Ayats Found (2)
Surah 11 : Ayat 114
وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٲةَ طَرَفَىِ ٱلنَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ ٱلَّيْلِۚ إِنَّ ٱلْحَسَنَـٰتِ يُذْهِبْنَ ٱلسَّيِّـَٔـاتِۚ ذَٲلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّٲكِرِينَ
اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں
Surah 27 : Ayat 11
إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنَۢا بَعْدَ سُوٓءٍ فَإِنِّى غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اِلّا یہ کہ کسی نے قصور کیا ہو1 پھر اگر برائی کے بعد اُس نے بھَلائی سے اپنے فعل کو بدل لیا تو میں معاف کرنے والا مہربان ہوں2
2 | یعنی قصور کرنے والا بھی اگر توبہ کرکے اپنے رویّے کی اصلاح کرلے اور بُرے عمل کے بجائے نیک عمل کرنے لگے تو میرے ہاں اس کےلیےعفو درگزر کا دروازہ کھلا ہے۔ اس موقع پر یہ بات ارشاد فرمانے سے مقصود ایک تنبیہ بھی تھی اور بشارت بھی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نادانستگی میں ایک قبطی کو قتل کرکے مصر سے نکلے تھے۔یہ ایک قصور تھا جس کی طرف لطیف اشارہ فرمایا گیا۔ پھر جس وقت یہ قصوراچانک بلا ارادہ ان سے سرزد ہُواتھا اس کے بعد فوراََ ہی انہوں نے اللہ تعالٰی سے معافی مانگ لی تھی کہ رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی۔ (اے پروردگار میں اپنےنفس پر ظلم کر گزرا مجھے معاف فرمادے)اور اللہ تعالٰی نے اسی وقت انہیں معاف بھی فرمادیاتھا، فغفرلھ (القصص، آیت ۱۶)اب یہاں اُسی معافی کی بشارت انہیں دی گئی ہے۔ گویا مطلب اس تقریر کایہ ہوا کہ اے موسٰٰی، میرے حضور تمہارے لیے ڈرنے کی ایک وجہ تو ضرور ہوسکتی تھی، کیونکہ تم سے ایک قصور سرزد ہوگیا تھا، لیکن جب تم اس برائی کوبھلائی سے بدل چکے ہوتو میرے پاس تمہارے لیے اب مغفرت اور رحمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی سزا دینے کےلیے اس وقت میںنے تمہیں نہیں بلایا ہے بلکہ بڑے بڑے معجزات دےکر میں تمہیں ایک کارِعظیم پر بھیجنے والاہوں |
1 | یہ استثناءمتصل بھی ہوسکتا ہے اور منقطع بھی متصل ہونے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ خوف کی معقول وجہ اگر ہوسکتی ہے تو یہ کہ رسول سے کوئی قصور سرزد ہُوا ہو۔ اور منقطع ہونے کی صورت میں مراد یہ ہوگی کہ میرے حضور تو کسی کو بھی خطرہ نہیں ہے جب تک آدمی قصوروارنہ ہو |