Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 27
ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَـٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَـٰسِرُونَ
اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں2، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں 3حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
3 | ان تین جُملوں میں فسق اور فاسق کی مکمل تعریف بیان کر دی گئی ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق اور انسان اور انسان کے تعلق کو کاٹنے یا بگاڑنے کا لازمی نتیجہ فساد ہے، اور جو اس فساد کو برپا کرتا ہے، وہی فاسق ہے |
2 | یعنی جن روابط کے قیام اور استحکام پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے ، اور جنہیں درست رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان پر یہ لوگ تیشہ چلاتے ہیں۔ اس مختصر سے جملہ میں اس قدر وسعت ہے کہ انسانی تمدّن و اخلاق کی پوری دُنیا پر ، جو دو آدمیوں کے تعلق سے لے کر عالمگیر بین الاقوامی تعلّقات تک پھیلی ہوئی ہے ، صرف یہی ایک جملہ حاوی ہو جاتا ہے ۔ روابط کو کاٹنے سے مُراد محض تعلّقاتِ انسانی کا اِنقطاع ہی نہیں ہے، بلکہ تعلقات کی صحیح اور جائز صُورتوں کے سوا جو صورتیں بھی اختیار کی جائیں گی، وہ سب اسی ذیل میں آجائیں گی، کیونکہ ناجائز اور غلط روابط کا انجام وہی ہے ، جو قطعِ روابط کا ہے ، یعنی بین الانسانی معاملات کی خرابی اور نظامِ اخلاق و تمدّن کی بردباری |
Surah 13 : Ayat 20
ٱلَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ ٱللَّهِ وَلَا يَنقُضُونَ ٱلْمِيثَـٰقَ
اور اُن کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے1
1 | اس سے مراد وہ اَزَلی عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش میں تمام انسانوں سے لیا تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کریں گے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف ، حاشیہ نمبر ۱۳۴ و ۱۳۵)۔ یہ عہد ہر انسان سے لیا گیا ہے، ہر ایک کی فطرت میں مضمر ہے، اور اُسی وقت پختہ ہو جاتا ہے جب آدمی اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے وجود میں آتا ہے اور ربوبیت سے پرورش پاتا ہے۔ خدا کےرزق سے پلنا ، اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے کام لینا اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں کو استعمال کرنا آپ سے آپ انسان کو خدا کے ساتھ ایک میثاقِ بندگی میں باندھ دیتا ہے جسے توڑنے کی جرأت کوئی ذی شعور اور نمک حلال آدمی نہیں کر سکتا ، اِلّا یہ کہ نادانستہ کبھی اَحیانًا اس سے کوئی لغزش ہو جائے |
Surah 13 : Ayat 21
وَٱلَّذِينَ يَصِلُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوٓءَ ٱلْحِسَابِ
اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے1 انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے
1 | یعنی وہ تمام معاشرتی اور تمدنی روابط جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صَلاح و فلاح منحصر ہے |
Surah 13 : Ayat 25
وَٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَـٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِۙ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمُ ٱللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوٓءُ ٱلدَّارِ
رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانا ہے
Surah 4 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَآءًۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْحَامَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے1 اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے
1 | چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصُوصیّت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح اُٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دُوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دُوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔ ” تم کو ایک جان سے پیدا کیا“ یعنی نوعِ انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دُوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسلِ انسانی پھیلی۔ ”اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا ( تَلموُد میں اَور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوّا کو حضرت آدم علیہ السّلام کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا)۔ لیکن کتاب اللہ اِس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہُوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعیّن کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے |
Surah 8 : Ayat 75
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنۢ بَعْدُ وَهَاجَرُواْ وَجَـٰهَدُواْ مَعَكُمْ فَأُوْلَـٰٓئِكَ مِنكُمْۚ وَأُوْلُواْ ٱلْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِى كِتَـٰبِ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمُۢ
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں1، یقیناً اللہ ہر چیز کو جانتا ہے
1 | مراد یہ ہے کہ اسلامی بھائی چارے کی بنا پر میراث قائم نہ ہوگی اور نہ وہ حقوق جو نسب اور مصاہرت کے تعلق کی بنا پر عائد ہوتے ہیں، دینی بھائیوں کو ایک دوسرے کے معاملہ میں حاصل ہوں گے۔ ان امور میں اسلامی تعلق کے بجائے رشتہ داری کا تعلق ہی قانونی حقوق کی بنیاد رہے گا۔ یہ ارشاد اس بنا پر فرمایا گیا ہے کہ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورع انصار کے درمیان جو مواخاة کرائی تھی اس کی وجہ سے بعض لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ دینی بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے |
Surah 33 : Ayat 6
ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْۖ وَأَزْوَٲجُهُۥٓ أُمَّهَـٰتُهُمْۗ وَأُوْلُواْ ٱلْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِى كِتَـٰبِ ٱللَّهِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُهَـٰجِرِينَ إِلَّآ أَن تَفْعَلُوٓاْ إِلَىٰٓ أَوْلِيَآئِكُم مَّعْرُوفًاۚ كَانَ ذَٲلِكَ فِى ٱلْكِتَـٰبِ مَسْطُورًا
بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے1، اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں2، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو3 یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے
3 | اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا معاملہ ہے، اُن کے ساتھ تو مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت سب سے الگ ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدّم ہیں۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ، بال بچوں، اور بھائی بہنوں کی ضروریات تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے۔ زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو گی، پھر وہ دوسرے مستحقین کو دے گا۔ میراث لازماً ان لوگوں کو پہنچے گی جو رشتے میں آدمی سے قریب تر ہوں۔ دوسرے لوگوں کو اگر وہ چاہے تو ہُبّہ یا وقف یا وصیّت کے ذریعہ سے اپنا مال دے سکتا ہے، مگر اس طرح نہیں کہ وارث محروم رہ جائیں اور سب کچھ دوسروں کو دے ڈالا جائے۔ اس حکم الٰہی سے وہ طریقہ بھی موقوف ہو گیا جو ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے سے شروع ہوا تھا، جس کی رُو سے محض دینی برادری کے تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے صاف فرما دیا کہ وراثت تو رشتہ داری کی بنا پر ہی تقسیم ہو گی، البتہ ایک شخص ہدیے، تحفے یا وصیّت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی کی کوئی مدد کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ |
2 | اُسی خصوصیّت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیّت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اُسی طرح اُن کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سِوا دُنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اِس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نِکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ باقی دوسری احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان اُن کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا۔ اُن کے بھائی بہن مسلمانوں کی لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابِلِ ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رُو سے یہ مرتبہ تمام ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور اُن کی اولاد کو مرکزِ دین بنا کر سارا نظامِ دین انہی کے گرد گھما دیا، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہؓ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کو بھی ہدفِ لعن و طعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رُو سے ہر اُس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضورؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرّات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیّت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ابو منصُور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذاالشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فا یّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھاس من شرف امّھات المؤمنین،(اے ابوالحسَن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تُو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو)۔ اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸۔ ۲۹ اور ۵۱۔۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیوں کہ آیت تخییر کے بعد جن ازواجِ مطہّرات نے ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کو باقی نہ رہا تھا۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر۴۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے۔ علاوہ بریں ایک غیر متعصّب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس روایت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو، اور رسولِ پاکؐ کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تروبرتر ہے، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دُنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تُو اُسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدّعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزّت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالٰی کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔ |
1 | یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مسلمانوں کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچّے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں اُن کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت رکھیں، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں، اور آپؐ کے ہر حکم سرِ تسلیم خم کر دیں۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سی لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ لا یؤمن احدُ کم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔ |
Surah 47 : Ayat 22
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُواْ فِى ٱلْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوٓاْ أَرْحَامَكُمْ
اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے1 تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟2
2 | اس ارشاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر اس وقت تم اسلام کی مدافعت سے جی چراتے ہو اور اس عظیم الشان اصلاحی انقلاب کے لیے جان و مال کی بازی لگانے سے منہ موڑتے ہو جس کی کوشش محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کر رہے ہیں، تو اس کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم پھر اسی جاہلیت کے نظام کی طرف پلٹ جاؤ جس میں تم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے ہو، اپنی اولاد تک کو زندہ دفن کرتے رہے ہو، اور خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھتے رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اس کے لیے تمہارے اندر کوئی اخلاص اور کوئی وفاداری نہیں ہے، اور اس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تم تیار نہیں ہو، تو اس اخلاقی حالت کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اقتدار عطا کر دے اور دنیا کے معاملات کی باگیں تمہارے ہاتھ میں آ جائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کشی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ اسلام میں قطع رحمی حرام ہے۔ دوسری طرف مثبت طریقہ سے بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو بڑی نیکیوں میں شمار کیا گیا ہے اور صلح رحمی کا حکم دیا گیا ہے۔ (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ،83۔177۔ النساء، 8 36۔ النحل، 90۔ بنی اسرائیل، 26۔ النور، 22۔ رحم کا لفظ عربی زبان میں قرابت اور رشتہ داری کے لیے استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک شخص کے تمام رشتہ دار، خواہ وہ دور کے ہو یا قریب کے، اس کے ذوی الارحام ہیں۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتہ دار کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو اس سے دریغ نہ کرے۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے، یا جو بھلائی کرنا اس کے لیے ممکن ہو اس سے قصداً پہلو تہی کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے ام ولد کی بیع کو حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرام نے اس سے اتفاق فرمایا تھا۔ حاکم نے مسدرک میں حضرت بردیہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں حضرت عمرؓ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ یکایک محلہ میں شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی لڑکی رو رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اسی وقت انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ جو دین محمد صلی اللہ علیہ و سلم لاۓ ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے کہا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جا رہا ہے؟ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لوگوں نے کہا آپ کی راۓ میں اس کو روکنے کے لیے جو صورت مناسب ہو وہ اختیار فرمائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تمام بلادِ اسلامیہ کے لیے یہ فرمان جاری کر دیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جاۓ جس سے اس کے مالک کے ہاں اولاد پیدا ہو چکی ہو، کیونکہ یہ قطع رحمی ہے اور یہ حلال نہیں ہے |
1 | اصل الفاظ ہیں اِنْ تَوَلَّیْتُمْ۔ ان کا ایک ترجمہ وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے۔ اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم لوگوں کے حاکم بن گئے |