Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 113
وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ لَيْسَتِ ٱلنَّصَـٰرَىٰ عَلَىٰ شَىْءٍ وَقَالَتِ ٱلنَّصَـٰرَىٰ لَيْسَتِ ٱلْيَهُودُ عَلَىٰ شَىْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ ٱلْكِتَـٰبَۗ كَذَٲلِكَ قَالَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْۚ فَٱللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
یہودی کہتے ہیں: عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں عیسائی کہتے ہیں: یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم کے دعوے ان لوگوں کے بھی ہیں، جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ہے1 یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں، ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا
Surah 4 : Ayat 141
ٱلَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ ٱللَّهِ قَالُوٓاْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَـٰفِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوٓاْ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَۚ فَٱللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ وَلَن يَجْعَلَ ٱللَّهُ لِلْكَـٰفِرِينَ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً
یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ ا گر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو اُن سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا1؟ بس اللہ ہی تمہارے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ قیامت کے روز کرے گا اور (اس فیصلہ میں) اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے
1 | ہر زمانہ کے منافقین کی یہی خصوصیّت ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں اُن کو یہ اپنے زبانی اقرار اور دائرہ ٔ اسلام میں برائے نام شمولیت کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اور جو فائدے کافر ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونے ممکن ہیں ان کی خاطر یہ کفار سے جا کر ملتے ہیں اور ہر طریقہ سے ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کوئی”متعصّب مسلمان“ نہیں ہیں، نام کا تعلق مسلمانوں سے ضرور ہے مگر ہماری دلچسپیاں اور وفاداریاں تمہارے ساتھ ہیں، فکر و تہذیب اور مذاق کے لحاظ سے ہر طرح کی موافقت تمہارے ساتھ ہے، اور کفر و اسلام کی کشمکش میں ہمارا وزن جب پڑے گا تمہارے ہی پلڑے میں پڑے گا |
Surah 22 : Ayat 56
ٱلْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْۚ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فِى جَنَّـٰتِ ٱلنَّعِيمِ
اُس روز بادشاہی اللہ کی ہو گی، اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا جو ایمان رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے وہ نعمت بھری جنتوں میں جائیں گے
Surah 22 : Ayat 69
ٱللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اللہ قیامت کے روز تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو"
Surah 22 : Ayat 17
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَٱلَّذِينَ هَادُواْ وَٱلصَّـٰبِــِٔينَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰ وَٱلْمَجُوسَ وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ
جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہوئے2، اور صابئی3، اور نصاریٰ4، اور مجوس5، اور جن لوگوں نے شرک کیا6، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا1، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے
6 | یعنی عرب اور دوسرے ممالک کے مشرکین جو مذکورہ بالا گروہوں کی طرح کسی خاص نام سے موسوم نہ تھے۔ قرآن مجید ان کو دوسرے گروہوں سے ممیز کرنے کے لیے مشرکین اور اَلَّذِیْنَاَشْرَکُوْا کے اصطلاحی ناموں سے یاد کرتا ہے ، اگر چہ اہل ایمان کے سوا باقی سب کے ہی عقائد و اعمال میں شرک داخل ہو چکا تھا |
5 | یعنی ایران کے آتش پرست جو روشنی اور تاریکی کے دو خدا مانتے تھے اور اپنے آپ کو زر دشت کا پیرو کہتے تھے۔ ان کے مذہب و اخلاق کو مزْدَک کی گمراہیوں نے بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا، حتیٰ کہ سگی بہن سے نکاح تک ان میں رواج پا گیا تھا |
4 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، المائدہ ، حاشیہ 36 |
3 | صابئی کے نام سے قدیم زمانے میں دو گروہ مشہور تھے۔ ایک حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پیرو، جو بالائی عراق (یعنی الجزیرہ) کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے ، اور حضرت یحیٰ کی پیروی میں اصطباغ کے طریقے پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے ستارہ پرست لوگ جو اپنے دین کو حضرت شیث اور حضرت ادریس علیہما السلام کی طرف منسوب کرتے تھے اور عناصر پر سیاروں کی اور سیاروں پر فرشتوں کی فرماں روائی کے قائل تھے۔ ان کا مرکز حرّان تھا اور عراق کے مختلف حصوں میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ دوسرا گروہ اپنے فلسفہ و سائنس اورفن طب کے کمالات کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہاں پہلا گروہ مراد ہے۔ کیونکہ دوسرا گروہ غالباً نزول قرآن کے زمانے میں اس نام سے موسوم نہ تھا |
2 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء، حاشیہ 72۔ |
1 | یعنی خدا کے بارے میں مختلف انسانی گروہوں کے درمیان جو جھگڑا ہے اُس کا فیصلہ اس دنیا میں نہیں ہوگا بلکہ قیامت کے روز ہوگا۔ وہیں اس بات کا دو ٹوک فیصلہ کردیاجائے گا کہ ان میں سے کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔ اگرچہ ایک معنی کے لحاظ سے یہ فیصلہ اس دنیا میں بھی خدا کی کتابیں کرتی رہی ہیں لیکن یہاں فیصلے کا لفظ ’’جھگڑا چکانے اور فریقین کے درمیان عدالت کرنے کے معنی میں استعمال ہُوا ہے جبکہ ایک کے حق میں اور دوسرے کے خلاف باقاعدہ ڈگری دے دی جائے |
Surah 32 : Ayat 25
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
یقیناً تیرا رب ہی قیامت کے روز اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں (بنی اسرائیل) باہم اختلاف کرتے رہے ہیں1
1 | یہ اشارہ ہے ان اختلافات اور فرقہ بندیوں کی طرف جن کے اندر بنی اسرائیل ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہونے اور اپنے راست روائمہ کی پیروی چھوڑ دینے اور دُنیا پرستی میں پڑ جانے کے بعد مبتلا ہوئے۔ اس حالت کا ایک نتیجہ تو ظاہر ہے جسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بنی اسرائیل ذلت و نکبت میں گرفتار ہیں۔ دوسرا وہ ہے جو دنیا نہیں جانتی اور وہ قیامت کے روز ظاہر ہو گا۔ |
Surah 60 : Ayat 3
لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَآ أَوْلَـٰدُكُمْۚ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد1 اُس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا2، اور و ہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے3
3 | حضرت حاطب کے اس مقدمہ سے جس کی تفصیل اوپر ہم نے نقل کی ہے، اور ان آیات سے جو اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، حسب ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں : (1) قطع نظر اس سے کہ کرنے والے نے کس بیت سے کیا، بجاۓ خود یہ فعل صریحاً ایک جاسوسی کا فعل تھا، اور جاسوسی بھی بڑے نازک موقع پر سخت خطرناک نوعیت کی تھی کہ حملے سے پہلے بے خبر دشمن کو خبر دار کیا گیا تھا۔ پھر معاملہ شبہ کا بھی نہ تھا بلکہ ملزم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط پکڑ لیا گیا تھا جس کے بعد کسی ثبوت کی حاجت نہ تھی۔ حالات بھی زمانہ امن کے نہیں، زمانہ جنگ کے تھے۔ مگر اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حاطب کو صفائی کا موقع دیے بغیر نظر بند نہیں کر دیا۔ اور صفائی کا موقع بھی ان کا بند کمرے میں نہیں بلکہ کھلی عدالت میں بر سر عام دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسے قوانین و قواعد و ضوابط کی کوئی گنجائش نہیں ہے جن کی رو سے کسی حالت میں حکام کو یہ حق پہنچتا ہو کہ کسی شخص کو محض اپنے علم یا شبہ کی بنا پر قید کر دیں۔ اور بند کمرے میں خفیہ طریقے پر مقدمہ چلانے کا طریقہ بھی اسلام میں نہیں ہے۔ (2) حضرت حاطب نہ صرف مہاجرین میں سے تھے بلکہ اہل بدر میں شامل تھے جنہیں صحابہ کے اندر بھی ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ مگر اس کے باوجود ان سے اتنا بڑا جرم سرزد ہو گیا، اور اس پر اللہ تعالٰی نے قرآن میں اس شدت کے ساتھ گرفت فرمائی جسے اوپر کی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ احادیث میں بھی ان کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور مفسرین میں سے بھی شاید ہی کوئی ہو جس نے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔ یہ من جملہ ان بہت سے شواہد کے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ بے خطا نہیں تھے، ان سے بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر خطائیں سرزد ہو سکتی تھیں اور عملاً ہوئیں، اور ان کے احترام کی جو تعلیم اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے کم از کم اس کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان میں سے اگر کوئی غلط کام سرزد ہوا تو اس کا ذکر نہ کیا جاۓ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اس کا تقاضا یہ ہوتا تو نہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتا اور نہ صحابہ کرام اور تابعین اور محدثین و مفسرین اپنی روایات میں ان کی تفصیلات بیان کرتے۔ (3) حضرت حاطب کے مقدمہ میں حضرت عمرؓ نے جس راۓ کا اظہار کیا وہ ان کے فعل کی ظاہر ی صورت کے لحاظ سے تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ فعل ایسا ہے جو صریحاً اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نوعیت رکھتا ہے، اس لیے حاطب منافق اور واجب القتل ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس نقطہ نظر کو رد فرما دیا اور اسلامی شریعت کا اصل نقطہ نظر یہ بتایا کہ محض فعل کی ظاہری شکل پر ہی فیصلہ نہیں کر دینا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس شخص سے سہ صادر ہوا ہے اس کی پچھلی زندگی اور مجموعی سیرت کیا شہادت دیتی ہے اور قراین کس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ فعل کی شکل بلاشبہ جاسوسی کی ہے۔ مگر کیا اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ فاعل کا آج تک کا رویہ یہی بتا رہا ہے کہ یہ شخص یہ کام اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نیت سے کر سکتا تھا؟ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ایمان کی خاطر ہجرت کی۔ کیا خلوص کے بغیر وہ اتنی بڑی قربانی کر سکتا تھا؟ یا اس کے بارے میں یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں کفار قریش کی طرف کوئی ادنیٰ سا میلان بھی موجود ہے؟ وہ اپنے فعل کی صاف صاف وجہ یہ بتا رہا ہے کہ مکہ میں اس کے بال بچوں کو خاندان اور قبیلے کا وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل ہے، اس لیے اس نے ان کو جنگ کے موقع پر کفار کی ایذا رسانی سے بچانے کی خاطر یہ کام کیا ہے۔ حقائق اس کی تائید کرتے ہیں کہ فی الواقع مکہ میں اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ واقعی اس کے بال بچے وہاں موجود ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اس بیان کو جھوٹا سمجھا جاۓ اور یہ راۓ قائم کی جاۓ کہ اس کے اس فعل کا اصل محرک یہ نہ تھا بلکہ خیانت ہی کا ارادہ اس کے اندر پایا جاتا تھا۔ بلاشبہ ایک مخلص مسلمان کے لیے نیک نیتی سے بھی یہ حرکت جائز نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کو مسلمانوں کے جنگی منصوبوں کی خبر بہم پہنچاۓ، لیکن مخلص کی غلطی اور منافق کی غداری میں بڑا فرق ہے۔ محض نوعیت فعل کی بنا پر دونوں کی ایک ہی سزا نہیں ہو سکتی۔ یہ تھا اس مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ، اور اللہ تعالٰی نے سورہ ممتحنہ کی ان آیات میں اس کی تائید فرمائی۔ اوپر کی تینوں آیات کو غور سے پڑھیے تو صاف محسوس ہوگا کہ ان میں حضرت حاطب پر عتاب تو ضرور فرمایا گیا ہے، مگر یہ عتاب اس طرز کا ہے جو ایک مومن کے لیے ہوتا ہے نہ کہ وہ جو ایک منافق کے لیے ہوا کرتا ہے۔ مزید برآں ان کے لیے کوئی مالی یا جسمانی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے بلکہ علانیہ سخت زجر و توبیخ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایک خطا کار مومن کی عزت کو بٹّہ لگ جانا اور اس کے اعتماد پر حرف آجانا بھی اس کے لیے ایک بڑی سزا ہے۔ (4)۔ بدری صحابہ کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ ’’ تمہیں کیا خبر، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کر دیا‘‘۔ اس کے معنی یہ نہ تھے کہ بدری صحابیوں کو سات خون معاف ہیں، اور انہیں کھلی چھٹی ہے کہ دنیا میں جو گناہ اور جو جرم بھی کرنا چاہیں کرتے رہیں، مغفرت کی انکو پیشگی ضمانت حاصل ہے۔ یہ مطلب نہ حضورؐ کا تھا، نہ صحابہ نے کبھی اس ارشاد کا یہ مطلب لیا، نہ کسی بدری صحابی نے یہ بشارت سن کر اپنے آپ کو ہر گناہ کرنے کے لیے آزاد سمجھا، اور نہ اسلامی شریعت میں اس کی بنا پر ایسا کوئی قاعدہ بنایا گیا کہ بدری صحابی سے اگر کوئی جرم سرزد ہو تو اسے کوئی سزا نہ دی جاۓ۔ در اصل جس موقع و محل میں یہ بات فرمائی گئی تھی اس پر، اور خود ان الفاظ پر جو آپ نے استعمال فرماۓ ہیں، اگر غور کیا جاۓ تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہل بدر نے اللہ اور اس کے دین کے لیے اخلاص اور سرفروشی و جانبازی کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہوں تو یہ بھی اس خدمت اور اللہ کے کرم کو دیکھتے ہوۓ کچھ بعید از امکان نہیں ہے، لہٰذا ایم بدری پر خیانت اور منافقت کا شبہ نہ کرو، اور اپنے جرم کا جو سبب وہ خود بیان کر رہا ہے اسے قبول کر لو ۔ (5) قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کسی مسلمان کا کفار کے لیے جاسوسی کر بیٹھا بجاۓ خود اس بات کا فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ مرتد ہو گیا ہے، یا ایمان سے خارج ہے، یا منافق ہے۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لیے اگر کچھ دوسرے قرائن و شواہد موجود ہوں تو بات الگ ہے، ورنہ اپنی جگہ یہ فعل صرف ایک جرم ہے، کفر نہیں ہے۔ (6)۔ قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلمان کے لیے کفار کی جاسوسی کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے، خواہ اس کی یا اس کے قریب ترین عزیزوں کی جان و مال کو کیسا ہی خطرہ لاحق ہو۔ (7)۔ حضرت عمرؓ نے جب حضرت حاطب کو جاسوسی کے جرم میں قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو حضور نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ جرم مستوجب قتل نہیں ہے، بلکہ اجازت دینے سے انکار اس بنا پر کیا کہ حاطب کا بدری ہونا ان کے مخلص ہونے کا صریح ثبوت ہے اور اسن کا یہ بیان صحیح ہے کہ انہوں نے دشمنوں کی خیر خواہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بال بچوں کو ہلاکت کے خطرے سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔ اس سے فقہاء کے ایک گروہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ مسلمان جاسوس کے لیے عام قانون یہی ہے کہ اسے قتل کیا جاۓ الّا یہ کہ بہت وزنی وجوہ اسے کم تر سزا دینے یا محض ملامت کر کے چھوڑ دینے کے لیے موجود ہوں۔ مگر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام شافعیہؒ اور بعض دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان جاسوس کو تعزیر دی جاۓ گی مگر اس کا قتل جائز نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام اوزاعیؒ کہتے ہیں کہ اسے جسمانی عقوبت اور طویل قید کی سزا دی جاۓ گی۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اسے قتل کیا جاۓ گا۔ لیکن مالکی فقہاء کے اقوال اس مسئلے میں مختلف ہیں۔ اَشہَب کہتے ہیں کہ امام کو اس معاملہ میں وسیع اختیارات حاصل ہیں، جرم اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوۓ وہ اپنے اجتہاد سے کوئی سزا دے سکتا ہے۔ ایک قول امام مالک اور ابن القاسم کا بھی یہی ہے۔ ابن الماجشون اور عبدالملک بن حبیب کہتے ہیں کہ اگر مجرم نے جاسوسی کی عادت ہی بنا لی ہو تو اسے قتل کیا جاۓ۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ جاسوس کی سزا تو قتل ہی ہے مگر وہ اس فعل سے تائب ہو جاۓ تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔ سَحنُو ن کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے یا محض فریب، اس کا علم آخر کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے اسے قتل ہی کیا جانا چاہیے۔ ابن القاسم کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ اور اصبغ کہتے ہیں کہ حربی جاسوس کی سزا قتل ہے، مگر مسلم اور ذمیؔ جاسوس کو قتل کے بجاۓ عقوبت دی جاۓ گی، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کی کھلی کھلی مدد کر رہا ہو۔ (احکام القرآن، ابن العربی۔ عمدۃ القاری،فتح الباری )۔ (8) حدیث مذکور سے اس امر کا جواز بھی نکلتا ہے کہ تفتیش جرم کے لیے اگر ضرورت پڑے تو ملزم مرد ہی نہیں، عورت کے کپڑے بھی اتارے جاسکتے ہیں۔ حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ نے اگر چہ اس عورت کو برہنہ نہیں کیا تھا، لیکن انہوں نے اسے دھمکی دی تھی کہ وہ خط حوالے نہ کرے گی تو وہ اسے برہنہ کر کے اس کی تلاشی لیں گے۔ ظاہر ہے اگر یہ فعل جائز نہ ہوتا تو یہ تین جلیل القدر صحابی اس کی دھمکی نہیں دے سکتے تھے۔ اور قیاس یہ کہتا ہے کہ انہوں نے ضرور واپس جاکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی مہم کی روداد سنائی ہوگی۔ حضورؐ نے اگر اس پر ناپسندیدگی اس پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہوتا تو وہ ضرور منقول ہوتا۔ اسی لیے فقہاء نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (عمدۃ القاری) |
2 | یعنی دنیا کے تمام رشتے، تعلقات، اور رابطے وہاں توڑ دیۓ جائیں گے۔ جتھوں اور پارٹیوں اور خاندانوں کی شکل میں لوگوں کا محاسبہ نہ ہو گا، بلکہ ایک ایک فرد اپنی ذاتی حیثیت میں پیش ہو گا،اور ہر ایک کو اپنا ہی حساب دینا پڑے گا۔ اس لیے دنیا میں کسی شخص کو بھی کسی قرابت یا دوستی یا جتھہ بندی کی خاطر کوئی ناجائز کام نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اپنے کیے کی سزا اس کو خود ہی بھگتنی ہوگی، اس کی ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شریک نہ ہوگا |
1 | یہ اشارہ ہے حضرت حاطب کی طرف انہوں نے اپنی ماں، اپنے بھائی، اور اپنی اولاد کو جنگ کے موقع پر دشمنوں کی ایذا سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے جن کی خاطر اتنے بڑے قصور کا ارتکاب کر ڈالا وہ قیامت کے روز تمہیں بچانے کے لیے نہیں آئیں گے۔ کسی کی یہ ہمت نہیں ہو گی کہ خدا کی عدالت میں آگے بڑھ کر یہ کہے کہ ہمارے باپ یا ہمارے بیٹے یا ہمارے بھائی نے ہماری خاطر یہ گناہ کیا تھا اس لیے اس کے بدلے کی سزا ہمیں دے دی جاۓ۔ اس وقت ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہو گی، اپنے اعمال ہی کے خمیازے سے بچنے کا سوال ہر شخص کے لیے بلاۓ جان بن رہا ہو گا، کجا کہ کوئی کسی دوسرے کے حصے کا خمیازہ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار ہو۔ یہی بات ہے جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زیادہ صریح الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا ’’ اس روز مجرم یہ چاہے گا کہ اپنے اولاد، اپنے بیوی، اپنے بھائی، اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگر فدیے میں دے کر عذاب سے چھوٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جاۓ‘‘ (المعارج، آیات 11۔14)۔ دوسری جگہ فرمایا ’’ اس روز آدمی پا نے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ہر ایک اپنے ہی حال میں ایسا گرفتار ہو گا جس میں اسے کسی کا ہوش نہ ہو گا‘‘(عبس، 34۔37) |