Ayats Found (9)
Surah 6 : Ayat 97
وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلنُّجُومَ لِتَهْتَدُواْ بِهَا فِى ظُلُمَـٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں1
1 | یعنی اِس حقیقت کی نشانیاں کہ خدا صرف ایک ہے، کوئی دُوسرا نہ خدائی کی صفات رکھتا ہے، نہ خدائی کے اختیارات میں حصّہ دار ہے، اور نہ خدائی کے حقوق میں سے کسی حق کا مستحق ہے۔ مگر ان نشانیوں اور علامتوں سے حقیقت تک پہنچنا جاہلوں کے بس کی بات نہیں، اس دولت سے بہرہ ور صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو علمی طریق پر آثارِ کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں |
Surah 10 : Ayat 5
هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ ٱلشَّمْسَ ضِيَآءً وَٱلْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُۥ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ ٱلسِّنِينَ وَٱلْحِسَابَۚ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ ذَٲلِكَ إِلَّا بِٱلْحَقِّۚ يُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
وہی ہے جس نے سُورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو اللہ نے یہ سب کچھ (کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) با مقصد ہی بنایا ہے وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں
Surah 21 : Ayat 33
وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَۖ كُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں1
1 | کُلٌّ اور یَسْبَحُوْنَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ مراد صرف سورج اور چاند ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے اَجرام فلکی، یعنی تارے بھی مراد ہیں ، ورنہ جمع کے بجاۓ تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا۔ فَلَکِ جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے ، عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے ۔ ’’ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ‘‘ سے دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سب تارے ایک ہی ’’فلک‘‘ میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے ۔ دوسرے یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوۓ ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوۓ گھوم رہا ہو، بلکہ وہ کوئی سیال شے ہے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابہت رکھتی ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، یٰسین، حاشیہ 37 )۔ قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان و زمین کے رتق و فتق ، اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیدا کیے جانے ، اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا، موجودہ زمانے میں طبعیات (Physics) ، حیاتیات ، (Biology) اور علم ہیئت (Astronomy) کی جدید معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کردیا ہے ، اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی۔ بہر حال موجودہ زمانے کا انسان ان تینوں آیات کو بالکل اپنی جدید ترین معلومات کے مطابق پاتا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ : وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض ِ سے لے کر کَذٰلِکَ نَجْزِ ی الظّٰلِمِیْنَ تک کی تقریر شرک کی تردید میں ہے ، اور اَوَلَمْ یَرَ ا لَّذِیْنَ کَفَرُوْ سے لے کر فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ تک جو کچھ فرمایا گیا ہے اس میں توحید کے لیے ایجابی (Positive) دلائل دیے گئے ہیں ۔ مدّعا یہ ہے کہ یہ نظام کائنات جو تمہارے سامنے ہے ، کیا اس میں کہیں ایک اللہ رب العالمیں کے سوا کسی اور کی بھی کوئی کاریگری تمہیں نظر آتی ہے ؟ کیا یہ نظام ایک سے زیادہ خداؤں کی کار فرمائی میں بن سکتا تھا اور اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا تھا؟ کیا اس حکیمانہ نظام کے متعلق کوئی صاحب عقل و خرد آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ ایک کھلنڈرے کا کھیل ہے اور اس نے محض تفریح کے لیے چند گڑیاں بنائی ہیں جن سے کچھ مدت کھیل کر بس وہ یونہی ان کو خاک میں ملا دے گا؟ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور پھر بھی نبی کی بات ماننے سے انکار کیے جاتے ہو؟ تم کو نظر نہیں آتا زمین و آسمان کی ایک ایک چیز اس نظریہ توحید کی شہادت دے رہی ہے جو یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟ ان نشانیوں کے ہوتے تم کہتے ہوکہ : فَلْمَاْ تِنَا بِاٰ یۃ، ’’ یہ نبی کی کوئی نشانی لے کر آئے ‘‘ کیا نبی کی دعوت توحید کے حق ہونے پر گواہی دینے کے لیے یہ نشانیاں کافی نہیں ہیں |
Surah 36 : Ayat 37
وَءَايَةٌ لَّهُمُ ٱلَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ ٱلنَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ
اِن کے لیے ایک اور نشانی رات ہے، ہم اُس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو اِن پر اندھیرا چھا جاتا ہے1
1 | رات اور دن کی آمد و رفت بھی انہی پیش پا افتادہ حقائق میں سے ہے جنہیں انسان محض اس بنا پر کہ وہ معمولاً دنیا میں پیش آ رہے ہیں، کسی التفات کا مستحق نہیں سمجھتا۔ حالانکہ اگر وہ اس بات پر غور کرے کہ دن کیسے گزرتا ہے اور رات کس طرح آتی ہے،اور دن کے جانے اور رات کے آنے میں کی حکمتیں کار فرما ہیں تو اسے خود محسوس ہو جائے کہ یہ ایک ربّ قدیر و حکیم کے وجود اور اس کی یکتائی کی روشن دلیل ہے۔دن کبھی نہیں جا سکتا اور رات کبھی نہیں آ سکتی جب تک زمین کے سامنے سے سورج نہ ہٹے۔دن کے ہٹنے اور رات کے آنے میں جو انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ سورج اور زمین کو ایک ہی اٹل ضابطہ نے جکڑ رکھا ہو۔ پھر اس رات اور دن کی آمد و رفت کا جو گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ کسی نے یہ نظام کمال درجے کی دانائی کے ساتھ بالا ارادہ قائم کیا ہے۔زمین پر انسان اور حیوان اور نباتات کا وجود، بلکہ یہاں پانی اور ہوا اور مختلف معدنیات کا وجود بھی دراصل نتیجہ ہے اس بات کا کہ زمین کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے، اور پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ زمین کے مختلف حصے تسلسل کے ساتھ مقرر وقفوں کے بعد سورج کے سامنے آتے اور اس کے سامنے سے ہٹتے رہیں۔ اگر زمین کا فاصلہ سورج سے بہت کم یا بہت زیادہ ہوتا، یا اس کے ایک حصہ پر ہمیشہ رات رہتی اور دوسرے حصہ پر ہمیشہ دن رہتا، یا شب و روز کا الٹ پھیر بہت تیز یا بہت سست ہوتا، یا بے قاعدگی کے ساتھ اچانک کبھی دن نکل آتا اور کبھی رات چھا جاتی، تو ان تمام صورتوں میں اس کُرے پر کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی، بلکہ غیر زندہ مادوں کی شکل و ہئیت بھی موجودہ شکل سے بہت مختلف ہوتی۔ دل کی آنکھیں بند نہ ہوں تو آدمی اس نظام کے اندر ایک ایسے خدا کی کارفرمائی صاف دیکھ سکتا ہے جس نے اس زمین پر اس خاص قسم کی مخلوقات کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور ٹھیک ٹھیک اس کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کے درمیان یہ نسبتیں قائم کیں۔ خدا کا وجود اور اس کی توحید اگر کسی شخص کے نزدیک بعید ازعقل ہے تو وہ خود ہی سوچ کر بتائے کہ اس کاریگری کو بہت سے خداؤں کی طرف منسوب کرنا، یا یہ سمجھنا کہ کسی اندھے بہرے قانون فطرت کے تحت یہ سب کچھ آپ ہی آپ پیدا ہو گیا ہے،کس قدرعقل سے بعید ہونا چاہئے۔کسی ثبوت کے بغیر محض قیاس و گمان کی بنیاد پر جو شخص یہ دوسری سراسر نامعقول توجیہات مان سکتا ہے وہ جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں نظم اور حکمت اور مقصدیت کا پایا جانا خدا کے ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے تو ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ شخص کسی نظریے یا عقیدے کو قبول کرنے کے لیے کسی درجے میں بھی، کافی یا نا کافی، عقلی ثبوت کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 40
لَا ٱلشَّمْسُ يَنۢبَغِى لَهَآ أَن تُدْرِكَ ٱلْقَمَرَ وَلَا ٱلَّيْلُ سَابِقُ ٱلنَّهَارِۚ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے1 اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے 2سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں3
3 | فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار (Orbit) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء(آسمان ) کے مفہوم سے مختلف ہے۔یہ ارشاد کہ‘سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔‘ چار حقیقتوں کی نشان دہی کرتا ہے ۔ایک یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند، بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک،یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے ۔ تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کر رہے ہیں بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں۔ اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہو رہی ہے کہ جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو۔ ان آیات کا اصل مقصد علم ہئیت کے حقائق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے خدا کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بے حد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی۔ ہماری یہ زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز، سورج زمین سے 3 لاکھ گنا بڑا ہے،اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم 2 ارب 79 کروڑ 30 لاکھ میل ہے۔بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے 4 ارب 60 کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے۔اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔جس کہکشاں (Galaxy) میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً 3 ہزار ملین (3 ارب) آفتاب پائے جاتے ہیں، اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں 4 سال صرف ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے،بلکہ اب تک کے مشاہد ات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً 20 لاکھ لولبی سحابیوں (Spiral nebulae)میں سے ایک ہے،اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی 10 لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔رہے بعید ترین اجرام فلکی جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں 10 کروڑ سال لگ جاتے ہیں۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے۔یہ خدا کی خدائی کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے جواب تک انسانی مشاہدے میں آیا ہے ۔ آگے نہیں کہا جا سکتا کہ مزید ذرائع مشاہدہ فراہم ہونے پر اور کتنی وسعتیں انسان پر منکشف ہوں گی۔ تمام معلومات جو اس وقت تک کائنات کے متعلق بہم پہنچی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پورا عالم اسی مادے سے بنا ہوا ہے جس سے ہماری یہ چھوٹی سی ارضی دنیا بنی ہے اور اس کے اندر وہی ایک قانون کام کر رہا ہے جو ہماری زمین کی دنیا میں کار فرما ہے،ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ہم اس زمین پر بیٹھے ہوئے اتنی دور دراز دنیاؤں کے مشاہدے کرتے اور ان کے فاصلے ناپتے اور ان کی حرکات کے حساب لگاتے ۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ ساری کائنات ایک ہی خدا کی تخلیق اور ایک ہی فرمانروا کی سلطنت ہے؟ پھر جو نظم، جو حکمت، جو صنّاعی اور جو مناسبت ان لاکھوں کہکشانوں اور ان کے اندر گھومنے والے اربوں تاروں میں پائی جاتی ہے اس کو دیکھ کر کیا کوئی صاحب عقل انسان یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو گیا ہے؟ اس نظم کے پیچھے کوئی حکیم، اس صنعت کے پیچھے کوئی صانع، اور اس مناسبت کے پیچھے کوئی منصوبہ ساز نہیں ہے۔ |
2 | یعنی ایسا بھی کبھی نہیں ہوتا کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے رات آ جائے اور جو اوقات دن کی روشنی کے لیے مقرر ہیں ان میں وہ اپنی تاریکیاں لیے ہوئے یکایک آ موجود ہو |
1 | اس فقرے کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ سورج میں یہ طاقت نہیں ہے کہ چاند کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لے،یا خود اس کے مدار میں داخل ہو کر اس سے جا ٹکرائے۔ دوسرا یہ کہ جو اوقات چاند کے طلوع و ظہور کے لیے مقرر کر دئیے گئے ہیں ان میں سورج کبھی نہیں آ سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور یکایک سورج افق پر آجائے۔ |
Surah 41 : Ayat 37
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِ ٱلَّيْلُ وَٱلنَّهَارُ وَٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُۚ لَا تَسْجُدُواْ لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَٱسْجُدُواْ لِلَّهِ ٱلَّذِى خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند1 سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اُسی کی عبادت کرنے والے ہو2
2 | یہ جواب ہے اس فلسفے کا جو شرک کو معقول ثابت کرنے کے لیے کچھ زیادہ ذہین قسم کے مشرکین عموماً بگھارا کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہ خود اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے |
1 | یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوۓ ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی او اس کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیاء علیہم السلام جس توحید خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امر واقعی ہے۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہر نہیں ہے، بلکہ دونوں ہی مجبور و لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوۓ گردش کر رہے ہیں |
Surah 55 : Ayat 5
ٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ
سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں1
1 | یعنی ایک زبردست قانون اور ایک اٹل ضابطہ ہے جس سے یہ عظیم الشان سیارے بندھے ہوۓ ہیں۔ انسان وقت اور دن اور تاریخوں اور فصلوں اور موسموں کا حساب اسی وجہ سے کر رہا ہے کہ سورج کے طلوع و غروب اور مختلف منزلوں سے اس کے گزرنے کا جو قاعدہ مقرر کر دیا گیا ہے اس میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوتا۔ زمین پر بے حد و حساب مخلوق زندہ ہی اس وجہ سے ہے کہ سورج اور چاند کو ٹھیک ٹھیک حساب کر کے زمین سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے اور اس فاصلے میں کمی و بیشی صحیح ناپ تول سے ایک خاص ترتیب کے ساتھ ہوتی ہے۔ ورنہ زمین سے ان کا فاصلہ کسی حساب کے بغیر بڑھ یا گھٹ جاۓ تو یہاں کسی کا جینا ہی ممکن نہ رہے۔ اسی طرح زمین کے گرد چاند اور سورج کے درمیان حرکات میں ایسا مکمل تناسب قائم کیا گیا ہے کہ چاند ایک عالمگیر جنتری بن کر رہ گیا ہے جو پوری باقاعدگی کے ساتھ ہر رات ساری دنیا کو قمری تاریخ بتا دیتی ہے |
Surah 71 : Ayat 16
وَجَعَلَ ٱلْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ ٱلشَّمْسَ سِرَاجًا
اور اُن میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟
Surah 78 : Ayat 13
وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا
اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا1
1 | مراد ہے سورج۔ اصل میں لفظ وھاج استعمال ہوا ہے جس کے معنی نہایت گرم کے بھی ہیں اور نہایت روشن کے بھی، جس عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا قطر زمین کے قطر سے 109 گناہ اور اس کا حجم زمین کے حجم سے 3 لاکھ 33 ہزار گناہ زیادہ بڑا ہے۔ اس کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ زمین سے 9 کروڑ 30 لاکھ میل دور ہونے کے باوجود اس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے، اور اس کی گرمی کا حال یہ ہے کہ زمین کے بعض حصوں میں اس کی تپش کی وجہ سے درجہ حرارت 140 ڈگری فاہرن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ اللہ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اس سے ٹھیک ایسے فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اس سے بہت قریب ہونے کے باعث یہ بے انتہا گرم ہے اور نہ بہت دور ہونے کی باعث بے انتہا سرد، اسی وجہ سے یہاں انسان، حیوان اور نباتات کی زندگی ممکن ہوئی ہے۔ اسی سے قوت کے بے حساب خزانے نکل کر زمین پر پہنچ رہے ہیں جو ہمارے لیے سبب حیات بنے ہوئے ہیں۔ اسی سے ہماری فصلیں پک رہی ہیں اور ہر مخلوق کو غذا بہم پہنچ رہی ہے۔ اسی کی حرارت سمندروں کے پانی کو گرم کر کے وہ بھاپیں اٹھاتی ہیں جو ہواؤں کے ذریعہ سے زمین کے مختلف حصوں پر پھیلتی اور بارش کی شکل میں برستی ہیں۔ اس سورج میں اللہ نے ایسی زبردست بھٹی سلگا رکھی ہے جو اربوں سال سے روشنی حرات اور مختلف اقسام کی شعاعیں سارے نظامِ شمسی میں پھینکے چلی جا رہی ہے |