Ayats Found (8)
Surah 13 : Ayat 6
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِٱلسَّيِّئَةِ قَبْلَ ٱلْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ ٱلْمَثُلَـٰتُۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں1 حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے
1 | کفار ِ مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اگر تم واقعی نبی ہو اور تم دیکھ رہے ہو کہ ہم نے تم کو جھٹلا دیا ہے تو اب آخر ہم پر وہ عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہم کو دھمکیاں دیتے ہو؟ اس کی آنے میں خواہ مخواہ دیر کیوں لگ رہی ہے؟ کبھی وہ چیلنج کے انداز میں کہتے کہ رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ (خدایا ہمارا حساب تو ابھی کردے، قیامت پر نہ اٹھا رکھ)۔ اور کبھی کہتے کہ اَلَّھُمّے اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِ کَ فَاَ مْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَ ۃً مِّنَ السَّمَآ ءِ اَوِأْ تِنَا بِعَذَ ابٍ اَلِیْمٍ۔(خدایا اگر یہ باتیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں حق ہیں اور تیری ہی طرف سے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی دردناک عذاب نازل کر دے)۔ اس آیت میں کفار انہی باتوں کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ نادان خیر سے پہلے شر مانگتے ہیں ، اللہ کی طرف ان کو سنبھلنے کے لیے جو مہلت دی جارہی ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مہلت کو جلدی ختم کر دیا جائے اور ان کی باغیانہ روش پر فورًا گرفت کر ڈالی جائے |
Surah 15 : Ayat 49
۞ نَبِّئْ عِبَادِىٓ أَنِّىٓ أَنَا ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
اے نبیؐ، میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں
Surah 39 : Ayat 53
۞ قُلْ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُواْ مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو1، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے2
2 | یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے، صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے، عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالٰی بغیر توبہ و انابت کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالٰی نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کو صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کر لینا ہے۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام اُمید لے کر آئی تھی جو جاہلیّت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے۔اُن سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابن زیدؒ نے بیان کی ہے (ابن جریر، بخاری،مسلم، ابو داؤد، ترمذی)۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص 466 تا 468 |
1 | بعض لوگوں نے ان الفاظ کی یہ عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خود ’’اے میرے بند‘‘ کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بندے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف اور اللہ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیے۔جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سُن کر جھوم اُٹھے گا، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہوا جاتا ہے، کیونکہ قرآن تو ازاوّل تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالٰی کا بندہ قرار دیتا ہے، اور اسکی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود بندے تھے۔ ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا۔اور اس لیے بھیجا تھا کہ خود بھی اُسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے سما سکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے یکایک یہ اعلان کر دیا ہو گا کہ تم عبدالعزّیٰ اور عبد شمس کے بجائے دراصل عبدِ محمدؐ ہو، اعا ذ نا اللہ من ذالک۔ |
Surah 40 : Ayat 3
غَافِرِ ٱلذَّنۢبِ وَقَابِلِ ٱلتَّوْبِ شَدِيدِ ٱلْعِقَابِ ذِى ٱلطَّوْلِۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ إِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ
گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے1
1 | یہ تقریر کی تمہید ہے جس کے ذریعہ سے سامعین کو پہلے ہی خبردار کر دیا گیا ہے کہ یہ کلام جو اُن کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کسی معمولی ہستی کا کلام نہیں ہے، بلکہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔پھر پے در پے اللہ تعالٰی کی چند صفات بیان کی گئی ہیں جو آگے کے مضمون سے گہری مناسبت رکھتی ہیں : اوّل یہ کہ وہ’’زبردست‘‘ ہے، یعنی سب پر غالب ہے۔ اس کا جو فیصلہ بھی کسی کے حق میں ہو، نافذ ہو کر رہتا ہے، کوئی اس سے لڑ کر جیت نہیں سکتا، نہ اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے فرمان سے منہ موڑ کر اگر کوئی شخص کامیابی کی توقع رکھتا ہو، اور اس کے رسول سے جھگڑا کر کے یہ امید رکھتا ہو کہ وہ اسے نیچا دکھا دے گا، تو یہ اس کی اپنی حماقت ہے۔ ایسی توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے صفت یہ کہ وہ ’’سب کچھ جاننے والا‘‘ ہے۔ یعنی وہ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی بات نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کا براہ راست علم رکھتا ہے، اس لیے ماورائے حسّ و ادراک حقیقتوں کے متعلق جو معلومات وہ دے رہا ہے، صرف وہی صحیح ہو سکتی ہیں،اور ان کو نہ ماننے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خواہ مخواہ جہالت کی پیروی کرے۔ اسی طرح وہ جانتا ہے کہ انسان کی فلاح کس چیز میں ہے اور کون سے اصول و قوانین اور احکام اس کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی ہر تعلیم حکمت اور علم صحیح پر مبنی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اُس کی ہدایات کو قبول نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود اپنی تباہی کے راستے پر جانا چاہتا ہے۔ پھر انسانوں کی حرکات و سکنات میں سے کوئی چیز اُس سے چھپی نہیں رہ سکتی، حتّیٰٰ کہ وہ ان نیتوں اور ارادوں تک کو جانتا ہے۔ جو انسانی افعال کے اصل محرک ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان کسی بہانے اس کی سزا سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ تیسری صفت یہ کہ وہ ’’گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘۔ یہ امید اور ترغیب دلانے والی صفت ہے جو اس غرض سے بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں وہ مایوس نہ ہوں، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظر ثانی کریں کہ اگر اب بھی وہ اس روش سے باز آ جائیں تو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتے ہیں۔ اس جگہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ گناہ معاف کرنا اور توبہ قبول کرنا لازماً ایک ہی چیز کے دو عنوان نہیں ہیں، بلکہ بسا اوقات توبہ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں گناہوں کی معافی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک شخص خطائیں بھی کرتا رہتا ہے اور نیکیاں بھی، اور اس کی نیکیاں اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، خواہ اُسے ان خطاؤں پر توبہ و استغفار کرنے کا موقع نہ ملا ہو، بلکہ وہ انہیں بھول بھی چکا ہو۔ اسی طرح ایک شخص پر دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں اور مصیبتیں اور بیماریاں اور طرح طرح کی رنج و غم پہنچانے والی آفات آتے ہیں، وہ سب اس کی خطاؤں کا بدل بن جاتی ہیں۔ اسی بنا پر گناہوں کی معافی کا ذکر توبہ قبول کرنے سے الگ کیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ توبہ کے بغیر خطا بخشی کی یہ رعایت صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور اہل ایمان میں بھی صرف اُن کے لیے جو سرکشی و بغاوت کے ہر جذبے سے خالی ہوں اور جن سے گناہوں کا صدور بشری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہو نہ کہ استکبار اور معصیت پر اصرار کی بنا پر۔ چوتھی صفت یہ کہ وہ ’’سخت سزا دینے والا‘‘ ہے۔ اس صفت کا ذکر کر کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالٰی جتنا رحیم ہے، بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے اتنا ہی سخت ہے۔جب کوئی شخص یا گروہ اُن تمام حدوں سے گزر جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے درگزر اور اس کی خطا بخشی کا مستحق ہو سکتا ہے، تو پھر وہ اس کی سزا کا مستحق بنتا ہے، اور اس کی سزا ایسی ہولناک ہے کہ صرف ایک احمق انسان ہی اُس کو قابل برداشت سمجھ سکتا ہے۔ پانچویں صفت یہ کہ وہ ’’صاحب فضل‘‘ ہے، یعنی کشادہ دست، غنی اور فیاض ہے۔ تمام مخلوقات پر اس کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی ہمہ گیر بارش ہر آن ہو رہی ہے۔ بندوں کو جو کچھ بھی مل رہا ہے اُسی کے فضل و کرم سے مل رہا ہے۔ ان پانچ صفات کے بعد دو حقیقتیں واشگاف طریقہ سے بیان کر دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ معبود فی الحقیقت اُس کے سوا کوئی نہیں ہے، خواہ لوگوں نے کتنے ہی دوسرے جھوٹے معبود بنا رکھے ہوں۔ دوسری یہ کہ جانا سب کو آخر کار اسی کی طرف ہے۔ کوئی دوسرا معبود لوگوں کے اعمال کا حساب لینے والا اور ان کی جزا و سزا کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر اگر کوئی دوسروں کو معبود بنائے گا تو اپنی اس حماقت کا خمیازہ خود بھگتے گا۔ |
Surah 41 : Ayat 43
مَّا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ
اے نبیؐ، تم سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے1، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ہے
1 | یعنی یہ اس کا حلم اور عفو و درگزر ہی ہے کہ اس کے رسولوں کو جھٹلایا گیا، گالیاں دی گئیں، اذیتیں پہنچائی گئیں اور پھر بھی وہ سالہا سال تک مخالفین کومہلت دیتا چلا گیا |
Surah 53 : Ayat 32
ٱلَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَـٰٓئِرَ ٱلْإِثْمِ وَٱلْفَوَٲحِشَ إِلَّا ٱللَّمَمَۚ إِنَّ رَبَّكَ وَٲسِعُ ٱلْمَغْفِرَةِۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِى بُطُونِ أُمَّهَـٰتِكُمْۖ فَلَا تُزَكُّوٓاْ أَنفُسَكُمْۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱتَّقَىٰٓ
جو بڑے بڑے گناہوں1 اور کھلے کھلے قبیح افعال2 سے پرہیز کرتے ہیں، الا یہ کہ کچھ قصور اُن سے سرزد3 ہو جائے بلاشبہ تیرے رب کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے4 وہ تمھیں اُس وقت سے خوب جانتا ہے جب اُس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جنین ہی تھے پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے
4 | یعنی صغائر کے مرتکب کا معاف کر دیا جانا کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ صغیرہ گناہ، گناہ نہیں ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ تنگ نظری اور خوردہ گیری کا معاملہ نہیں فرماتا۔ بندے اگر نیکی اختیار کریں اور کبائر و فواحش سے اجتناب کرتے رہیں تو وہ ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرفت نہ فرماۓ گا اور اپنی رحمت بے پایاں کی وجہ سے ان کو ویسے ہی معاف کر دے گا |
3 | اصل الفاظ ہیں اِلَّا اللّٰمَمَ۔ عربی زبان میں لَمَم کا لفظ کسی چیز کی توڑی سی مقدار، یا اس کے خفیف سے اثر، یا اس کے محض قُرب، یا اس کے ذرا سی دیر رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ مثلاً کہتے ہیں اَلَمَّ بَالْمَکَانِ، وہ شخص فلاں جگہ تھوڑی دیر ہی ٹھیرا، یا تھوڑی دیر کے لیے ہی وہاں گیا۔ اَلَمَّ بِا لظَّعَامِ، اس نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔ بِہٖ لَمَمٌم اس کا دماغ ذرا سا کھسکا ہوا ہے ، یا اس میں کچھ جنون کی لٹک ہے ۔ یہ لفظ اس معنی میں بولتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک فعل کا ارتکاب کے ریب تک پہنچ گیا۔ فَرّاء کا قول ہے کہ میں نے عربوں کو اس طرح کے فقرے بولتے سنا ہے ضربہ مالمم القتل، فلاں شخص نے اسے اتنا مارا کہ بس مار ڈالنے کی کسر رہ گئی۔ اور اَلَمّ یفعل، قریب تھا کہ فلاں شخص یہ فعل کر گزرتا۔ شاعر کہاتا ہے اَلَمت فحیّت ثم قَا مت فودعت، ‘‘ وہ بس ذرا کی ذرا آئی سلام کیا، اٹھی اور رخصت ہو گئی‘‘۔ ان استعمالات کی بن پر اہل تفسیر میں بعض نے لمم سے مراد چھوٹے گناہ لیے ہیں۔ بعض جے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ آدمی عملاً کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جاۓ مگر اس کا ارتکاب نہ کرے ۔ بعض اسے کچھ دیر کے لیے گناہ میں مبتلا ہونے اور پھر اس سے باز آ جانے کے معنی میں لیتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی گناہ کا خیال، یا اس کی خواہش، یا اس کا ارادہ تو کرے مگر عملاً کوئی اقدام نہ کرے ۔ اس سلسلے میں صحابہ و تابعین کے اقوال حسب ذیل ہیں : زید بن اسلم اور ابن زید کہتے ہیں، اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ معاصی ہیں جن کا ارتکاب اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں لوگ کر چکے تھے ، پھر اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ ابن عباسؓ کا دوسرا قول یہ ہے ، اور یہی حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبد اللہؓ بن عمرو بن عاض، مجاہدؒ، حسن بصریؒ اور ابوصالحؒ کا قول بھی ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ یا کسی فحش فعل میں کچھ دیر کے لیے ، یا احیاناً مبتلا ہو جانا اور پھر اسے چھوڑ دینا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسؑود اور مسروق اور شعبی فرمانے ہیں اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی معتبر روایات میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جانا اور اس کے ابتدائی مدارج تک طے کر گزرنا مگر آخری مرحلے پر پہنچ کر رک جاتا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص چوری کے لیے جاۓ، مگر چرانے سے باز رہے ۔ یا اجنبیہ سے اختلاط کرے ، مگر زنا کا اقدام نہ کرے ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر، عِکرمہ، قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن کے لیے دنیا میں بھی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے اور آخرت میں بھی جن پر عذاب دینے کی کوئی وعید نہیں فرمائی گئی ہے ۔ سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے گناہ کا خیال دل میں آنا مگر عملاً اس کا ارتکاب نہ کرنا۔ یہ حضرات صحابہ و تابعین کی مختلف تفسیریں ہیں جو روایات میں منقول ہوئی ہیں۔ بعد کے مفسرین اور ائمہ و فقہاء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ یہ آیت اور سورہ نساء کی آیت 31 صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں، ایک کبائر، دوسرے صغائر۔ اور یہ دونوں آیتیں انسان کو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ کبائر اور فواحش سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ صغائر سے در گزر فرماۓ گا۔ اگر چہ بعض اکابر علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ کوئی معصیت چھوٹی نہیں ہے بلکہ خدا کی معصیت بجاۓ خود کبیرہ ہے ۔ لیکن جیساکہ امام غزالیؒ نے فرمایا ہے ، کبائر اور صغائر کا فرق ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جن ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں فرق کیا ہے اور کس قسم کے گناہ صغیرہ اور کس قسم کے کبیرہ ہیں، تو اس معاملہ میں جس بات پر ہمارا اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ ’’ ہر وہ فعل گناہ کبیرہ ہے جسے کتاب و سنت کی کسی نصّ صریح نے حرام قرار دیا ہو، یا اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی ہو، یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید سنائاًی ہو، یا اس کے مرتکب پر لعنت کی ہو، یا اس کے مرتکبین پر نزول عذاب کی خبر دی ہو‘‘۔ اس نوعیت کے گناہوں کے ماسوا جتنے افعال بھی شریعت کی نگاہ میں نا پسندیدہ ہیں وہ سب صغائر کی تعریف میں آتے ہیں۔ اسی طرح کبیرہ کی محض خواہش یا اس کا ارادہ بھی کبیرہ نہیں بلکہ صغیرہ ہے ۔ حتیٰ کہ کسی بڑے گناہ کے ابتدائی مراحل طے کر جانا بھی اس وقت تک گناہ کبیرہ نہیں ہے جب تک آدمی اس کا ارتکاب نہ کر گزرے ۔ البتہ گناہ صغیرہ بھی ایسی حالت میں کبیرہ ہو جاتا ہے جبکہ وہ دین کے استحقاق اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں استکبار کے جذبہسے کیا جاۓ، اور اس کا مرتکب اس شریعت کو کسی اعتناء کے لائق نہ سمجھے جس نے اسے ایک برائی قرار دیا ہے |
2 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام، حاشیہ 130 جلد دوم، النحل حاشیہ 89 |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء، حاشیہ 53 |
Surah 57 : Ayat 28
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَءَامِنُواْ بِرَسُولِهِۦ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِۦ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِۦ وَيَغْفِرْ لَكُمْۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ1، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے2، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا3، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے
3 | یعنی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی مخلصانہ کوشش کے باوجود بشری کمزوریوں کی بنا پر جو قصور بھی تم سے سرزد ہو جائیں ان سے درگزر فرماۓ گا، اور وہ قصور بھی معاف کرے گا جو ایمان لانے سے پہلے جاہلیت کی حالت میں تم سے سرزد ہوۓ تھے |
2 | یعنی دنیا میں علم و بصیرت کا وہ نور عطا فرماۓ گا جس کی روشنی میں تم کو قدم قدم پر صاف نظر آتا رہے گا کہ زندگی کے مختلف معاملات میں جاہلیت کی ٹیڑھی راہوں کے درمیان اسلام کی سیدھی راہ کونسی ہے ۔ اور آخرت میں وہ نور بخشے گا جس کا ذکر آیت 12 میں گزر چکا ہے |
1 | اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہاتا ہے کہ یہاں یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنْوْا، کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لاۓ ہوۓ تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ، تمہیں اس پر دہرا اجر ملے گا، ایک اجر ایمان بر عیٰسی کا اور دوسرا اجر ایمان بر محمدؐ کا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والوں سے ہے ۔ ان سے ارشاد ہو رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جاؤ، بلکہ صدق دل سے ایمان لاؤ اور ایمان لانے کا حق ادا کرو۔ اس پر تمہیں دہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر کفر سے اسلام کی طرف آنے کا، اور دوسرا اجر اسلام میں اخلاص اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا۔ پہلی تفسیر کی تائید سورہ قصص کی آیات 52 تا 54 کرتی ہیں اور مزید بر آں اس کی تائید حضرت ابو موسٰی اشعری کی یہ روایت بھی کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین آدمی ہیں جن کے لیے دہرا اجر ہے ۔ان میں سے ایک ہے رجُل مِّن اھل الکتاب اٰمن بنبیہ و اٰمن بمحمدؐ، ’’ اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے سابق نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر بھی ایمان لے آیا ‘‘ (بخاری و مسلم)۔ دوسری تفسیر کی تائید سورہ سبا کی آیت 37 کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین صالحین کے لیے دو گنا اجر ہے ۔ دلیل کے اعتبار سے دونوں تفسیروں کا وزن مساوی ہے ۔ لیکن آگے کے مضمون پر غور کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تفسیر ہی اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ، بلکہ در حقیقت اس سورت کا پورا مضمون از اول تا آخر اسی تفسیر کی تائید کرتا ہے ۔ شروع سے اس سورت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار کر کے داخل اسلام ہوۓ تھے ، اور پوری سورت میں انہی کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ محض زبان کے مومن نہ بنیں بلکہ اخلاص کے ساتھ سچے دل سے ایمان لائیں |
Surah 74 : Ayat 56
وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُۚ هُوَ أَهْلُ ٱلتَّقْوَىٰ وَأَهْلُ ٱلْمَغْفِرَةِ
اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے1 وہ اس کا حق دار ہے کہ اُس سے تقویٰ کیا جائے2 اور وہ اس کا اہل ہے کہ (تقویٰ کرنے والوں کو) بخش دے3
3 | یعنی یہ اللہ ہی کو زیب دیتا ہے کہ کسی نے خواہ اس کی کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں، جس وقت بھی وہ اپنی اس روش سے بازآجائےاللہ اپنا دامن رحمت اس کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔ اپنے بندوں کے لیے کوئی جذبہ انتقام وہ اپنے اندر نہیں رکھتا کہ ان کے قصوروں سے وہ کسی حال میں در گزر ہی نہ کرے اور انہیں سزادیے بغیر نہ چھوڑے |
2 | یعنی تمہیں اللہ کی ناراضی سے بچنے کی جو نصیحت کی جا رہی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ کو اس کی ضرورت ہے اوراگر تم ا یسا نہ کرو تو اس سے ا للہ کا کوئی نقصان ہوتا ہے، بلکہ یہ نصیحت اس بنا پرکی جا رہی ہے کہ ا للہ کا یہ حق ہے کہ اس کے بندےاس کی رضا چاہیں اور اس کی مرضی کے خلاف نہ چلیں |
1 | یعنی کسی شخص کا نصیحت حاصل کرنا سراسر اس کی اپنی مشیت ہی پر موقوف نہیں ہے، بلکہ اسے نصیحت اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب کہ اللہ کی مشیت بھی یہ ہو کہ وہ اسے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ دوسرے الفاظ میں یہاں اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ بندے کا کوئی فعل بھی تنہا بندے کی اپنی مشیت سے ظہور میں نہیں آتا، بلکہ ہر فعل اسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے جب خدا کی مشیت بندے کی مشیت سے مل جائے۔ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جسے نہ سمجھنے سے انسانی فکر بکثرت ٹھوکریں کھاتی ہے۔ مختصر الفاظ میں اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر اس دنیا میں ہر انسان کو یہ قدرت حاصل ہوتی کہ جو کچھ وہ کرنا چاہے اللہ کی مشیت ساری مشیتوں پر غالب ہے۔ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہے وہ اسی وقت کر سکتا ہے جبکہ اللہ بھی یہ چاہے کہ انسان کو وہ کام کرنے دیا جائے۔ یہی معاملہ ہدایت اور ضلالت کا بھی ہے۔ انسان کا محض خود ہدایت چاہنا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے ہدایت مل جائے، بلکہ اسے ہدایت اس وقت ملتی ہے جب اللہ اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ اس طرح ضلالت کی خواہش بھی محض بندے کی طرف سے ہونا کافی نہیں ہے۔ بلکہ جب اللہ اس کے اندر گمراہی کی طلب پا کر یہ فیصلہ کر د یتا ہے کہ اسےغلط راستوں میں بھٹکنے دیا جائےتب وہ ان راہوں میں بھٹک نکلتا ہے جن پراللہ اسے جانے کا موقع دے دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی چوربننا چاہےتومحض اس کی یہ خواہش اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ جہاں جس کے گھر میں گھس کر وہ جو کچھ چاہے چرالے جائے، بلکہ اللہ اپنی عظیم حکمتوں اور مصلحتوں کے مطابق اس کی اس خواہش کو جب اور جس قدراورجس شکل میں پورا کرنے کا موقع دیتا ہے اسی حد تک وہ اسے پورا کر سکتا ہے |