Ayats Found (10)
Surah 3 : Ayat 54
وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ ٱللَّهُۖ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَـٰكِرِينَ
پھر بنی اسرائیل (مسیح کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے
Surah 8 : Ayat 30
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ ٱللَّهُۖ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَـٰكِرِينَ
وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں1 وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے
1 | یہ اس موقع کا ذکر ہے جبکہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ ولسم بھی مدینہ چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے اکہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے معاملہ میں ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے دار النَّددَہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس امر پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدّباب کس طرح کیا جا ئے۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے۔ لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے جو ساتھی قید خانے سے باہر ہونگے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہ کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو ۔ پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اوعر کیا کرتا ہے ، بہر حال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہو جائے گا۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ شخص جادو بیان آدمی ہے ، دلوں کو موہنے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے، اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نہ معلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنالے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کرکے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لیے تم پر حملہ آور ہو گا ۔ آخر کار ابو جہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسبت تیزدست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یک بارگی محمد ؐ پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر ڈالیں۔ اس طرح محمد ؐ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے ناممکن ہو جائے گا کہ سب سے لڑ سکیں اس لیے مجبوراً خوں بہا پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہوجائیں گے۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا، قتل کے لیے آدمی بھی نامزد ہوگئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا،حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا، لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے اور ان کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہو کر رہ گئی |
Surah 10 : Ayat 21
وَإِذَآ أَذَقْنَا ٱلنَّاسَ رَحْمَةً مِّنۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِىٓ ءَايَاتِنَاۚ قُلِ ٱللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًاۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں1 ان سے کہو “اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری سب مکّاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں 2"
2 | اللہ کی چال سے مراد یہ ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشۂ زندگانی یونہی تمہیں مست کیے رکھے گا، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے، حتیٰ کہ اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے کرتُوتوں کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤگے۔ |
1 | یہ پھر اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آیات ۱۱ – ۱۲ میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم نشانی آخر کس منہ سے مانگتے ہو۔ ابھی جو قحط تم پر گزرا ہے اس میں تم اپنے اُن معبودوں سے مایوس ہو گئے تھے جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی ٹھیرا رکھا تھا اور جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے۔ اور فلاں درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آتی ہے۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خداؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے۔ اسی وجہ سے تو آخرکار تم اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے۔ کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اُس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آجاتا جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تم کو دے رہے ہیں؟ مگراس نشانی کو دیکھ کر تم نے کیاکیا؟ جونہی کہ قحط دور ہوا اور بارانِ رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کر دیا، تم نے اس بلا کے آنے اور پھر اس کے دُور ہونے کے متعلق ہزار قسم کی توجیہیں اور تاویلیں (چالبازیاں) کرنی شروع کر دیں تاکہ توحید کے ماننے سے بچ سکو اور اپنے شرک پر جمے رہ سکو۔ اب جن لوگوں نے اپنے ضمیر کو اس درجہ خراب کر لیا ہو انہیں آخر کونسی نشانی دکھائی جائے اور اس کے دکھانے سے حاصل کیا ہے؟ |
Surah 13 : Ayat 42
وَقَدْ مَكَرَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ ٱلْمَكْرُ جَمِيعًاۖ يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍۗ وَسَيَعْلَمُ ٱلْكُفَّـٰرُ لِمَنْ عُقْبَى ٱلدَّارِ
اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں1، مگر اصل فیصلہ کن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرین حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے
1 | یعنی آج یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ حق کی آواز کو دبانے کے لیے جھوٹ اور فریب اور ظلم کے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ پچھلی تاریخ میں بارہا ایسی ہی چالوں سے دعوتِ حق کو شکست دینے کی کوششیں کی جا چکی ہیں |
Surah 14 : Ayat 46
وَقَدْ مَكَرُواْ مَكْرَهُمْ وَعِندَ ٱللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ ٱلْجِبَالُ
انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں1
1 | یعنی تم یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانینِ الہٰی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں، اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے۔ مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کر نے سے باز نہ آئے اور یہی سمجھتے رہے کہ تمہاری چالیں ضرور کامیاب ہوں گی۔ |
Surah 16 : Ayat 26
قَدْ مَكَرَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى ٱللَّهُ بُنْيَـٰنَهُم مِّنَ ٱلْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ ٱلسَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَـٰهُمُ ٱلْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
اِن سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کر چکے ہیں، تو دیکھ لو کہ اللہ نے اُن کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آ رہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا اُن کو گمان تک نہ تھا
Surah 27 : Ayat 50
وَمَكَرُواْ مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی1
1 | یعنی قبل اس کے کہ وہ اپنے طے شدہ پر حضرت صالحؑ کے ہاں شبخون مارتے، اللہ تعالیٰ نے اپنا عزاب بھیج دیا اورنہ صرف وہ بلکہ ان کی پوری قوم تباہ ہوگئی۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ سازش ان لوگوں نے اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کے بعد کی تھی۔ سورہ ہود میںذکر آتا ہے کہ جب انہوں نے اُنٹنی کو مار ڈالا تو حضرت صالحؑ نے انہیںنوٹس دیا کہ بس اب تین دن مزے کرلو، اس کے بعد تم پر عزاب آجائے گا (فقال تمتعو فی دارکم ثلثۃ ایام ذلک وعد غیر مکذوب)۔ اس پر شاید انہوں نے سوچا ہوگا کہ صالحؑ کا عذاب موعود توآئے چاہے نہ آئے، ہم لگے ہاتھوں اونٹنی کے ساتھ اس کا بھی کیوں نہ کام تمام کردیں۔ چنانچہ اغلب یہ ہے کہ انہوں نے شبخون مارنے کےلیے وہی رات تجویز کی ہوگی جس رات عزاب آنا تھا اورقبل اس کے کہ ان کا ہاتھ حضرت صالحؑ پر پڑتا خدا کا زبردست ہاتھ ان پر پڑگیا۔ |
Surah 86 : Ayat 15
إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا
یہ لوگ چالیں چل رہے ہیں1
1 | یعنی یہ کفار اس قرآن کی دعوت کو شکست دینے کے لیے طرح طرح کی چالیں چل رہے ہیں۔ اپنی پھونکوں سے اس چراغ کو بجھانا چاہتے ہیں۔ ہر قسم کے شبہات لوگوں کے دلوں میں ڈال رہے ہیں۔ ایک سے ایک جھوٹا الزام تراش کر اس کے پیش کرنے والے نبی پر لگا رہے ہیں تاکہ دنیا میں اس کی بات چلنے نہ پائے اور کفروجاہلیت کی وہی تاریکی چھائی رہے جسے چھانٹنے کی وہ کوشش کر رہا ہے |
Surah 86 : Ayat 16
وَأَكِيدُ كَيْدًا
اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں1
1 | یعنی میں یہ تدبیر کر رہا ہوں کہ ا ن کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے پائے، اور یہ آخر کار منہ کی کھا کر رہیں ، اور وہ نور پھیل کر رہے جسے یہ بجھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں |
Surah 9 : Ayat 79
ٱلَّذِينَ يَلْمِزُونَ ٱلْمُطَّوِّعِينَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ فِى ٱلصَّدَقَـٰتِ وَٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْۙ سَخِرَ ٱللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(وہ خوب جانتا ہے اُن کنجوس دولت مندوں کو) جو برضا و رغبت دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس (راہ خدا میں دینے کے لیے) اُس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں اللہ1 اِن مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے درد ناک سزا ہے
1 | غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ روکے بیٹھے رہے۔ مگر جب مخلص اہلِ ایمان بڑھ بڑھ کر چندے دینے لگے تو ان لوگوں نے اُن پر باتیں چھانٹنی شروع کیں۔ کوئی ذی استطاعت مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق یا اس سے بڑھ کر کوئی بڑی رقم پیش کرتا تو یہ اس پر ریاکاری کا الزام لگاتے، اور اگر کوئی غریب مسلمان اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی سے رقم حاضر کرتا ، یا رات بھر محنت مزدوری کر کے کچھ کھجوریں حاصل کرتا اور وہی لا کر پیش کر دیتا ، تو یہ اس پر آوازے کستے کہ لو، یہ ٹڈی کی ٹانگ بھی آگئی ہے تاکہ اس سے روم کے قلعے فتح کیے جائیں |