Ayats Found (4)
Surah 40 : Ayat 64
ٱللَّهُ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ قَرَارًا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْۖ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا 1اور اوپر آسمان کا گنبد بنا دیا 2جس نے تمہاری صورت بنائی اور بڑی ہی عمدہ بنائی جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا3 وہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے بے حساب برکتوں والا ہے وہ کائنات کا رب
3 | یعنی تمہارے پیدا کرنے سے پہلے تمہارے لیے اس قدر محفوظ اور پرامن جاۓ قرار مہیا کی۔پھر تمہیں پیدا کیا تو اس طرح کہ ایک بہترین جسم، نہایت موزوں اعضاء اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جسمانی و ذہنی قوتوں کے ساتھ تم کو عطا کیا۔ یہ سیدھا قامت، یہ ہاتھ اور یہ پاؤں، یہ آنکھ ناک اور یہ کان، یہ بولتی ہوئی زبان اور یہ بہترین صلاحیتوں کا مخزن دماغ تم خود بنا کر نہیں لے آۓ تھے، نہ تمہاری ماں اور تمہارے باپ نے انہیں بنایا تھا، نہ کوئی نبی یا ولی یا دیوتا میں یہ قدرت تھی کہ انہیں بناتا۔ ان کا بنانے والا وہ حکیم و رحیم قادر مطلق تھا جس نے انسان کو وجود میں لانے کا جب فیصلہ کیا تو اسے دنیا میں کام کرنے کے لیے ایسا بے نظیر جسم دے کر پیدا کیا۔ پھر پیدا ہوتے ہی اس کی مہربانی سے تم نے اپنے لیے پاکیزہ رزق کا ایک وسیع خوانِ یغما بچھا ہوا پایا۔ کھانے اور پینے کا ایسا پاکیزہ سامان جو زہریلا نہیں بلکہ صحت بخش ہے، کڑوا کسیلا اور بد مزہ نہیں بلکہ خوش ذائقہ ہے، سڑا بُسا اور بد بو دار نہیں بلکہ خوش رائحہ ہے، بے جان پھوک نہیں بلکہ ان حیاتینوں اور مفید غذائی مادّوں سے مالا مال ہے جو تمہارے جسم کی پرورش اور نشو و نما کے لیے موزوں ترین ہیں۔ یہ پانی، یہ غلے، یہ ترکاریاں، یہ پھل، یہ دودھ، یہ شہد، یہ گوشت، یہ نمک مرچ اور مسالے، جو تمہارے تغذیے کے لیے اس قدر موزوں اور تمہیں زندگی کی طاقت ہی نہیں، زندگی کا لطف دینے کے لیے بھی اس قدر مناسب ہیں، آخر کس نے اس زمین پر اتنی افراط کے ساتھ مہیا کیے ہیں، اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے یہ بے حساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آئیں اور ان کی رسد کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہ پاۓ؟ یہ رزق کا انتظام نہ ہوتا اور بس تم پیدا کر دیے جاتے تو سوچو کہ تمہاری زندگی کا کیا رنگ ہوتا۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ تمہارا پیدا کرنے والا محض خالق ہی نہیں بلکہ خالق حکیم اور ربّ رحیم ہے؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، ص 323۔324۔ جلد سوم، ص 589 تا 598)۔ |
2 | یعنی تمہیں کھلی فضا میں نہیں چھوڑ دیا گیا کہ عالم بالا کی آفات بارش کی طرح برس کر تم کو تہس نہس ک دیں، بلکہ زمین کے اوپر ایک نہایت مستحکم سماوی نظام (جو دیکھنے والی آنکھ کو گنبد کی طرح نظر آتا ہے) تعمیر کر دیا جس سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز تم تک نہیں پہنچ سکتی، حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں تک نہیں پہنچ سکتیں، اور اسی وجہ سے تم امن و چین کے ساتھ زمین پر جی رہے ہو۔ |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، صفحات 590 تا 592 |
Surah 64 : Ayat 3
خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ
اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے، اور اسی کی طرف آخرکار تمہیں پلٹنا ہے1
1 | اس آیت میں تین باتیں علی الترتیب بیان کی گئی ہیں جن کے درمیان ایک بہت گہرا منطقی ربط ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ نے یہ کائنات بر حق پیدا کی ہے۔ ’’برحق‘‘ کا لفظ جب خبر کے لیے بولا جاتا ہے تو مراد ہوتی ہے سچی خبر۔ حکم کے لیے بولا جاتا ہے تو مطلب ہوتا ہے مبنی بر عدل و انصاف حکم قول کے لیے بولا جاتا ہے تو مقصود ہوتا ہے راست اور درست قول۔ اور جب کسی فعل کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو مراد ایسا فعل ہوتا ہے جو حکیمانہ اور معقول ہو نہ کہ لا یعنی اور فضول۔ اب یہ ظاہر ہے کہ خَلْق ایک فعل ہے، اس لیے تخلیق کائنات کو بر حق کہنے کا مطلب لا محالہ یہ ہے کہ یہ کائنات کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی گئی ہے بلکہ یہ ایک خالق حکیم کا نہایت سنجیدہ کام ہے۔ اس کی ہر چیز اپنے پیچھے ایک معقول مقصد رکھتی ہے، اور یہ مقصدیت اس میں اتنی نمایا ں ہے کہ اگر کوئی صاحب عقل انسان کسی چیز کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لے تو یہ جان لینا اس کے لیے مشکل نہیں ہوتا کہ ایسی ایک چیز کے پیدا کرنے کا معقول اور مبنی بر حکمت مقصد کیا ہو سکتا ہے۔ دنیا میں انسان کی ساری سائنٹفک ترقی اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جس چیز کی نوعیت کو بھی انسان نے غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے سمجھ لیا اس کے بارے میں یہ بات بھی اسے آخر کار معلوم ہو گئی کہ وہ کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے، اور اس مقصد کو سمجھ کر ہی انسان نے وہ بے شمار چیزیں ایجاد کر لیں جو آج انسانی تمدن میں استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ بات ہر گز ممکن نہ ہوتی اگر یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا ہوتی جس میں کوئی حکمت اور مقصدیت کار فرما نہ ہوتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، سورہ انعام، حاشیہ 46۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ 75۔ الروم، حاشیہ 6۔ جلد چہارم، الدخان، حاشیہ 34۔ الجاثیہ، حاشیہ 28 )۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اس کائنات میں اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا ہے۔ صورت سے مراد محض انسان کا چہرہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اس کی پوری جسمانی ساخت ہے اور وہ قوتیں اور صلاحیتیں بھی اسکے مفہوم میں شامل ہیں جو اس دنیا میں کام کرنے کے لیے آدمی کو عطا کی گئی ہیں۔ ان دونوں حیثیتوں سے انسان کو زمین کی مخلوقات میں سب سے بہتر بنایا ہے، اور اسی بنا پر وہ اس قابل ہوا ہے کہ ان تمام موجودات پر حکمرانی کرے جو زمین اور اس کے گرد و پید میں پائی جاتی ہیں۔ اس کو کھڑا قد دیا گیا ہے۔ اس کو چلنے کے لیے مناسب ترین پاؤں دیے گۓ ہیں۔اس کو کام کرنے کے لیے موزوں ترین ہاتھ دیۓ گۓ ہیں۔ اس کو ایسے حواس اور ایسے آلات علم دیے گۓ ہیں جن کے ذریعہ سے وہ ہر طرح کی معلومات حاصل کرتا ہے۔ اس کو سوچنے اور سمجھنے اور معلومات کو جمع کر کے ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا ذہن دیا گیا ہے۔ اس کو ایک اخلاقی حِس اور قوت تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور برائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے۔ اس کو ایک قوت فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششوں کو کس راستے پر لگاۓ اور کس پر نہ لگاۓ۔ اس کو یہاں تک آزادی دے دی گئی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کر دے، یا جن جن کو چاہے اپنا خدا بنا بیٹھے، یا جسے خدا مانتا ہو اس کے خلاف بھی بغاوت کرنا چاہے تو کر گزرے۔ ان ساری وقتوں اور ان سارے اختیارات کے ساتھ اسے خدا نے اپنی پیدا کردہ بے شمار مخلوقات پر تصرُّف کرنے کا اقتدار دیا ہے اور وہ عملاً اس اقتدار کو استعمال کر رہا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، المؤمن ، حاشیہ 91)۔ ان دو باتوں سے جو اوپر بیان کی گئی ہیں بالکل ایک منطقی نتیجہ کے طور پر وہ تیسری بات خود بخود نکلتی ہے جو آیت کے تیسرے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے کہ ’’ اسی کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے ‘‘۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایسے ایک حکیمانہ اور با مقصد نظام کائنات میں ایسی ایک با اختیار مخلوق پیدا کی گئی ہے تو حکمت کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ اسے یہاں شتر بے مہار کی طرح غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا جاۓ، بلکہ لازماً اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مخلوق اس ہستی کے سامنے جواب دہ ہو جس نے اسے ان اختیارات کے ساتھ اپنی کائنات میں یہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ ’’پلٹنے ‘‘ سے مراد اس آیت میں محض پلٹنا نہیں ہے بلکہ جواب دہی کے لیے پلٹنا ہے، اور بعد کی آیات میں صراحت کر دی گئی ہے کہ یہ واپسی اس زندگی میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہو گی، اور اس کا اصل وقت وہ ہو گا جب پوری نوع انسانی کو از سر نو زندہ کر کے بیک وقت محاسبہ کے لیے اکٹھا کیا جاۓ گا، اور اس محاسبے کے نتیجے میں جزا و سزا اس بنیاد پر ہو گی کہ آدمی نے خدا کے دیے ہوۓ اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا یا غلط طریقے سے۔ رہا یہ سوال کہ یہ جواب دہی دنیا کی موجودہ زندگی میں کیوں نہیں ہو سکتی ؟اور اس کا صحیح وقت مرنے کے بعد دوسری زندگی ہی کیوں ہے ؟ اور یہ کیوں ضروری ہے کہ یہ جواب دہی اس وقت ہو جب پوری نوع انسانی اس دنیا میں ختم ہو جاۓ اور تمام اولین و آخر ین کو بیک وقت دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کیا جاۓ ؟ آدمی ذرا بھی عقل سے کام لے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بھی سراسر معقول ہے اور حکمت و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ محاسبہ دوسری زندگی ہی میں ہو اور سب انسانوں کا ایک ساتھ ہو۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے پورے کارنامہ حیات کے لیے جواب دہ ہے۔ اس لیے اس کی جواب دہی کا صحیح وقت لازماً وہی ہونا چاہیے جب اس کا کارنامہ حیات مکمل ہو چکا ہو۔ اور دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان ان تمام اثرات و نتائج کے لیے ذمہ دار ہے جو اس کے افعال سے دوسروں کی زندگی پر مترتب ہوۓ ہوں، اور وہ اثرات و نتائج اس کے مرنے کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے بعد مدت ہاۓ دراز تک چلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا صحیح محاسبہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب پوری نوع انسانی کا کارنامہ حیات ختم ہو جاۓ اور تمام اولین و آخر ین بیک وقت جواب دہی کے لیے جمع کیے جائیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 30۔ یونس، حواشی 10۔ 11۔ ہود، حاشیہ 105۔ النحل، حاشیہ 35۔ جلد سوم، الحج، حاشیہ 9۔ النمل، حاشیہ 27۔ الروم، حواشی 5۔6۔جلد چہارم، ص، حواشی 28۔ 30۔ المؤمن، حاشیہ 80۔ الجاشیہ، حواشی 27 تا 29 ) |
Surah 42 : Ayat 11
فَاطِرُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٲجًا وَمِنَ ٱلْأَنْعَـٰمِ أَزْوَٲجًاۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ
آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے، اور اسی طرح جانوروں میں بھی (اُنہی کے ہم جنس) جوڑے بنائے، اور اِس طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں1، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے2
2 | یعنی بیک وقت ساری کائنات میں ہر ایک کی سن رہا ہے اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے |
1 | اصل الفاظ ہیں لَیْسَ کَمِثْلَہٖ شَئ ءٌ ’’ کوئی چیز اس کے مانند جیسی نہیں ‘‘ا مفسرین اور اہل لغت میں س بعض کہتے ہیں کہ اس میں لفظ مثل پر کاف (حرف تشبیہ ) کا اضافہ محاورے کے طور پر کیا گیا ہے جس سے مقصود محض بات میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے ، اور عرب میں یہ طرز بیان رائج ہے۔ مثلاً شاعر کہتا ہے وقتلیٰ کمثل جُذوع النخل۔ اور ایک دوسرا شاعر کہتا ہے ما ان کمثلھم فی الناس من احد۔ بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں کہنے کے بجاۓ اس کے مثل جیسا کوئی نہیں کہتے میں مبلغہ ہے ، مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کا کوئی مثل ہوتا تو اس جیسا بھی کوئی نہ ہوتا ، کجا کہ خود اللہ جیسا کوئی ہو |
Surah 42 : Ayat 29
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦ خَلْقُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِن دَآبَّةٍۚ وَهُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَآءُ قَدِيرٌ
اُس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش، اور یہ جاندار مخلوقات جو اُس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں1 وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے2
2 | یعنی جس طرح وہ انہیں پھیلا دینے پر قادر ہے اسی طرح وہ انہیں جمع کر لینے پر بھی قادر ہے ، لہٰذا یہ خیال کرنا غلط ہے کہ قیامت نہیں آ سکتی اور تمام اولین و آخرین کو بیک وقت اٹھا کر اکٹھا نہیں کیا جا سکتا |
1 | یعنی زمین میں بھی اور آسمانوں میں بھی۔ یہ کھلا اشارہ ہے اس طرف کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی، بلکہ دوسرے سیاروں میں بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں |