Ayats Found (12)
Surah 2 : Ayat 182
فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصداً حق تلفی کی ہے، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
Surah 2 : Ayat 220
فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۗ وَيَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْيَتَـٰمَىٰۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَٲنُكُمْۚ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ ٱلْمُفْسِدَ مِنَ ٱلْمُصْلِحِۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
پوچھتے ہیں: یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو: جس طرز عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو، وہی اختیار کرنا بہتر ہے1 اگر تم اپنا اور اُن کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے، دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا، مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ صاحب حکمت بھی ہے
1 | اس آیت کے نزول سے پہلے قرآن میں یتیموں کے حقوق کے حفاظت کے متعلق بار بار سخت احکام آچکے تھے اور یہاں تک فرما دیا گیا تھا کہ ”یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو“۔ اور یہ کہ ” جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں۔“ ان شدید احکام کی بنا پر وہ لوگ، جن کی تربیت میں یتیم بچے تھے، اس قدر خوف زدہ ہوگئے تھے کہ انہوں نے ان کا کھانا پینا تک اپنے سے الگ کر دیا تھا اور اس احتیاط پر بھی انہیں ڈر تھا کہ کہیں یتیموں کے مال کا کوئی حصّہ ان کے مال میں نہ مِل جائے۔ اسی لیے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ان بچوں کے ساتھ ہمارے معاملے کی صحیح صُورت کیا ہے |
Surah 2 : Ayat 224
وَلَا تَجْعَلُواْ ٱللَّهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَـٰنِكُمْ أَن تَبَرُّواْ وَتَتَّقُواْ وَتُصْلِحُواْ بَيْنَ ٱلنَّاسِۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اللہ کے نام کو ایسی قسمیں کھانے کے لیے استعمال نہ کرو، جن سے مقصود نیکی اور تقویٰ اور بند گان خدا کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو1 اللہ تمہاری ساری باتیں سن رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے
1 | احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے کسی بات کی قَسم کھائی ہو اور بعد میں اس پر واضح ہو جائے کہ اِس قَسم کے توڑ دینے ہی میں خیر اور بھلائی ہے، اسے قَسم توڑ دینی چاہیے اور کفّارہ ادا کرنا چاہیے۔ قَسم توڑنے کا کفّارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا یا تین دن کے روزے رکھنا ہے۔( ملاحظہ ہو سُورہ مائدہ ، آیت ۸۹) |
Surah 2 : Ayat 228
وَٱلْمُطَلَّقَـٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَـٰثَةَ قُرُوٓءٍۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ فِىٓ أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِى ذَٲلِكَ إِنْ أَرَادُوٓاْ إِصْلَـٰحًاۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپائیں اُنہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے، اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں اُن کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اِس عدت کے دوران اُنہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں1 عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے
1 | اس آیت کے حکم میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک جماعت کے نزدیک جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر نہا نہ لے، اس وقت تک طلاق بائن نہ ہوگی اور شوہر کو رُجوع کا حق باقی رہے گا۔ حضرات ابوبکر ؓ ، عمر ؓ ، علی ؓ ، ابنِ عباس ؓ ، ابو موسیٰ اشعری، ابنِ مسعود اور بڑے بڑے صحابہ ؓ کی یہی رائے ہے اور فقہائے حنفیہ نے اِسی کو قبول کیا ہے۔ بخلاف اِس کے دُوسری جماعت کہتی ہے کہ عورت کو تیسری بار حیض آتے ہی شوہر کا حقِ رجوع ساقط ہو جاتا ہے۔ یہ رائے حضرات عائشہ ؓ ، ابنِ عمر ؓ ، اور زید بن ثابت ؓ کی ہے اور فقہائے شافعیہ و مالکیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ مگر واضح رہے کہ یہ حکم صرف اس صُورت سے متعلق ہے، جس میں شوہر نے عورت کو ایک یا دو طلاقیں دی ہوں۔ تین طلاقیں دینے کی صُورت میں شوہر کو حقِ رُجوع نہیں ہے |
Surah 4 : Ayat 35
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِۦ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَآ إِن يُرِيدَآ إِصْلَـٰحًا يُوَفِّقِ ٱللَّهُ بَيْنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں1 اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے2
2 | اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں ناموافقت ہوجائے وہاں نزاع سے انقطاع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے ، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے کہ دونوں مِل کر اسبابِ اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صُورت نکالیں۔ یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالٰی نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں، ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کریں، اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کاروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں۔ فقہاء میں ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، البتہ تصفیہ کی جو صُورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں، ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے۔ ہاں اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خُلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہوگا۔ یہ حنفی اور شافعی علماء کا مسلک ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیا ر ہے، مگر علیٰحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے۔ یہ حَسَن بصری اور قَتَادہ اور بعض دوسرے فقہاء کا قول ہے ۔ ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کردینے کے پُورے اختیارات ہیں۔ ابن عباس، سَعِید بن جُبَیر، ابراہیم نَخَعی، شَعبِی، محمد بن سِیرِین، اور بعض دوسرے حضرات نے یہی رائے اختیار کی ہے ۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے اُن کو حاکمانہ اختیارات دے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عَقیِل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عُتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمان ؓ کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس ؓ ، اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ ؓ بن ابی سفیان کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کر دیان ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں۔ اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علی ؓ نے حَکَم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہے ملا دیں اور چاہیں جُدا کردیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطورِ خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے ۔ البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انہیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہو گا |
1 | دونوں سے مراد ثالث بھی ہیں اور زوجین بھی۔ ہر جھگڑے میں صلح ہونے کا امکان ہے بشرطیکہ فریقین بھی صلح پسند ہوں اور بیچ والے بھی چاہتے ہوں کہ فریقین میں کسی طرح صفائی ہو جائے |
Surah 4 : Ayat 114
۞ لَّا خَيْرَ فِى كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَٮٰهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَـٰحِۭ بَيْنَ ٱلنَّاسِۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٲلِكَ ٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِ ٱللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اُسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے
Surah 4 : Ayat 128
وَإِنِ ٱمْرَأَةٌ خَافَتْ مِنۢ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًاۚ وَٱلصُّلْحُ خَيْرٌۗ وَأُحْضِرَتِ ٱلْأَنفُسُ ٱلشُّحَّۚ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
جب1 کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطر ہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں صلح بہر حال بہتر ہے2 نفس تنگ دلی کے طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں3، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرز عمل سے بے خبر نہ ہوگا4
4 | یہاں پھر اللہ تعالٰی نے مرد ہی کے جذبۂ فیاضی سے اپیل کی ہے جس طرح بالعموم ایسے معاملات میں اس کا قاعدہ ہے۔ اس نے مرد کو ترغیب دی ہے کہ وہ بے رغبتی کے باوجود اس عورت کے ساتھ احسان سے پیش آئے جو برسوں اس کی رفیقِ زندگی رہے ہے، اور اس خدا سے ڈرے جو اگر کسی انسان کی خامیوں کے سبب سے اپنی نظرِ التفات سے اس پھیر لے اور اس کے نصیب میں کمی کرنے پر اُتر آئے تو پھر اس کا دنیا میں کہیں ٹھکانا نہ رہے |
3 | عورت کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر شوہر کے لیے بے رغبتی کے اسباب کو خود محسوس کر تی ہو اور پھر بھی وہ سلوک چاہے جو ایک مرغوب بیوی کے ساتھ ہی برتا جا سکتا ہے۔ مرد کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ جو عورت دل سے اُتر جانے پر بھی اس کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہو اس کو وہ حد سے زیادہ دبانے کی کوشش کرے اور اس کے حقوق ناقابلِ برداشت حد تک گھٹا دینا چاہے |
2 | یعنی طلاق و جدائی سے بہتر ہے کہ اس طرح باہم مصالحت کر کے ایک عورت اُسی شوہر کے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمر کا ایک حصہ گزار چکی ہے |
1 | یہاں سے اصل استفتاء کا جواب شروع ہوتا ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سوال کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص غیر محدود تعداد تک بیویاں کر نے کے لیے آزاد تھا اور ان کثیر التعداد بیویوں کے لیے کچھ بھی حقوق مقرر نہ تھے ۔ سُورۂ نساء کی ابتدائی آیات جب نازل ہو ئیں تو اس آزادی پر دو قسم کی پابندیاں عائد ہوگئیں۔ ایک یہ کہ بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دی گئی۔ دوسرے یہ کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے عدل ( یعنی مساویانہ برتا ؤ) کو شرط قرار دیا گیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے ، یا دائم المرض ہے، یا تعلقِ زن و شو کے قابل نہیں رہی ہے، اور شوہر دُوسری بیوی بیاہ لاتا ہے تو کیا وہ مجبُور ہے کہ دونوں کے ساتھ یکساں رغبت رکھے؟ یکساں محبت رکھے؟ جسمانی تعلق میں بھی یکسانی برتے؟ اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا عدل کی شرط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دُوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کو چھوڑ دے؟ نیز یہ کہ اگر پہلی بیوی خود جدا نہ ہونا چاہے تو کیا زوجین میں اس قسم کا معاملہ ہو سکتا ہے کہ جو بیوی غیر مرغوب ہو چکی ہے وہ اپنےبعض حقوق سے خود دست بردار ہو کر شوہر کو طلاق سے باز رہنے پر راضی کر لے؟ کیا ایسا کرنا عدل کی شرط کے خلا ف تو نہ ہوگا ؟ یہ سوالات ہیں جن کا جواب اِن آیات میں دیا گیا ہے |
Surah 7 : Ayat 142
۞ وَوَٲعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَـٰثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَـٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَـٰتُ رَبِّهِۦٓ أَرْبَعِينَ لَيْلَةًۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَـٰرُونَ ٱخْلُفْنِى فِى قَوْمِى وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ ٱلْمُفْسِدِينَ
ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی1 موسیٰؑ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا کہ 2"میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا"
2 | حضرت ہارون علیہ السلام اگرچہ حضرت موسیٰ سے تین سال بڑے تھے لیکن کارِ نبوّت میں حضرت موسیٰ کے ماتحت اور مددگار تھے۔ ان کی نبوت مستقل نہ تھی بلکہ حضرت موسیٰ نےاللہ تعالیٰ سے درخواست کر کے ان کو اپنے وزیر کی حیثیت سے مانگا تھا جیسا کہ آگے چل کر قرآن مجید میں تبصریح بیان ہوا ہے |
1 | مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرئیل کی غلامانہ پابندیاں ختم ہو گئیں اور اُنہیں ایک خود مختار قوم کی حیثیت حاصل ہو گئی تو حکمِ خدا وندی کےتحت حضرت موسیٰ ؑ کوہ سینا پر طلب کیے گئے تا کہ انہیں بنی اسرائیل کے لیے شریعت عطا فرمائی گئی تھی کہ حضرت موسیٰ ایک پورا چِلّہ پہاڑ پر گزاریں اور روزے رکھ کر ، شب و روز عبادت اور تفکر و تدبر کر کے اور دل و دماغ کو یکسو کر کے اُس قولِ ثقیل کے اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں جو ان پر نازل کیا جانے والا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اس ارشاد کی تعمیل میں کوہ سینا جاتے وقت بنی اسرإیل کو اُس مقام پر چھوڑا تھا جو موجودہ نقشہ میں نبی صالح اور کوہ ِ سینا کے درمیان وادی ایشخ کے نام سے موسوم ہے۔ اس وادی کا وہ حصہ جہاں بنی اسرائیل نے پڑاؤ کیا تھا آج کل میدان الراحہ کہلاتا ہے۔ وادی کے ایک سرے پر وہ پہاڑی واقع ہے جہاں مقامی روایت کے بموجب حضرت صالح علیہ السلام ثمود کے علاقے سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تھے۔ آج وہاں ان کی یادگار میں ایک مسجد بنی ہوئی ہے ۔ دوسری طرف ایک اور پہاڑی جبل ہارون نامی ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی سے ناراض ہو کر جابیٹھے تھے۔ تیسری طرف سینا کا بلند پہاڑ ہے جس کا بالائی حصہ اکثر بادلوں سے ڈھنکا رہتا ہے اور جس کی بلندی ۷۳۹۵ فیٹ ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر آج تک وہ کھوہ زیارت گاہِ عام بنی ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ نے چلّہ کیاتھا۔ اس کے قریب مسلمانوں کی ایک مسجد اور عیسائیوں کا ایک گرِجا موجود ہے اور پہاڑ کے دامن میں رومی قیصر جسٹنین کے زمانہ کی ایک خانقاہ آج تک موجود ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حواشی ۹۔١۰) |
Surah 8 : Ayat 1
يَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَنفَالِۖ قُلِ ٱلْأَنفَالُ لِلَّهِ وَٱلرَّسُولِۖ فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْۖ وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو “یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو"1
1 | یہ اس تبصرہ جنگ کی عجیب تمہید ہے۔ بدر میں جو مال غنیمت لشکر قریش سے لوٹا گیا تھا اس کی تقسیم پر مسلمانوں کے درمیان نزاغ برپا پو گئی۔ چونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان لوگوں کی پہلی مرتبہ پرچم اسلام کے نیچے لڑنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیے ان کو معلوم نہ تھا کہ اس مسلک میں جنگ اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق کیا ضابطہ ہے۔ کچھ ابتدائی ہدایات سورہ بقرہ اور سورہ محمد میں دی جا چکی تھیں۔ لیکن”تہذیب جنگ“ کی بنیاد ابھی رکھنی باقی تھی۔ بہت سے تمدنی معاملات کی طرح مسلمان ابھی تک جنگ کے معاملہ میں بھی اکثر پرانی جاہلیت ہی کے تصورات لیے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے بدر کی لڑائی میں کفار کی شکست کےبعد جن لوگوں نے جو جو کچھ مال غنیمت لوٹا تھا وہ عرب کے پرانے طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھ بیٹھے تھے۔ لیکن ایک دوسرا فریق جس نے غنیمت کی طرف رُخ کرنے کے بجائے کفار کا تعاقب کیا تھا، اس بات کا مدعی ہوا کہ اس مال میں ہمارا برابر کا حصہ ہے کیونکہ اگر ہم دشمن کا پیچھا کرکے اسے دور تک بھگا نہ دیتے اور تمہاری طرح غنیمت پر ٹوٹ پڑتے تو ممکن تھا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ کر دیتا اور فتح شکست سے بدل جاتی ۔ ایک تیسرے فریق نے بھی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہا تھا، اپنے دعاوی پیش کیے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ سب سے بڑھ کر قیمتی خدمت تو اس جنگ میں ہم نے انجام دی ہے۔ اگر ہم رسول اللہ کے گرد اپنی جانوں کا حصار بنائے ہوئے نہ رہتے اور آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح ہی کب نصیب ہو سکتی تھی کہ کوئی مال غنیمت ہاتھ آتا اور اس کی تقسیم کا سوال اٹھتا۔ مگر مال عملاً جس فریق کے قبضہ میں تھا اس کی ملکیت گویا کسی ثبوت کی محتاج نہ تھی اور وہ دلیل کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ ایک امرِ واقعی کے اس زور سے بدل جائے۔ آخر کار اس نزاع نے تلخی کی صورت اختیار کرنی شروع کردی اور زبانوں سے دلوں تک بد مزگی پھیلنے لگی۔ یہ تھا وہ نفسیاتی موقع جسے اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال نازل کرنے کے لیے منتخب فرمایا اور جنگ پر اپنے تبصے کی ابتدا اسی مسئلے سے کی۔ پھر پہلا ہی فقرہ جو ارشاد ہوا اُسی میں سوال کا جواب موجود تھا فرمایا”تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں“؟ یہ ان اموال کو ”غنائم“ کے بجائے” انفال “ کے لفظ سے تعبیر کرنا بجائے خود مسئلے کا فیصلہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ انفال جمع ہے نفل کی۔ عربی زبام میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب سے یا حق سے زائد ہو۔ جب یہ تابع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد و ہ رضا کارانہ خدمت ہوتی ہے جو ایک بندہ اپنے آقا کے لیے فرض سے بڑھ کر تَطُوَّعًا بجا لاتا ہے۔ اور جب یہ متبوع کی طرف سے ہو تو اس سے مرادہ وہ عطیہ و انعام ہوتا ہے جو آقا اپنے بندے کو اس کے حق سے زائد دیتا ہے۔ پس ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ساری ردّوکد، یہ نزاع ، یہ پوچھ گچھ کیا خدا کے بخشے ہوئے ، انعامات کے بارے میں ہو رہی ہے؟ اگر یہ بات ہے تو تم لوگ ان کے مالک و مختار کہان بنے جا رہے ہو کہ خواد ان کی تقسیم کا فیصلہ کرو۔ مال جس کا بخشا ہوا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کیسے دیا جائے اور کسے نہیں، اور جس کو بھی دیا جائے اسے کتنا دیا جائے۔ یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی اخلاقی اصلاح تھی ۔ مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی وتمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے ، جسے مجبوراً اُس وقت اختیار کیا جاتا ہےجبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں۔ پس مصلحین کی نظر اپنے مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ اُن فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں۔ پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی انتظامی اصلاح بھی تھی۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہو جاتا ۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہو جاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بے کم و کاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اُس پوری فوج میں تقسیم کر دیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہوگئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں۔ اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ذہن میں رہنا چاہیے، یہاں انفال کے قصے کو صرف اتنی بات کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ تقسیم کے مسئلے کو یہاں نہیں چھیڑا گیا تا کہ پہلےتسلیم و اطاعت مکمل ہو جائے۔ پھر چند رکوع کے بعد بتایا گیا کہ ان اموال کو تقسیم کس طرح کیا جائے۔ اسی لیے یہاں انہیں”انفال “کہاگیا ہے اور رکوع ۵ میں جب تقسیم کا حکم بیان کرنے کی نوبت آئی تو انہی اموال کو”غنائم“کے لفظ سے تعبیر کیا گیا |
Surah 11 : Ayat 88
قَالَ يَـٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّى وَرَزَقَنِى مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًاۚ وَمَآ أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَآ أَنْهَـٰكُمْ عَنْهُۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا ٱلْإِصْلَـٰحَ مَا ٱسْتَطَعْتُۚ وَمَا تَوْفِيقِىٓ إِلَّا بِٱللَّهِۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
شعیبؑ نے کہا 1"بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریک حال کیسے ہوسکتا ہوں؟) اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں2 میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
2 | یعنی میری سچائی کا تم اس بات سے اندازہ کر سکتے ہو کہ جو کچھ دوسروں سے کہتا ہوں اسی پر خود عمل کرتا ہوں اگر میں تم کو غیر اللہ کے آستانوں سے روکتا اور خود کسی آستانے کا مجاور بن بیٹھا ہوتا تو بلاشبہ تم یہ کہہ سکتے تھے کہ اپنی پیری چمکانے کے لیے دوسری دو کانوں کی ساکھ بگاڑنا چاہتا ہے اگر میں تم کو حرام کے مال کھانے سے منع کرتا اور خود اپنے کاروبار میں بے ایمانیاں کر رہا ہوتا تو ضرور تم یہ شبہہ کر سکتے تھے کہ میں اپنی ساکھ جمانے کے لیے ایمانداری کا ڈھول پیٹ رہا ہوں لیکن تم دیکھتے ہو کہ میںخود ان برائیوں سے بچتا ہوں جن سے تم کو منع کرتا ہوں میری اپنی زندگی ان دھبوں سے پاک ہے جن سے تمہیں پاک دیکھنا چاہتا ہوں میں نے اپنے لیے بھی اپسی طریقہ کو پسند کیا ہے جس کی تمہیں دعوت دے رہا ہوں یہ چیز اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ میں اپنی اس دعوت میں صادق ہوں |
1 | یونس علیہ السلام (جن کا نام بائیبل میں یوناہ ہے اور جن کا زمانہ سن ۸۶۰ – ۷۸۴ قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے) اگر چہ اسرائیلی نبی تھے، مگر ان کو اشور(اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور اسی بنا پر اشوریوں کی یہاں قوم یونس کہا گیا ہے۔ اس قوم کا مرکز اس زمانہ میں نینویٰ کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج تک دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موجودہ شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں ”یونس نبی“ کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے ۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینوی تقریبًا ۶۰ میل کے دَور میں پھیلا ہوا تھا |