Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 243
۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَـٰرِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ ٱللَّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَـٰهُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلنَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
تم نے اُن لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مر جاؤ پھر اُس نے اُن کو دوبارہ زندگی بخشی1 حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے
1 | وہ اشارہ بنی اسرائیل کے واقعہ ء خروج کی طرف ہے۔ سُورہ مائدہ کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالٰی نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے۔ دشت و بیاباں میں بے خانماں پھر رہے تھے۔ خود ایک ٹھکانے کے لیے بے تاب تھے۔ مگر جب اللہ کے ایمان سے حضرت موسیٰ ؑ نے ان کو حکم دیا کہ ظالم کَنعانیوں کو ارضِ فلسطین سے نکال دو اور اس علاقے کو فتح کر لو، تو انہوں نے بُزدلی دِکھائی اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ آخر کا ر اللہ نے انھیں چالیس سال تک زمین میں سرگرداں پھرنے کے لیے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ان کی ایک نسل ختم ہو گئی اور دُوسری نسل صحرا ؤ ں کی گود میں پل کر اُٹھی۔ تب اللہ تعالٰی نے اُنھیں کنعانیوں پر غلبہ عطا کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی معاملے کو موت اور دوبارہ زندگی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے |
Surah 40 : Ayat 61
ٱللَّهُ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ لِتَسْكُنُواْ فِيهِ وَٱلنَّهَارَ مُبْصِرًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلنَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں سکون حاصل کرو، اور دن کو روشن کیا حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے1
1 | یہ آیت دو اہم مضامین پر مشتمل ہے۔ اوّلاً اس میں رات اور دن کو دلیل توحید کے طور پر پیش کیا گیا ہے، کیونکہ ان کا باقاعدگی کے ساتھ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ زمین اور سورج پر ایک ہی خدا حکومت کر رہا ہے، اور ان کے الٹ پھیر کا انسان اور دوسری مخلوقات ارضی کے لیے نافع ہونا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ وہی ایک خدا ان سب اشیاء کا خالق بھی ہے اور اس نے یہ نظام کمال درجہ حکمت کے ساتھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کے لیے نافع ہو۔ثانیاً، اس میں خدا کے منکر اور خدا کے ساتھ شرک کرنے والوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ خدا نے رات اور دن کی شکل میں یہ کتنی بڑی نعمت ان کو عطا کی ہے، اور وہ کتنے سخت ناشکرے ہیں کہ اس کی اس نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شب و روز اس سے غداری و بے وفائی کیے چلے جاتے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، صفحات 296 تا 298۔ جلد سوم، صفحات 461۔ 606۔ 659۔ 747 جلد چہارم، لقمان، آیت 29، حاشیہ 50۔ یٰس، آیت 37، حاشیہ 32) |
Surah 10 : Ayat 60
وَمَا ظَنُّ ٱلَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلنَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ
جو لوگ اللہ پر یہ جھوٹا افترا باندھتے ہیں ان کا کیا گمان ہے کہ قیامت کے روز ان سے کیا معاملہ ہو گا؟ اللہ تو لوگوں پر مہربانی کی نظر رکھتا ہے مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو شکر نہیں کرتے1
1 | ”یعنی یہ تو آقا کی کمال درجہ مہربانی ہے کہ وہ نوکر کو خود بتاتا ہے کہ میرے گھر میں اور میرے مال میں اور خود اپنے نفس میں تُو کونسا طرزِعمل اختیار کرے گا تو میری خوشنودی اور انعام اور ترقی سے سرفراز ہو گا، اور کس طریقِ کار سے میرے غضب اور سزا اور تنزل کا مستوجب ہو گا۔ مگر بہت سے بے وقوف نوکر ایسے ہیں جو اس عنایت کا شکریہ ادا نہیں کرتے۔ گویا ان کے نزدیک ہونا یہ چاہیے تھا کہ آقا اُن کو بس اپنے گھر میں لا کر چھوڑ دیتا اور سب مال اُن کے اختیار میں دے دینے کے بعد چھُپ کر دیکھتا رہتا کہ کون سا نوکر کیا کرتا ہے، پھر جو بھی اُس کی مرضی کے خلاف ۔۔۔۔۔۔ جس کا کسی نوکر کو علم نہیں ۔۔۔۔۔۔ کوئی کام کرتا تو اُسے وہ سزا دے ڈالتا۔ حالانکہ اگر آقا نے اپنے نوکروں کو اتنے سخت امتحان میں ڈالا ہوتا تو ان میں سے کسی کا بھی سزا سے بچ جانا ممکن نہ تھا۔ |
Surah 27 : Ayat 73
وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلنَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ
حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب تو لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
1 | یعنی یہ تو اللہ رب العالمین کی عنایت ہے کہ وہ لوگوں کو تصور سرزد ہوتے ہی نہیںپکڑلیتابلکہ سنبھلنےکی مہلت دیتا ہے۔ مگر اکثر لوگ اس پرشکرگزارہوکراس مہلت کواپنی اصلاح کےلیےاستعمال نہیں کرتےبلکہ مواخذہ میںدیر ہونے کامطلب یہ لیتے ہیں کہ یہاں کوئی گرفت کرنےوالا نہیں ہے اس لیے جوجی میں آئے کرتے رہو اورکسی سمجھانےوالےکی بات مان کرنہ دو۔ |