Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 177
۞ لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَـٰبِ وَٱلنَّبِيِّــۧنَ وَءَاتَى ٱلْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٲةَ وَٱلْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَـٰهَدُواْۖ وَٱلصَّـٰبِرِينَ فِى ٱلْبَأْسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلْبَأْسِۗ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف1، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں
1 | مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے کو تو محض بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے ، دراصل مقصُود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پُری کے طور پر چند مقرر مذہبی اعمال انجام دینا اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے ، جو اللہ کے ہاں وزن اور قدر رکھتی ہے |
Surah 2 : Ayat 215
يَسْــَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَٲلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِۗ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا
Surah 4 : Ayat 36
۞ وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی1 اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے
1 | متن میں”الصا حب بالجنب“ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہےاور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے۔ مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو، یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدا ر بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ، یاسفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو۔ یہ عارضی ہمسائیگی بھی ہر مہذّب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک برتا ؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے |
Surah 8 : Ayat 41
۞ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَىْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُۥ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ إِن كُنتُمْ ءَامَنتُم بِٱللَّهِ وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ ٱلْفُرْقَانِ يَوْمَ ٱلْتَقَى ٱلْجَمْعَانِۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسُولؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے1 اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈبھیڑ کے دن، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی، (تو یہ حصہ بخوشی ادا کرو) اللہ ہر چیز پر قادر ہے2
2 | یعنی وہ تائید وہ نصرت جس کی بدولت تمہیں فتح حاصل ہوئی |
1 | یہاں اُس مال غنیمت کی تقسیم کا قانون بتایا ہے جس کے متعلق تقریر کی ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کا انعام ہے جس کے بارے میں فیصلہ کرنے کااختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے۔ اب وہ فیصلہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑائی کے بعد تمام سپاہی ہر طرح کا مال غنیمت لا کر امیر یا امام کے سامنے رکھ دیں اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھیں ۔ پھر اس مال میں سے پانچواں حصہ اُن اغراض کے لیے نکال لیا جائے جو آیت میں بیان ہوئی ہیں، اور باقی چار حصے ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا ہو۔ چنانچہ اس آیت کےمطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لڑائی کے بعد اعلان فرمایا کرتے تھے کہ ان ھٰذہ غنائمکم و انہ لیس لے فیھا الا نصیبی معکم الخمس ولاخمس مردود علیکم جا دو ا الخیط المخیط و اکبر من ذٰلک و اصغر ولا تغلوا جان الغلول عار و نار۔”یہ غنائم تمہارے ہی لیے ہیں، میری اپنی ذات کا ان میں کوئی حصہ نہیں ہے بجز خمس کے اور وہ خمس بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پر صرف کر دیا جاتا ہے ۔“ لہٰذا ایک ایک سوئی اورایک ایک تاگا تک لا ک رکھ دو، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز چھپا کر نہ رکھو کہ ایسا کرنا شرمناک ہے اور اس کا نیجہ دوزخ ہے۔ اس تقسیم میں اللہ اور رسول کا حصہ ایک ہی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ خمس کا ایک جزء اعلاء کلمتہ اللہ اوت اقامت دینِ حق کے کام میں صرف کیا جائے رشتہ داروں سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو حضور ہی کے رشتہ دار تھے کیونکہ جب آپ اپنا سارا وقت دین کےکام میں صرف فرماتے تھے اور اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ رہا تھا تو لامحالہ اس کا انتظام ہونا چاہیے تھا کہ آپ کی اور آپ کے اہل و عیال اور اُن دوسرے اقربا کی، جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی، ضروریات پوری ہوں اس لیے خمس میں آپ کے اقربا کا حصہ رکھا گیا۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضور کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا یہ حصہ کس کو پہنچتا ہے۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حصہ منسوخ ہو گیا۔ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ حضور کے بعد یہ حصہ اس شخص کے اقربا کو پہنچے گا جو حضور کی جگہ خلافت کی خدمت انجام دے۔ تیسرے گروہ کے نزدیک یہ حصہ خاندان نبوت کے فقراء میں تقسیم کیا جاتا رہے گا۔ جہاں تک میں تحقیق کر سکا ہوں خلفاء راشدین کے زمانہ میں اسی تیسری رائے پر عمل ہوتا تھا |
Surah 9 : Ayat 60
۞ إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْعَـٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَٱلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَٱلْغَـٰرِمِينَ وَفِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِۖ فَرِيضَةً مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں3، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو4 نیز یہ گردنوں کے چھڑانے5 اور قرض داروں کی مدد کرنے میں6 اور راہ خدا میں1 اور مسافر نوازی میں 2استعمال کرنے کے لیے ہیں ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے
6 | یعنی ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی ، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوٰۃ کی مدد سے کی جاسکتی ہے ۔ مگر متعدد فقہا کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضدار ی میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کر لے |
5 | گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے۔ اس کی دوصورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کردوں تو تم مجھے آزاد کر دو، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے۔ دوسرے یہ کہ خود زکوٰۃ کی مدد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہا متفق ہیں لیکن دوسری صورت کو حضرت علیؓ، سعید بن جُبَیر، لَیث، ثَوری، ابراہیم نَخَعی، شَعبی، محمد بن سیرین، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس ، حسن بصری، مالک، احمد اور ابو ثَور جائز قرار دیتے ہیں |
4 | تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہےکہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو ، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مدد گار بن سکتے ہوں ، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استمالت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار ، یا مطیع و فرماں بردار ، یا کم از کم بے ضر ر دشمن بنالیا جائے۔ اس مدد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مدد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔ یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہو گیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مدد ساقط ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جا سکتا ہے مگر کفار کو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃالقلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو۔ حنفیہ کا استدلال اِس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عُیَینَہ بن حِصن اور اَقرَع بن حابِس حضرت ابوبکر ؓ کا پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی ۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیانِ صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہوگئیں۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کر تے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا ۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس شکایت لے کر آئے اور اپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابو بکر ؓ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر ؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداءً مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے با جماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہو گیا۔ امام شافعی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال ِ غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوٰۃ سے۔ ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃالقلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلاشبہہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکوت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مدد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے ۔ حضرت عمرؓ اور صحابۂ کرام کا اجماع حس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسُوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اُس مدد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔ رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مداتِ آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لو گ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس مدد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا۔ ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے |
3 | یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں۔ ایسے لوگ خواہ فقیر و مسکین نہ ہوں ، اُن کی تنخواہیں بہر حال صدقات ہی کی مدد سے دی جائیں گی۔ یہ الفاظ اور اسی سورۃ کی آیت ۱۰۳ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکوت کے فرائض میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان (یعنی بنی ہاشم) پر زکوٰۃ کا مال حرام قرار دیا تھا ، چنانچہ آپ نے خود بھی صدقات کی تحصیل کا کام ہمیشہ بلامعاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلا معاوضہ انجام دیں تو جائز ہے ، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبے کی کوئی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے ۔ آپ کے خاندان کے لوگ اگر صاحب ِ نصاب ہوں تو زکوٰۃ دینا ان پر فرض ہے ، لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوٰۃ لینا ان کے لیے حرام ہے ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوٰۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں۔ امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے |
2 | مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن حالت سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہو جائے تو اس کی مدد زکوۃ کی مدد سے کی جائیگی یہاں بعض فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس شخص کاسفر معصیت کےلیے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے۔ مگر قرآن و حدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے، اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسنِ سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے۔ |
1 | راہ خدا کا لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو، اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوۃ کا مال ہر قسم کے نیک کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حق یہ ہے اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو ہٹانا اور اس کی جگہ نظام اسلامی کو قائم کرتا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو کام کے لیے سواری کے لیے آلات و اسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوۃ سے مدد دی جا سکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضا کارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پراس کام کے لیے دے دیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جاسکتی ہیں۔ یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مدد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمہ کفر کو پست اور کلمہ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظامِ زندگی کی حثییت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں۔ |
Surah 17 : Ayat 26
وَءَاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا
رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق فضول خرچی نہ کرو
Surah 30 : Ayat 38
فَـَٔـاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِۚ ذَٲلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق)1 یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں2
2 | یہ مطلب نہیں ہےکہ فلاح صرف مسکین اورمسافراوررشتہ دارکاحق اداکردینےسےحاصل ہوجاتی ہے،اس کےعلاوہ اورکوئی چیز حصُول فلاح کےلیے درکارنہیں ہے۔بلکہ مطلب یہ ہےکہ انسانوں میں سے جولوگ اِن حقوق کونہیں پہچانتےاورنہیں اداکرتےوہ فلاح پانے والےنہیں ہیں،بلکہ فلاح پانے والےوہ ہیں جوخالص اللہ کی خوشنودی کےلیےیہ حقوق پہچانتے اوراداکرتے ہیں۔ |
1 | یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار،مسکین اورمسافرکوخیرات دے۔ارشادیہ ہُوا ہےکہ یہ اُس کا حق ہےجوتجھےدیناچاہیے،اورحق ہی سمجھ کرتواسےدے۔اس کودیتےہوئےیہ خیال تیرےدل میں نہ آنےپائےکہ یہ کوئی احسان ہےجوتواس پرکررہا ہے،اورتو کوئی بڑی ہستی ہےدان کرنے والی،اوروہ کوئی حقیرمخلوق ہےتیرادیاکھانے والی۔بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرےذہن نشین رہے کہ مال کےمالک حقیقی نے اگرتجھےزیادہ ہےاوردوسرے بندوں کوکم عطا فرمایا ہےتویہ زائد مال اُن دوسروں کاحق ہےجوتیری آزمائش کےلیے تیرےہاتھ میں دے دیاگیا ہےتاکہ تیرامالک دیکھے کہ توان کاحق پہچانتا اورپہنچاتا ہےیانہیں۔اس ارشاد الٰہی اوراس کی اصلی روح پرجوشخص بھی غورکرے گاوہ یہ محسوس کیے بغیرنہیں رہ سکتاکہ قرآن مجید انسان کےلیےاخلاقی وروحانی ارتقاءکاجوراستہ تجویزکرتا ہےاس کےلیےایک آزاد معاشرہ اورآزاد معیشت(Free Economy)کی موجودگی ناگزیرہے۔یہ ارتقاءکسی ایسےاجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کےحقوقِ ملکیت ساقط کردیےجائیں،ریاست تمام ذرائع کی مالک ہوجائے اورافراد کےدرمیان تقسیم رزق کاپوراکاروبارحکومت کی مشینری سنبھال لے،حتٰی کہ نہ کوئی فرد اپنےاوپرکسی کاکوئی حق پہچان کردےسکے،اورنہ کوئی دوسرافردکسی سےکچھ لےکراس کےلیےاپنےدل میں کوئی جذبہ خیرسگالی پرورش کرسکے۔اس طرح کاخالص کمیونسٹ نظامِ تمّدن ومعیشت،جسےآج کل ہمارے ملک میں’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘کےپرفریب نام سےزبردستی قرآن کے سرمنڈھا جارہاہے،قرآن کی اپنی اسکیم کےبالکل خلاف ہے،کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کےنشوونمااورانفرادی سیرتوں کی تشکیل وترقی کادروازہ قطعًابند ہوجاتاہے۔قرآن کی اسکیم تواُسی جگہ چل سکتی ہےجہاں افراد کچھ وسائلِ دولت کےمالک ہوں،اُن پرآزادانہ تصّرف کےاختیارات رکھتےہوں،اورپھراپنی رضاورغبت سےخدااوراس کےبندوں کےحقوق اخلاص کےساتھ اداکریں۔اِسی قسم کےمعاشرےمیں یہ امکان پیداہوتا ہےکہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی،رحم وشفقت،ایثاروقربانی اورحق شناسی وادائے حقوق کےاعلٰی اوصاف پیداہوں،اوردوسری طرف جن لوگوں کےساتھ بھلائی کی جائےان کےدلوں میں بھلائی کرنےوالوں کےلیےخیرخواہی،احسان مندی،اورجزاءالاحسان بالاحسان کےپاکیزہ جذبات نشوونماپائیں،یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیداہوجائےجس میں بدی کارُکنااورنیکی کافروغ پاناکسی قوتِ جابرہ کی مداخلت پرموقوف نہ ہو،بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگئ نفس اوران کےاپنےنیک ارادےاس ذمہ داری کوسنبھال لیں۔ |
Surah 59 : Ayat 7
مَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ كَىْ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيْنَ ٱلْأَغْنِيَآءِ مِنكُمْۚ وَمَآ ءَاتَـٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَـٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُواْۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے1 ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے2 جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے3
3 | سلسلہ بیان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموالِ بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ عدلیہ و سلم جو فیصلہ فرمائیں اسے بے چوں و چرا تسلیم کر لو، جو کچھ حضورﷺ کسی کو دیں وہ اسے لے لے، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ صرف اموالِ فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی اطاعت کریں۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کر دیتی ہے کہ ‘جو کچھ رسول تمہیں دے ‘ کے مقابلہ میں ‘جو کچھ نہ دے ‘ کے الفاظ استعمال نہیں فرماۓ گۓ ہیں، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ ‘جس چیز سے وہ تمہیں روک دے (یا منع کر دے ) اس سے رک جاؤ‘۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو ‘جو کچھ دے ‘ کے مقابلہ میں ‘ جو کچھ نہ دے ‘ فرمایا جاتا۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضورﷺ کے امر و نہی کی اطاعت ہے۔ یہی بات ہے جو خود رسولﷺ نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم ومانھیتم عنہ فاتنبوہ ‘جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو۔‘ (بخاری۔مسلم)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوۓ کہا ‘ اللہ تعالٰی نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ‘ اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں اخذ کی ہے؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے مل جاتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآاٰتکُمُ الرَّسُولُ فخذوہُ ومَانھٰکم عنہ فانتھوا؟ اس نے عرض کیا، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی۔ (بخاری۔مسلمسنداحمد سُند ابن ابی حاتم) |
2 | یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان ہی کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اِسی مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے، زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، اموالِ غنیمت میں خُمس نکالنے کا حکم دیا گیا، صدقاتِ نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، مختلف قسم کے کَفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رُخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جاۓ، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع، دائرے میں پھیل جاۓ، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ہی انہیں ادا کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لیے صرف کیا جاۓ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدّات دو ہیں۔ ایک زکوٰۃ، دوسرے فَے۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو پورے زائد از نصاب سرماۓ، مواشی، اموالِ تجارت اور زرعی پیداوار سے وصول کی جاتی ہے اور وہ زیادہ تر غریبوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ اور فَے میں جزیہ و خراج سیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوں، اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ یہ کھلا ہوا اشارہ اس طرف ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمدنی و خرچ کا نظام، اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پاے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے |
1 | پچھلی آیت میںصرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں۔ ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے۔ اس حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضورؐ اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر خرچ فرماۓ تھے (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ)۔ حضورﷺ کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہو گیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا۔ امام شافعیؒ سے یہ راۓ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ِ خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب ِ امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصبِ رسالت کی بنا پر۔ مگر فقہاۓ شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے، اور ان سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب۔ یہ حصہ اِس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول ﷺ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گۓ، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر بن عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے (یتامیٰ، مساکین و ابن السبیل) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باِر کا قول نقل کیا ہے کہ اگر چہ حضرت علیؓ کی ذاتی راۓ وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی راۓ تھی (کہ یہ حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی راۓ کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد ان دونوں حصوں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے ) کے متعلق اختلاف راۓ تھی کہ دوسرا حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہۓ۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہۓ۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہو گیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں۔عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضورﷺ کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہاۓ حنفیہ کی راۓ یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفاۓ راشدین کے زمانہ میں جاری تھا (کتاب الخراج 11،بی یوسف، صفحہ 9تا21) امام شافعی ؒ کی راۓ یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطّلی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر، دونوں طرح کے اشخاص کو نَے میں سے مال دیا جا سکتا ہے۔ (مغنی المحتاج)۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جا سکتی ہے، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے۔ (روح المعانی)۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے۔ مگر اَدنیٰ یہ ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مقدم رکھے۔ (حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر)۔ باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پان برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورۂ بالا مصارف پر اس طرح صرف کیا جانا چاہیے کہ اس کا 5/1مصالح مسلمین پر، 5/1 بنی ہاشم و بنی المطلب پر، 5/1 مساکین پر اور 5/1 مسافروں پر صرف کیا جائے۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں، اور ان کی راۓ یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے۔ (مغنی المحتاج) |