Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 221
وَلَا تَنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكَـٰتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْۗ وَلَا تُنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُواْۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْۗ أُوْلَـٰٓئِكَ يَدْعُونَ إِلَى ٱلنَّارِۖ وَٱللَّهُ يَدْعُوٓاْ إِلَى ٱلْجَنَّةِ وَٱلْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِۦۖ وَيُبَيِّنُ ءَايَـٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں1 اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے
1 | یہ ہے علّت و مصلحت اُس حکم کی جو مشرکین کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق نہ رکھنے کے متعلق اُوپر بیان ہوا تھا۔ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک گہرا تمدّنی ، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آئندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہو گا ، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاٴ ثر ہو جائے گی، اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے ازدواج سے اسلام اور کفر و شرک کی ایک ایسی معجون مرکّب اُس گھر اور اس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیر مسلم خواہ کتنا ہی نا پسند کریں ، مگر اسلام کسی طرح پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو شخص صحیح معنوں میں مومن ہو وہ محض اپنے جذباتِ شہوانی کی تسکین کے لیے کبھی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اس کے گھر اور اس کے خاندان میں کافرانہ و مشرکانہ خیالات اور طور طریقے پرورش پائیں اور وہ خود بھی نادانستہ اپنی زندگی کے کسی پہلو میں کفر و شرک سے متاثر ہو جائے۔ اگر بالفرض ایک فردِ مومن کسی فرد ِ مشرک کے عشق میں بھی مبتلا ہو جائے، تب بھی اس کے ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان ، اپنی نسل اور خود اپنے دین و اخلاق پر اپنے شخصی جذبات قربان کر دے |
Surah 10 : Ayat 25
وَٱللَّهُ يَدْعُوٓاْ إِلَىٰ دَارِ ٱلسَّلَـٰمِ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(تم اِس نا پائیدار زندگی کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہو) اور اللہ تمہیں دار السلام کی طرف دعوت دے رہا ہے1 (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے) جس کو وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے
1 | یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اُس طریقے کی طرف جو آخرت کی زندگی میں تم کو دارالسلام کا مستحق بنائے۔ دارالسلام سے مراد ہے جنت اوراس کے معنی ہیں سلامتی کا گھر، وہ جگہ جہاں کوئی آفت، کوئی نقصان، کوئی رنج اور کوئی تکلیف نہ ہو۔ |
Surah 14 : Ayat 10
۞ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِى ٱللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّىۚ قَالُوٓاْ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَـٰنٍ مُّبِينٍ
اُن کے رسولوں نے کہا 1"کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا ر =ہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدت مقرر تک مہلت دے2" اُنہوں نے جواب دیا 3"تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے اچھا تو لاؤ کوئی صریح سند4"
4 | یعنی کوئی ایسی سند جسے ہم آنکھوں سے دیکھیں اور ہاتھوں سے چھوئیں اور جس سے ہم کو یقین آجائے کہ واقعی خدا نے تم کو بھیجا ہے اور یہ پیغام جو تم لائے ہو خدا ہی کا پیغام ہے |
3 | اُن کا مطلب یہ تھا کہ تم ہر حیثیت سے بالکل ہم جیسے انسان ہی نظر آتے ہو۔ کھاتے ہو، پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، بھوک ، پیاس ، بیماری، دُکھ، سردی، گرمی، ہر چیز کے احساس میں اور ہر بشری کمزوری میں ہمارے مشابہ ہو۔ تمہارے اندر کوئی غیر معمولی پن ہمیں نظڑ نہیں آتا جس کی بنا پر ہم یہ مان لیں کہ تم کوئی پہنچے ہوئے لوگ ہو اور خدا تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور فرشتے تمہارے پاس آتے ہیں |
2 | مدّتِ مقرر سے مراد افراد کی موت کا وقت بھی ہو سکتا ہے اور قیامت بھی۔ جہاں تک قوموں کا تعلق ہے ان کے اُٹھنے اور گرنے کے لیے اللہ کے ہاں مدت کا تعیّن اُن کے اوصاف کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کرلے تو اس کی مہلتِ عمل گھٹا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے بُرے اوصاف کو اچھے اوصاف سے بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے ، حتیٰ کہ وہ قیامت تک بھی دراز ہو سکتی ہے۔ اسی مضمون کی طرف سورۂ رعد کی آیت نمبر ۱۱ اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہ بدل دے |
1 | رسولوں نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہر زمانے کے مشرکین خدا کی ہستی کو مانتے تھَے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق وہی ہے۔ اسی بنیاد پر رسولوں نے فرمایا کہ آخر تمہیں شک کس چیز پر ہے ؟ ہم جس چیز کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہیں وہ اِس کے سوا اور کیا ہے کہ اللہ فاطر السمٰوات والارض تمہاری بندگی کا حقیقی مستحق ہے۔ پھر کیا اللہ کے بارے میں تم کو شک ہے؟ |