Ayats Found (11)
Surah 2 : Ayat 148
وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَاۖ فَٱسْتَبِقُواْ ٱلْخَيْرَٲتِۚ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
ہر ایک کے لیے ایک رُخ ہے، جس کی طرف وہ مڑتا ہے پس بھلا ئیوں کی طرف سبقت کرو1 جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پا لے گا اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں
1 | پہلے فقرے اور دُوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے، جسے سامع خود تھوڑے سے غور و فکر سے بھر سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز جسے پڑھنی ہوگی، اسے بہرحال کسی نہ کسی سمت کی طرف رُخ کرنا ہی ہوگا۔ مگر اصل چیز وہ رُخ نہیں ہے، جس طرف تم مُڑتے ہو، بلکہ اصل چیز وہ بھلائیاں ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے تم نماز پڑھتے ہو۔ لہٰذا سَمْت اور مقام کی بحث میں پڑنے کے بجائے تمہیں فکر بھلائیوں کے حصُول ہی کی ہونی چاہیے |
Surah 3 : Ayat 114
يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٲتِ وَأُوْلَـٰٓئِكَ مِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیں
Surah 3 : Ayat 115
وَمَا يَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوهُۗ وَٱللَّهُ عَلِيمُۢ بِٱلْمُتَّقِينَ
اور جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی نا قدری نہ کی جائے گی، اللہ پرہیزگار لوگوں کو خوب جانتا ہے
Surah 5 : Ayat 52
فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَـٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُواْ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّواْ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَـٰدِمِينَ
تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں 1"ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں" مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا2 تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے
2 | یعنی فیصلہ کُن فتح سے کم درجہ کی کوئی ایسی چیز جس سے عموماّ لوگوں کو یہ یقین ہو جائے کہ ہار جیت کا آخری فیصلہ اسلام ہی کے حق میں ہو گا |
1 | اُس وقت تک عرب میں کفر اور اسلام کی کشمکش کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ اسلام اپنے پیرووں کی سرفروشیوں کے سبب سے ایک طاقت بن چکا تھا لیکن مقابل کی طاقتیں بھی زبر دست تھیں۔ اسلام کی فتح کا جیسا امکان تھا ویسا ہی کفر کی فتح کا بھی تھا۔ اس لیے مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے یہُودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط و ضبط رکھنا چاہتے تھے تاکہ یہ کشمکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جائے پناہ محفوظ رہے۔ علاوہ بریں اُس وقت عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی معاشی قوت سب سے زیادہ تھی۔ ساہوکارہ بیشتر انہی کے ہاتھ میں تھا۔ عرب کے بہترین سرسبز و شاداب خطے ان کے قبضہ میں تھے۔ ان کی سُود خواری کا جال ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ لہٰذا معاشی اسباب کی بنا پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے سابق تعلقات برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کشمکش میں ہمہ تن منہمک ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے جن کے ساتھ اسلام اس وقت بر سرِپیکار ہے تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے خطر ناک ہو گا |
Surah 21 : Ayat 73
وَجَعَلْنَـٰهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِمْ فِعْلَ ٱلْخَيْرَٲتِ وَإِقَامَ ٱلصَّلَوٲةِ وَإِيتَآءَ ٱلزَّكَوٲةِۖ وَكَانُواْ لَنَا عَـٰبِدِينَ
اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے1
1 | حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے اس اہم واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے ۔ نمرود سے ان کی مد بھیڑ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش ، بت پرستی کے خلاف ان کی جدو جہد ، آگ میں ڈالے جانے کا قصہ ، اور بالآخر ملک چھوڑ نے پر مجبور ہونا ، ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب ’’پیدائش‘‘ کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے ، مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے ۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیمؑ کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں ، پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا (باب 11 ۔ آیات 27 تا 32 )۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کرجابسا (باب ۱۱۔آیات ۲۷تا۳۲)۔اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابرہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران میں بس جا اور ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا، سو تو باعث برکت ہو، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ‘‘ (باب 12 ۔ آیت 1 ۔3)۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی ۔ تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں ۔ مگر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے ، بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کر سکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بے جوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیمؑ کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے ، توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستاں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جاۓ جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں ۔ تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے ۔ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں 10 سال تک وہ رہے ۔ گیارھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوحؑ کے پاس پہنچا دیا اور 39 سال تک وہ حضرت نوحؑ اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے ۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیمؑ نےاپنی سگی بھتیجی سارہ سے نکاح کرلیاجو عمر میں ان سے ۴۲ سال چھوٹی تھی (بائیبل اس کی تصریح نہیں کرتی کہ سارہ حضرت کی بھتیجی تھی نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف 10 سال بتاتی ہے ۔ پیدائش ۔ باب 11 ۔آیت 29 ۔ اور بابا 17 ۔ آیت 17 ) ۔ پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ کر اپنے باپ کے ہاں آ گئے ۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے 12 بت رکھے ہیں ۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پاکر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا ۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرودکے پاس پینچا اورشکایت کی کہ ۵۰ برس پہلے میرے ہاں جو لڑکا پیداہوا تھا آج اس نے میرے گھر میں حرکت کی ہے آپ اس کا فیصلہ کیجیے۔ نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی۔ انہوں نے سخت جوابات دیے ۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے ۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے ۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیمؑ اس میں پھینک دیے گئے ۔ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر، حاران کو بھی پھینکا گیا، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہو گیا مگر حضرت ابراہیمؑ کو لوگوں نے دیکھا کہ ’’ آسمانی خدا کے بندے ، آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہو جا‘‘۔ حضرت ابراہیم باہر آ گئے ۔ نمرود ان کا معتقد ہو گیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کر دیا۔ اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیمؑ دو سال تک وہاں رہے ۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا، اسے قتل کرا دے ۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے ، مگر حضرت ابراہیمؑ کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام ، الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیمؑ نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی۔وہاں تارح آکر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے ۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا ۔ چنانچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر اُر سے حارن چلا گیا۔ (منتخبات تلمو د از ایچ پولونو، لندن ۔ صفحہ 30 تا 42 ۔ )۔ کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے ؟ |
Surah 21 : Ayat 90
فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ وَوَهَبْنَا لَهُۥ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُۥ زَوْجَهُۥٓۚ إِنَّهُمْ كَانُواْ يُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٲتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًاۖ وَكَانُواْ لَنَا خَـٰشِعِينَ
پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا1 یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دَوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے2
2 | اس سیاق و سباق میں انبیاء کا ذکر جس مقصد کے لیے کیا گیا ہے اسے پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے حضرت زکریاؑ کے واقعے کا ذکر کرنے سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود کہ یہ سارے نبی محض بندے اور انسان تھے ، اُلوہیت کا ان میں شائبہ تک نہ تھا۔ دوسروں کو اولاد بخشنے والے نہ تھے بلکہ خود اللہ کے اولاد کے لیے ہاتھ پھیلانے والے تھے ۔ حضرت یونس کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ایک نبی اولو العزم ہونے کے باوجود جب ان سے قصور سرزد ہوا تو انہیں پکڑ لیا گیا۔ اور جب وہ اپنے رب کے آگے جھک گئے تو ان پر فضل بھی ایسا کیا گیا کہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکال لائے گئے ۔ حضرت ایوبؑ کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ نبی کا مبتلائے مصیبت ہونا کوئی نرالی بات نہیں ہے ، اور نبی بھی جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو خد ہی کے آگے شفا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے ۔ وہ دوسروں کوشفا دینے والا نہیں ، خدا سے شفا مانگنے والا ہوتا ہے ۔ پھر ان سب باتوں کے ساتھ ایک طرف یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ یہ سارے انبیاء توحید کے قائل تھے ، اور اپنی حاجات ایک خدا کے سوا کسی کےسامنے نہ لے جاتے تھے ، اور دوسری طرف یہ بھی جتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ غیر معمولی طور پر اپنی نبیوں کی مدد کرتا رہا ہے ، آغاز میں خواہ کیسی ہی آزمائشوں سے ان کو سابق پیش آیا ہو مگر آخر کار ان کی دعائیں معجزانہ شان کے ساتھ پوری ہوئی ہیں |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران آیات 37 تا 41 مع حواشی۔ جلد سوم، مریم، آیات 2 تا 15 مع حواشی ۔ بیوی کو درست کر دینے سے مراد ان کا بانجھ پن دور کر دینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قبل بنا دینا ہے ۔ ’’ بہترین وارث تو تو ہی ہے ‘‘ ، یعنی تُو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں ، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے |
Surah 23 : Ayat 56
نُسَارِعُ لَهُمْ فِى ٱلْخَيْرَٲتِۚ بَل لَّا يَشْعُرُونَ
تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے1
1 | اس مقام پر آغاز سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ اسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دہرایا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ’’ فلاح ‘‘ اور ’’خیر ‘‘ اور ’’ خوش حالی‘‘ کا ایک محدود مادی تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھا نا، اچھا لباس، اچھا گھر پالیا ، جو مال و اولاد سے نواز دیا گیا، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسوخ و اثر حاصل ہو گیا ، اس نے بس فلاح پالی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ ناکا م و نامراد رہا۔ اس بنیادی غل فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو گۓ ، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہ راست پر ہے ، بلکہ خدا کا محبوب ہے ، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ محروم نظر آ رہا ہے وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا(یا خداؤں ) کے غضب میں گرفتار ہے۔ اس غلط فہمی کو، جو در حقیقت مادہ پرستانہ نقطہ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے ، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے ، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے ، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البرقہ ، آیت 126 ، 212۔ الاعراف 32۔ التوبہ 55۔ 69۔ 85۔ یونس 17۔ ہود 3۔ 27 تا 31۔ 38۔ 39۔ الرعد 26۔ الکہف 28۔ 32 تا 43۔ 103 تا 105۔ مریم 77تا 80۔ طٰہ ، 131 ، 132۔ الانبیاء 44۔ مع حواشی)۔ اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھتے ، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔ اول یہ کہ ’’ انسان کی فلاح‘‘ اس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محض مادی خوش حالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔ دوم یہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہ راست پا ہی نہیں سکتا۔ سوم یہ کہ فی الاصل دار الجزا نہیں بلکہ دار الامتحان ہے۔یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے ، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مل رہی ہے وہ ’’انعام‘‘ ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے بر حق اور صالح اور محبوب رب ہونے کا ثبوت ہے ، اور جس پر جو آفت بھی آ رہی ہے وہ ’’ سزا‘‘ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے ، غیر صالح ہے ، اور مغضوب بار گاہ خداوندی ہے ، یہ سب کچھ در حقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصور حق اور معیار اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالب حقیقت کو اول قدم پریہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا در اصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے ، اور ان ہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کی علامات قرار دے لیا جائے۔ چہارم یہ کہ فلاح کا دامن یقیناً حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، اور بلا شک و ریب یہ ایک حقیقت ہے کہ باطل اور بدی کا انجام خسران ہے۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی فلاح ، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے ، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے ، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں ،انسانی عقل عام (Commonsense) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوع انسانی کے مشرک وجدانی تصورات اس پر گواہی دیتے ہیں۔ پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو ، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو، تو عقل اوور قرآن دونوں کی رو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خد نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے ، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’’انعام ‘‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں ، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سنار اس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پراس کا کامل المعیار ہونا ثابت ہو جائے۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں ، یا پھر اس سوسائٹی کے لیے جس میں صالحین ستاۓ جائیں اور فساق نوازے جائیں |
Surah 23 : Ayat 57
إِنَّ ٱلَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ
جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں1
1 | یعنی وہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور بے فکر ہو کر نہیں رہتے کہ جو دل چاہے کرتے رہیں اور کبھی نہ سوچیں کہ اوپر کوئی کدا بھی ہے جو ظلم اور زیادتی پر پکڑنے والا ہے ، بلکہ ان کے دل میں ہر وقت اس کا خوف رہتا ہے اور وہی انہیں برائیوں سے روکتا رہتا ہے |
Surah 23 : Ayat 61
أُوْلَـٰٓئِكَ يُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٲتِ وَهُمْ لَهَا سَـٰبِقُونَ
بھلائیوں کی طرف دَوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے تو درحقیقت یہ لوگ ہیں
Surah 35 : Ayat 32
ثُمَّ أَوْرَثْنَا ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَاۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِۦ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقُۢ بِٱلْخَيْرَٲتِ بِإِذْنِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ
پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا1 اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے2
2 | یعنی یہ مسلمان سب کے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں: 1)۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے۔یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں۔ اسی لیے ان کو ظالمُ لِنفسہ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چُنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے۔ 2)۔ بیچ کی راس۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم و بیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے۔ فرماں بردار بھی ہیں اور خطا کار بھی۔ اپنے نفس کو بالکل بے لگام تو انہوں نے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے خدا کا مطیع بنانے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ اس کی باگیں ڈھیلی بھی چھوڑ دیتے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح انکی زندگی اچھے اور برے، دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں اس لیے ان کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ 3)۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے۔ یہ وارثین کتاب میں صفِ اول کے لوگ ہیں۔ یہی دراصل اس وراثت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ یہ اتباع کتاب و سنت میں بھی پیش پیش ہیں، خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش، دین حق کی خاطر قربانیاں کرنے میں بھی پیش پیش، اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش۔ یہ دانستہ معصیت کرنے والے نہیں ہیں، اور نا دانستہ کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر متنبہ ہوتے ہی ان کی پیشانیاں شرم سے عرق آلود ہو جاتی ہیں۔ ان کی تعداد امت میں پہلے دونوں گروہوں سے کم ہے اس لیے ان کا آخر میں ذکر کیا گیا ہے اگرچہ وراثت کا حق ادا کرنے کے معاملہ میں ان کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔ ’’یہی بہت بڑا فضل ہے‘‘۔ اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیکیوں میں سبقت کرنا ہی بڑا فضل ہے اور جو لوگ ایسے ہیں وہ امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں۔ اور اس فقرے کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کتاب اللہ کا وارث ہونا اور اس وراثت کے لیے چن لیا جانا بڑا فضل ہے، اور خدا کے تمام بندوں میں وہ بندے سب سے افضل ہیں جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاکر اس انتخاب میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ |
1 | مراد ہیں مسلمان جو پوری نوعِ انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئے ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسے لے کر اٹھیں۔ اگرچہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے۔ مگر جنہوں نے آگے پڑھ کر اسے قبول کر لیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کر لیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں۔ |