایت“کا لفظ عربی زبان میں حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہوما ت کے لیے بولاجاتا ہے۔ اور اس آیت کے سیاق و سباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے ، اور شہریوں کا اپنی ریاست سے، اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے۔ پس یہ آیت ”دستوری و سیاسی ولایت“ کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کر دیتی ہے، اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتہ سے خارج قرار دیتی ہے ۔ اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں جن کی تفضیلات بیان کرنے کا یہاںموقع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر صرف اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ اسی عدم ولایت کی بنا پر دارالکفر اور دارالا سلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے، ایک دوسرے کے قانونی ولی(Guardian ) نہیں بن سکتے، با ہم شادی بیاہ نہیں کر سکتے، اور اسلامی حکومت کسی ایسے مسلمان کو اپنے ہاں ذمہ داری کا منصب نہیں دے سکتی جس نے دارالکفر سےشہریت کا تعلق نہ توڑا ہو۔ علاوہ بریں یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ س کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری آن مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔”میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو“۔ اس طرح اسلامی قانون نے اُس جھگڑے کی جڑ کات دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے ۔ کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑجاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں |