Ayats Found (11)
Surah 6 : Ayat 151
۞ قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْۖ أَلَّا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًاۖ وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَوْلَـٰدَكُم مِّنْ إِمْلَـٰقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْۖ وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلْفَوَٲحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَۖ وَلَا تَقْتُلُواْ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں1: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو2، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو3، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ 4خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ5 یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
5 | یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھیرائی گئی ہے ، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ”حق کے ساتھ“ کا کیا مفہُوم ہے، تو اس کی تین صُورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دوصُورتیں اس پر زائد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صُورتیں یہ ہیں: (۱) انسان کسی دُوسرے انسان کے قتل ِ عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہو گیا ہو۔ (۲) دینِ حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ (۳) دار الاسلام کے حُدُود میں بد امنی پھیلائے یا اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرے۔ باقی دو صُورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں: (۴) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ (۵) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ اِن پانچ صُورتوں کے سوا کسی صُورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے ، خواہ وہ مومن ہو یا ذمّی یا عام کافر |
4 | اصل میں لفظ”فواحش“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق اُن تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی بُرائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں زنا ، عمل ِ قومِ لوط ، برہنگی، جھُوٹی تُہمت، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو مِن جملۂ فواحش کہا گیا ہے ۔ اِسی طرح دُوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشادِ الہٰی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھُپ کر |
3 | نیک سلوک میں ادب ، تعظیم، اطاعت، رضا جوئی، خدمت ، سب داخل ہیں۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے |
2 | یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھیراؤ ، نہ اس کی صفات میں ، نہ اس کے اختیارات میں، اور نہ اس کے حقوق میں۔ ذات میں شرک یہ ہے کہ جو ہرِ اُلُوہیّت میں کسی کو حصّہ دار قرار دیا جائے۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدۂ تثلیث ، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا، اور دُوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنسِ آلہہ کے افراد قرار دینا۔ یہ سب شرک فی الذّات ہیں۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں، ویسا ہی اُن کو یا اُن میں سے کسی صفت کو کسی دُوسرے کے لیے قرار دینا ۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں، یا وہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بے خطا ہے۔ اختیارات میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں اُن کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا ، حاجت روائی و دستگیری کرنا ، محافظت و نگہبانی کرنا، دُعائیں سُننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا ۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حُدُود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا۔ یہ سب خدا وندی کے مخصُوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے۔ حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کےجو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے ۔ مثلاً رکوع و سجود، دست بستہ قیام، سلامی وآستانہ بوسی، شکرِ نعمت یا اعترافِ برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی ، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دُوسری تمام صُورتیں اللہ کے مخصُوص حقوق میں سے ہیں۔ اسی طرح ایسا محبُوب ہونا کہ اس کی محبت پر دُوسری سب محبتیں قربان کی جائیں ، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے ، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے ، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دُوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھیرے گا خوا ہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے |
1 | یعنی تمہارے ربّ کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۲۰) |
Surah 14 : Ayat 41
رَبَّنَا ٱغْفِرْ لِى وَلِوَٲلِدَىَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ ٱلْحِسَابُ
پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا1"
1 | حضرت ابراہیمؑ نے اس دعائے مغفرت میں اپنے باپ کو اُس وعدے کی بنا پر شریک کر لیا تھا جو اُنہوں نے وطن سے نکلتے وقت کیا تھا کہ سَاَ اْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، (مریم ۔ آیت ۴۷)۔ مگر بعد میں جب اُنہیں احساس ہوا کہ کہ وہ تو اللہ کا دشمن تھا تو انہوں نے اُس سے صاف تبرّی فر ما دی۔(التوبہ۔ آیت ۱۱۴) |
Surah 17 : Ayat 31
وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَوْلَـٰدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَـٰقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْــًٔا كَبِيرًا
اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے1
1 | یہ آیت اُن معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبطِ ولادت کی تحریک اُٹھتی رہی ہے۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتلِ اطفال اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوا کرتا تھا، اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیاکو دھکیل رہا ہے۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر اُن تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کےمطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش ِ نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے، اُتنے ہی، بلکہ بارہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا۔ |
Surah 19 : Ayat 5
وَإِنِّى خِفْتُ ٱلْمَوَٲلِىَ مِن وَرَآءِى وَكَانَتِ ٱمْرَأَتِى عَاقِرًا فَهَبْ لِى مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا
مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے1، اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے
1 | مطلب یہ کہ ابیاہ کے خاندان میں میرے بعد کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو دینی اور اخلاقی حیثیت سے اس منصب کا اہل ہو جسے میں سنبھالے ہوۓ ہوں۔ آگے جو نسل اٹھتی نظر آرہی ہے اس کے لچھن بگڑے ہوۓ ہیں۔ |
Surah 19 : Ayat 6
يَرِثُنِى وَيَرِثُ مِنْ ءَالِ يَعْقُوبَۖ وَٱجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
جو میرا وارث بھی ہو اور آلِ یعقوب کی میراث بھی پائے1، اور اے پروردگار، اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا"
1 | یعنی مجھے صرف اپنی ذات ہی کا وارث مطلوب نہیں ہے بلکہ خانوادہ یعقوب کی بھلائیوں کا وارث مطلوب ہے۔ |
Surah 19 : Ayat 55
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُۥ بِٱلصَّلَوٲةِ وَٱلزَّكَوٲةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِۦ مَرْضِيًّا
وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا
Surah 20 : Ayat 132
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِٱلصَّلَوٲةِ وَٱصْطَبِرْ عَلَيْهَاۖ لَا نَسْــَٔلُكَ رِزْقًاۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَۗ وَٱلْعَـٰقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ
اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو1 اور خود بھی اس کے پابند رہو ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے2
2 | یعنی ہم نماز پڑھنے کے لیے تم سے اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا کوئی فائدہ ہے۔ فائدہ تمہارا اپنا ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا جو دنیا اور آخرت دونوں ہیں میں آخری اور مستقل کامیابی کا وسیلہ ہے۔ |
1 | یعنی تمہارے بال بچے بھی اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کے مقابلہ میں ان حرام خوروں کے عیش و عشرت کو دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ ان کو تلقین کرو کہ نماز پڑھیں۔ یہ چیز ان کے زاویۂ نظر کو بدل دے گی۔ ان کے معیار قدر کو بدل دے گی۔ ان کی تو جہالت کا مرکز بدل دے گی۔ وہ پاک رزق پر صابر و قانع ہو جائیں گے اور اس بھلائی کو جو ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اس عیش پر ترجیح دینے لگیں گے جو فسق و فجور اور دنیا پرستی سے حاصل ہوتا ہے |
Surah 25 : Ayat 74
وَٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَٲجِنَا وَذُرِّيَّـٰتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَٱجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ 1"اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا2"
2 | یعنی ہم تقویٰ اور طاعت میں سب سے بڑھ جائیں ، بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں محض نیک ہی نہ ہوں بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے ۔ اس چیز کا بھی یہاں در اصل یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں بلکہ نیکی و پرہیز گاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لیے دلیل جواز کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ یا اللہ متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور اہم کو ان کا حکمراں بنا دے ‘‘۔ اس سخن فہمی کی داد ’’امیدواروں ‘‘ کے سوا اور کون دے سکتا ہے |
1 | یعنی ان کو ایمان اور عمل صالح کی توفیق دے اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کر ، کیونکہ ایک مومن کو بیوی بچوں کے حسن و جمال اور عیش و آرام سے نہیں بلکہ ان کی نیک خصالی سے ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز تکلیف دہ نہیں ہو سکتی کہ جو دنیا میں اس کو سب سے زیادہ پیارے ہیں انہیں دوزخ کا ایندھن بنے کے لیے تیار ہوتے دیکھے ۔ ایسی صورت میں تو بیوی کا حسن اور بچوں کی جوانی و لیاقت اس کے لیے اور بی زیادہ سوہان روح ہو گی، کیونکہ وہ ہر وقت اس رنج میں مبتلا رہے گا کہ یہ سب اپنی ان خوبیوں کے باوجود اللہ عذاب میں گرفتار ہونے والے ہیں ۔ یہاں خاص طور پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ وقت وہ تھا جب کہ مکہ کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے محبوب ترین رشتہ دار کفر و جاہلیت میں مبتلا نہ ہوں ۔ کوئی مرد ایمان لے آیا تھا تو اس کی بیوی ابھی کافر تھی۔ کوئی عورت ایمان لے آئی تھی تو اس کا شوہر ابھی کافر تھا۔ کوئی نوجوان ایمان لے آیا تھا تو اس کے ماں باپ اور بھائی بہن ، سب کے سب کفر میں مبتلا تھے ۔ اور کوئی باپ ایمان لے آیا تھا تو اس کے اپنے جوان جوان بچے کفر پر قائم تھے ۔ اس حالت میں ہر مسلمان ایک شدید روحانی اذیت میں مبتلا تھا اور اس کے دل سے وہ دعا نکلتی تھی جس کی بہترین ترجمانی اس آیت میں کی گئی ہے ۔’’ آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ نے اس کیفیت کی تصویر کھینچ دی ہے کہ اپنے پیاروں کو کفر و جاہلیت میں مبتلا دیکھ کر ایک آدمی کو ایسی اذیت ہو رہی ہے جیسے اس کی آنکھیں آشوب چشم سے ابل آئی ہوں اور کھٹک سے سوئیاں سی چبھ رہی ہوں ۔ اس سلسلہ کلام میں ان کی اس کیفیت کو در اصل یہ بتانے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ وہ جس دین پر ایمان لائے ہیں پورے خلوص کے ساتھ لائے ہیں ۔ ان کی حالت ان لوگوں کی سی نہیں ہے جن کے خاندان کے لوگ مختلف مذہبوں اور پارٹیوں میں شامل رہتے ہیں اور سب مطمئن رہتے ہیں کہ چلو، ہر بینک میں ہمارا کچھ نہ کچھ سرمایہ موجود ہے |
Surah 25 : Ayat 76
خَـٰلِدِينَ فِيهَاۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام
Surah 46 : Ayat 15
وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَٲلِدَيْهِ إِحْسَـٰنًاۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًاۖ وَحَمْلُهُۥ وَفِصَـٰلُهُۥ ثَلَـٰثُونَ شَهْرًاۚ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُۥ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِىٓ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَىٰ وَٲلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَـٰلِحًا تَرْضَـٰهُ وَأَصْلِحْ لِى فِى ذُرِّيَّتِىٓۖ إِنِّى تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ
ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک بر تاؤ کرے اُس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے1 یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا 2"اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو، اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کر مجھے سُکھ دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں"
2 | یعنی مجھے ایسے نیک عمل کی توفیق دے جو اپنے ظاہری صورت میں بھی ٹھیک ٹھیک تیرے قانون کے مطابق ہو، اور حقیقت میں بھی تیرے ہاں مقبول ہونے کے لائق ہو۔ ایک عمل اگر دنیا والوں کے نزدیک بڑا اچھا ہو، مگر خدا کے قانون کی پیروی اس میں نہ کی گئی ہو تو دنیا کے لوگ اس پر کتنی ہی داد دیں، خدا کے ہاں وہ کسی داد کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف ایک عمل ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق ہوتا ہے اور بظاہر اس کی شکل میں کوئی کسر نہیں ہوتی، مگر نیت کی خرابی، ریا، خود پسندی، فخر و غرور، اور دنیا طلبی اس کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور وہ بھی ا س قابل نہیں رہتا ہے کہ اللہ کے یاں مقبول ہو |
1 | یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرچہ اولاد کو ماں اور باپ دونوں ہی کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن ماں کا حق اپنی اہمیت میں اس بنا پر زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لیے زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے۔ یہی بات اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، اور امام بخاری کی ادب المفرد میں وارد ہوئی ہے کہ ایک صاحب نے حضورؐ سے پوچھا کس کا ح خدمت مجھ پر زیادہ ہے؟ فرمایا تیری ماں۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا تیرا باپ۔ حضورؐ کا یہ ارشاد ٹھیک ٹھیک اس آیت کی ترجمانی ہے، کیونکہ اس میں بھی ماں کے تہرے حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : (1) اس کی ماں نے اسے مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا۔ (2) مشقت اٹھا کر اس کو جنا۔(3) اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں 30 مہینے لگ گۓ۔ اس آیت، اور سورہ لقمان کی آیت 14، اور سورہ بقرہ کی آیت 233 سے ایک اور قانونی نکتہ بھی نکلتا ہے جس کی نشان دہی ایک مقدمے میں حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباس نے کی اور حضرت عثمانؓ نے اسی کی بنا پر اپنا فیصلہ بدل دیا۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قبیلہ جُہیَنہ کی ایک عورت سے نکاح کیا اور شادی کے چھ مہینے بعد اس کے ہاں صحیح و سالم بچہ پیدا ہو گیا۔ اس شخص نے حضرت عثمان کے سامنے لا کر یہ معاملہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس عورت کو زانیہ قرار دے کر حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جاۓ۔ حضرت علیؓ نے یہ قصہ سنا تو فوراً حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے اور کہا یہ آپ نے کیا فیصلہ کر دیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نکاح کے چھ مہینے بعد اس نے زندہ سلامت بچہ جن دیا، یہ اس کے زانیہ ہونے کا کھلا ثبوت نہیں ہے۔؟ حضرت علیؓ نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تینوں آیتیں ترتیب کے ساتھ پڑھیں۔سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ بلائیں اس باپ کے لیے جو رضاعت کی پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ سورہ لقمان میں فرمایا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔اور سورہ احقاف میں فرمایا اس کے حمل اور اس کا دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے۔ اب اگر تیس مہینوں میں سے رضاعت کے دو سال نکال دیے جائیں تو حمل کے چھ مہینے رہ جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت، جس میں زندہ سلامت بچہ پیدا ہو سکتا ہے، چھ مہینے ہے۔ لہٰذا جس عورت نے نکاح کے چھ مہینے بعد بچہ جنا ہو اسے زانیہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت علیؓ کا یہ استدلال سن کر حضرت عثمانؓ نے فرمایا اس بات کی طرف میرا ذہن بالکل نہ گیا تھا۔ پھر آپ نے عورت کو واپس بلوایا اور اپنا فیصلہ بدل دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ کے استدلال کی تائید حضرت ابن عباسؓ نے بھی کی اور اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے اپنے فیصلے وے رجوع فرما لیا (ابن جریر، احکام القرآن للجصاص، ابن کثیر)۔ ان تینوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں وہ یہ ہیں : (1)جو عورت نکاح کے چھ مہینے سے کم مدت میں صحیح و سالم بچہ (یعنی وہ اسقاط نہ ہو بلکہ وضع حمل ہو) وہ زانیہ قرار پاۓ گی اور اس کے بچے کا نسب اس کے شوہر سے ثابت نہ ہو گا۔ (2) جو عورت نکاح کے چھ مہینے بعد یا اس سے زیادہ مدت میں زندہ سلامت بچہ جنے اس پر زنا کا الزام محض اس ولادت کی بنیاد پر نہیں لگایا جا سکتا، نہ اس کے شوہر کو اس پر تہمت لگانے کا حق دیا جا سکتا ہے، اور نہ اس کا شوہر بچے کے نسب سے انکار کر سکتا ہے۔ بچہ لازماً اسی کا مانا جاۓ گا، اور عورت کو سزا نہ دی جاۓ گی۔ (3) رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس عمر کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ اس کی رضاعی ماں قرار نہیں پاۓ گی اور نہ وہ احکام رضاعت اس پر مترتب ہوں گے جو سورہ نساء آیت 23 میں بیان ہوۓ ہیں۔ اس معاملہ میں امام ابو حنیفہ نے بر سبیل احتیاط دو سال کے بجاۓ ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے تاکہ حرمت رضاعت جیسے نازک مسئلے میں خطا کر جانے کا احتمال باقی نہ رہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ لقمان حاشیہ نمبر 23) اس مقام پر یہ جان لینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ جدید ترین طبی تحقیقات کی رو سے ماں کے پیٹ میں ایک بچہ کو کم از کم 28 ہفتے درکار ہوتے ہیں جن میں وہ نشو و نما پاکر زندہ ولادت کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ مدت ساڑھے چھ مہینے سے زیادہ بنتی ہے۔ اسلامی قانون میں نصف مہینے کے قریب مزید رعایت دی گئی ہے، کیونکہ ایک عورت کا زانیہ قرار پانا اور ایک بچہ کا نصب سے محروم ہو جانا بڑا سخت معاملہ ہے اور اس کی نزاکت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ماں اور بچے دونوں اس کے قانونی نتائج سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش دی جائے۔ علاوہ بریں کسی طبیب، قاضی حتی کہ خود حاملہ عورت اسے بار ور کرنے والے مرد کو بھی ٹھیک ٹھیک یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ استقرار حمل کس وقت ہوا ہے۔ یہ بات بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ حمل کی کم سے کم قانونی مدت کے تعین میں چند روز کی مزید گنجائش رکھی جائے |