Ayats Found (1)
Surah 73 : Ayat 20
۞ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَىِ ٱلَّيْلِ وَنِصْفَهُۥ وَثُلُثَهُۥ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ مَعَكَۚ وَٱللَّهُ يُقَدِّرُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنَ ٱلْقُرْءَانِۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰۙ وَءَاخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِى ٱلْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِۙ وَءَاخَرُونَ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنْهُۚ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَقْرِضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًاۚ وَمَا تُقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًاۚ وَٱسْتَغْفِرُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُۢ
اے نبیؐ1، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو2، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے3 اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو4 اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہونگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں5، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں6 پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جا سکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو7 اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو 8جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے 9اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے
9 | مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ایکم ما لہ احب الیہ من مال وارثہ؟ ’’تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے‘‘؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ فرمایا اعلموا ما تقولون۔ ’’سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: انما مال احدکم ما قدم و مال وارثہ ما اخر۔ ’’ تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے‘‘۔ (بخاری۔ نسائی۔ مسند ابو یعلیٰ) |
8 | ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، یا بندگان خدا کی مدد ہو، یا رفاہ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ا ول، البقرہ، حاشیہ 267 ۔ المائدہ، حاشیہ 33۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ 16 |
7 | مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوۃ ادا کرنا ہے |
6 | یہاں اللہ تعالی نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ ان دونوں کاموں کو نماز تہجد سے معافی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ما من جالب یجلب طعاماً الی بلد من بلد ان ان المسلمین فیبیعہ لسعر یومیہ الا کانت منزلتہ عند اللہ ثم قرا سول اللہ صلی علیہ وسلم و اخرون یضربون فی الارض ۔ ۔ ۔ ’’جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس روز کے بھاؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہو گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہی آیت پڑھی‘‘ (ابن مردویہ) حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احب الی من ان یا تینی و انا بین شعبتی جبل التمس من فضل اللہ و قرا ھذہ الایۃ ’’جہاد فی سبیل اللہ کے بغد اگر کسی حالت م یں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے ، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی ‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان) |
5 | جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے |
4 | چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرات ہی سے ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا تہجد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگرچہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجد فرض نہیں ، بلکہ نفل ہے، حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا ، کیا اس کے سوا بھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے؟ جواب میں ارشاد ہوا ’’نہیں ، الا کہ تم ا پنی خوشی سے کچھ پڑھو‘‘۔ (بخاری و مسلم) اس آشت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قرات بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قرات کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت، جسم کا پاک ہونا، وضو کرنا، اور ستر چھپانا واجب ن ہیں ہے اور اس میں قیام و قعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں |
3 | ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی کو خطاب کیا گیا تھا۔ اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اس وقت حضورؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر ا کثر صحابہ کرام بھی اس نماز کا اہتمام کرتے تھے |
2 | اگرچہ ابتدائی حکم آدمی رات یا اس سے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں۔ اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ا یک تہائی رہ جاتی تھی |
1 | یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں، حضرت عائشہؓ سے مسند احمد، مسلم ا ور ابو داؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہؓ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے8 مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے کی مدت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے (ابن جریر و ابن ابی حاتم) ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضورؐ کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ ان دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے |