Ayats Found (2)
Surah 6 : Ayat 152
وَلَا تَقْرَبُواْ مَالَ ٱلْيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُۥۖ وَأَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ بِٱلْقِسْطِۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَٱعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰۖ وَبِعَهْدِ ٱللَّهِ أَوْفُواْۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو1، یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے2، اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو3 ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو
3 | اللہ کے عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے، اور وہ بھی جو انسان اور خدا، اور انسان اور انسان کے درمیان اُسی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائیٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے
پہلے دونوں عہد شعوری وارادی ہیں، اور یہ تیسرا عہد اہک فطری عہد (Natural Contract) ہے جس کے باندھنے میں اگرچہ انسان مکے ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے، لیکن واجب الاحترم ہونے میں یہ پہلے دونوں عہدوں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ کسی شخص کا خدا کے بخشے ہوئے وجود سے، اس کی عطا کی ہوئی جسمانی و نفسانی قوتوں سے، اس کے دیے ہوئے جسمانی آلات سے، اور اس کی پیدا کی ہوئی زمین اور رزق اور ذرائع سے فائدہ اُٹھانا، اور اُن مواقع زندگی سے متمتع ہونا قوانین قدرت کی بدولت فراہم ہوتے ہیں، خود بخود فطرۃ خدا کے کچھ حقوق اس پر عائد کر دیتا ہے۔ اور اسی طرح آدمی کا ایک ماں کے پیٹ میں اس کے خون سے پرورش پانا، ایک باپ کی مختوں سے بسے ہوئے گھر میں پیدا ہونا، اور ایک اجتماعی زندگی کے بے شمار اداروں سے مختلف صُورتوں میں متمتع ہونا علی قدر مراتب اس کے ذمہ بہ سے افراد اور اجتماعی اداروں کے حقوق بھی عائد کر دیتا ہے۔ انسان کا خدا سے اور انسان کا سوسائیٹی سے یہ عہد کسی کاغذ پر نہیں لکھا گیا، مگر اس کے رونگٹے رونگٹے پرثبت ہے۔ انسان نے اسے شعُورو ارادہ کے ساتھ نہیں باندھا، مگر اس کا پورا وجود اسی عہد کا رہین منت ہے۔ اسی عہد کی سُورہ بقرہ آیت ۲۷ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ فاسق وہ ہیں جو، اللہ کے عہد کو اس کی استواری کے بعد توڑتے ہیں، اور جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اسی کا ذکر آگے چل کر سُورہ اعراف ۱۷۲ میں آتا ہے کہ اللہ نے ازل میں آدم کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کو نکال کر ان سے شہادت کو نکال کر ان سے شہادت طلب کی تھی کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اورانہوں نے اقرار کیا تھا کہ ہاں ہم گواہ ہیں۔ |
2 | یہ اگرچہ شریعتِ الہٰی کا ایک مستقل اُصُول ہے ، لیکن یہاں اس کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اپنی حد تک تاپ تول اور لین دین کے معاملات میں راستی و انصاف سے کام لینے کی کوشش کرے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا۔ بھُول چوک یا نادانستہ کمی وہ بیشی ہو جانے پر اس سے باز پُرس نہ ہوگی |
1 | یعنی ایسا طریقہ جو زیادہ سے زیادہ بے غرضی، نیک نیتی اور یتیم کی خیر خواہی پر مبنی ہو، اور جس پر خدا اور خلق کسی کی طرف سے بھی تم اعتراض کے مستحق نہ ہو |
Surah 17 : Ayat 36
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌۚ إِنَّ ٱلسَّمْعَ وَٱلْبَصَرَ وَٱلْفُؤَادَ كُلُّ أُوْلَـٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــُٔولاً
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے
1 | اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہم و گمان کے بجائے”علم“کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشا کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں، قانون میں، سیاست اور انتظام ِ ملکی میں، علوم و فنون اور نظامِ تعلیم میں، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور اُن بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنےسے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بد گمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شہبے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائےتفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی نا جائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجر وشبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی اُن نام نہاد علوم کو نا پسند کیا گیا جو محض ظنو تخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اُس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔ |