Ayats Found (10)
Surah 6 : Ayat 135
قُلْ يَـٰقَوْمِ ٱعْمَلُواْ عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّى عَامِلٌۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُۥ عَـٰقِبَةُ ٱلدَّارِۗ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
اے محمدؐ! کہہ دو کہ لوگو! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو اور میں بھی اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں1، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام کار کس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، بہر حال یہ حقیقت ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے
1 | یعنی اگر میرے سمجھانے سے تم نہیں سمجھے اور اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو جس راہ پر تم چل رہے ہو چلے جاؤ، اور مجھے اپنی راہ چلنے کے لیے چھوڑ دو، انجام کار جو کچھ ہوگا وہ تمہارے سامنے بھی آجائے گا اور میرے سامنے بھی |
Surah 10 : Ayat 41
وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّى عَمَلِى وَلَكُمْ عَمَلُكُمْۖ أَنتُم بَرِيٓــُٔونَ مِمَّآ أَعْمَلُ وَأَنَا۟ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ
اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ “میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بَری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں1"
1 | یعنی خواہ مخواہ جھگڑے اور کج بحثیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر میں افترا پردازی کر رہا ہوں تو اپنے عمل کا میں خود ذمہ دار ہوں تم پراس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اور اگر تم سچی بات کو جھٹلا رہے ہو تو میرا کچھ نہیں بگاڑتے، اپنا ہی کچھ بگاڑ رہے ہو۔ |
Surah 11 : Ayat 121
وَقُل لِّلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ٱعْمَلُواْ عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَـٰمِلُونَ
رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے، تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کام کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جاتے ہیں
Surah 11 : Ayat 122
وَٱنتَظِرُوٓاْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ
انجام کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں
Surah 17 : Ayat 84
قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِۦ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلاً
اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ "ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے"
Surah 39 : Ayat 39
قُلْ يَـٰقَوْمِ ٱعْمَلُواْ عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّى عَـٰمِلٌۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
ان سے صاف کہو کہ 1"اے میری قوم کے لوگو، تم اپنی جگہ اپنا کام کیے جاؤ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا
1 | یعنی مجھے زک دینے کے لیے جو کچھ تم کر رہے ہو اور کر سکتے ہو وہ کیے جاؤ، اپنی کرنی میں کوئی کسر نہ اّٹھا رکھو |
Surah 39 : Ayat 40
مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ
کہ کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں"
Surah 42 : Ayat 15
فَلِذَٲلِكَ فَٱدْعُۖ وَٱسْتَقِمْ كَمَآ أُمِرْتَۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْۖ وَقُلْ ءَامَنتُ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِن كِتَـٰبٍۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُۖ ٱللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْۖ لَنَآ أَعْمَـٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَـٰلُكُمْۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُۖ ٱللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَاۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ
چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے اے محمدؐ، اب تم اُسی دین کی طرف دعوت دو، اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اُس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور اِن لوگو ں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو1، اور اِن سے کہہ دو کہ: 2"اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اُس پر ایمان لایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں3 اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے4 ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں5 اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اُسی کی طرف سب کو جانا ہے"
5 | یعنی معقول دلائل سے بات سمجھانے کا جو حق تھا وہ ہم نے ادا کر دیا اب خواہ مخواہ تو تو میں میں کرنے سے کیا حاصل۔ تم اگر جھگڑا کرو بھی تو ہم تم سے جھگڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں |
4 | یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار و جوابدہ ہے۔ تم اگر نیکی کرو گے تو اس کا پھل ہمیں نہیں پہنچ جاۓ گا، بلکہ تم ہی اس سے متمتّع ہو گے۔ اور ہم اگر برائی کریں گے تو اس کی پاداش میں تم نہیں پکڑے جاؤ گے ، بلکہ ہمیں خود ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات سورہ بقرہ ، آیت 139، سورہ یونس، آیت 41 ، سورہ ہود، آیت 35، اور سورہ قصص ، آیت 55 میں اس سے پہلے ارشاد ہو چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، ص 117، جلد دوم یونس حاشیہ ۴۹ ہود حاشیہ ۱۳۹ القصص حاشیہ ۷۷ |
3 | اس جامع فقرے کے کئی مطلب ہیں : ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب بروں۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے ، اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے میں اس کا ساتھی ہوں ، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں ، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے ، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر ، بڑے اور چھوٹے ، غریب اور امیر ، شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے ، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے ، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے ، اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی ذات کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں ، اور ان نے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کر دوں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا ، اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں ،تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے |
2 | بالفاظ دیگر، میں ان تفرقہ پرواز لوگوں کی طرح نہیں ہوں جو خدا کی بھیجی ہوئی بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جسے خدا نے بھیجا ہے |
1 | یعنی انکو راضی کرنے کے لیے اس دین کے اندر کوئی رد و بدل اور کمی بیشی نہ کرو۔ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ان گمراہ لوگوں سے کوئی مصالحت نہ کرو۔ ان کے اوہام اور تعصبات اور جاہلانہ طور طریقوں کے لیے دین میں کوئی گنجائش محض اس لالچ میں آ کر نہ نکالو کہ کسی نہ کسی طرح یہ دائرہ اسلام میں آ جائیں۔ جس کو ماننا ہے خدا کے اصلی اور خالص دین کو جیسا کہ اس نے بھیجا ہے سیدھی طرح مان لے ورنہ جس جہنم میں جا کر گرنا چاہے گر جاۓ۔ خدا کا دین لوگوں کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا۔ لوگ اگر اپنی فلاح چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ کو بدل کر اس کے مطابق بنائیں |
Surah 109 : Ayat 4
وَلَآ أَنَا۟ عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ
اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے
Surah 109 : Ayat 6
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِىَ دِينِ
تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین1
1 | یعنی میرا دین الگ ہے اور تمہارا دین الگ۔ میں تمہارے معبودوں کا پرستار نہیں اور تم میریے معبود کے پرستار نہیں۔ میں تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کر سکتا اور تم میرے معبود کی بندگی کے لیے تیار نہیں ہو۔ اس لیے میرا اور تمہارا راستہ کبھی ایک نہیں ہو سکتا۔ یہ کفار کو رواداری کا پیغام نہیں ہے، بلکہ جب تک وہ کافر ہیں ان سے ہمیشہ کے لیے براءت ، بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان ہے، اور اس سے مقصود ان کو اس امر سے قطعی اور آخری طور پر مایوس کر دینا ہے کہ دین کے معاملہ میں اللہ کا رسول، اور اس پر ایمان لانے والوں کا گروہ کبھی ان سے کوئی مصالحت کرے گا۔ یہی اعلانِ براءت اور اظہارِ بیزاری اس سورۃ کے بعد نازل ہونے والی مکی سورتوں میں پے درپے کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ یونس میں فرمایا ’’اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہار عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں‘‘ (آیت 4)۔ پھر آگے چل کر اس سورہ میں فرمایا: ’’اے نبی کہہ دو کہ لوگو، اگر تم میرے دین کے متعلق (ابھی تک) کسی شبہ میں ہو تو (سن لو کہ) اللہ کے سوا تم جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اس خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے اختیار میں تمہاری موت ہے‘‘۔ (آیت 104) ۔ سورۃ شعراء میں فرمایا ’’اے نبی، اب اگر یہ لوگ تمہاری بات نہیں مانتے تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں ‘‘۔ (آیت 216)۔ سورہ سبا میں فرمایا ’’ ان سے کہو جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی باز پرس تم سے نہ ہو گی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جا ئے گی۔ کہو، ہمارا رب (ایک وقت ہمیں اور تمہیں جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا‘‘ (آیات 25۔26) سورہ زمر میں فرمایا ’’ان سے کہو، اے میری قوم کے لوگو، تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ میں اپنا کام کرتا رہوں گا۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر سوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو ٹلنے والی نہیں‘‘(39۔40)۔ پھر یہی سبق مدینہ طیبہ میں تمام مسلمانوں کو دیا گیا کہ ’’تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے ا ور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ‘‘ (الممتحنہ 4) قرآن مجید کی ان پے درپے توضیحات سے اس شبہ کی گنجائش تک نہیں رہتی کہ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔ ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو اور مجھے اپنے دین پر چلنے دو۔ بلکہ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی سورہ زمر میں فرمائی گئی ہے ’’اے نبی، ان سے کہو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا، تم اسے چھوڑ کر جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو‘‘۔ (آیت 14)۔ اس آیت سے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے یہ ا ستدلال کیا ہے کہ کافروں کے مذاہب خواہ باہم کتنے ہی مختلف ہوں لیکن کفر بحیثیت مجموعی ایک ہی ملت ہے، اس لیے یہودی عیسائی کا،اورعیسائی یہودی کا، اور اسی طرح ایک مذہب کا کافر دوسرے مذہب کے کافر کا وارث ہو سکتا ہے اگر ان کے درمیان نسب، یا نکاح یا کسی سبب کی بنا پر کوئی ایسا تعلق ہو جو ایک کی وراثت دوسرے کو پہنچنے کا مقتضی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام اوزاعی اور امام احمد اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیرو کی وراثت نہیں پا سکتے۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یتوارث اھل ملّتین شتّٰی۔ ‘‘’’دو مختلف ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے‘‘(مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، دارقطنی)۔ اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک حدیث ترمذی نے حضرت جابرؓ سے اور ابن حبان نے حضرت عبداللہ بن عمر سے اور بزار نے حضرت ابو ہریرہؓ سے نقل کی ہے۔ اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے مسلک حنفی کے مشہور اما شمس الائمہ سرحسی لکھتے ہیں ’’کفار آس میں ان سب اساب کی بنا پر بھی ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں جن کی بنا پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان بعض ایسی صورتوں میں بھی توارث ہو سکتا ہے جن میں مسلمانوں کے درمیان نہیں ہو تا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بس دو ہی دین قرار دیے ہیں، ایک دین حق ، دوسرے دین باطل چنانچہ فرمایا لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔ ‘‘اور اس نے لوگوں کے دو ہی فریق رکھے ہیں، ایک فریق جنتی ہے اور وہ مومن ہے اور دوسرا فریق دوزخی ہے اور وہ بحیثیت مجموعی تمام کفار ہیں۔ اور اس نے دو ہی گروہوں کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا ھِذَا نِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ‘‘ (یہ دو مد مقابل فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ الحج آیت 19) یعنی ایک فریق تمام کفار بحیثیت مجموعی ہیں اور ان کا جھگڑا اہل ایمان سے ہیں۔۔۔ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق باہم الگ الگ ملتیں ہیں، بلکہ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ سب ایک ہی ملت ہیں، کیونکہ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور قرآن کا اقرار کرتے ہیں اور وہ ان کا انکارکرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ کافر قرار پائے ہیں اور مسلمانوں کے معاملہ میں وہ سب ایک ملت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حدیث لا یتوارث اھل ملّتین ‘‘اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، کیونکہ ملتین (دو ملتوں) کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس ارشاد سے کر دی ہے کہ لا یرث المسلم الکافر و لا الکافر المسلم۔ ‘‘مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے‘‘۔ (المبسوط ، ج ۔3 ، صفحات 30۔32) امام سرخسی نے یہاں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے بخاری ، مسلم، نسائی، احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے حضرت اسامہؓ بن زید سے روایت کیا ہے |