Ayats Found (2)
Surah 3 : Ayat 92
لَن تَنَالُواْ ٱلْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَىْءٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو1، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا
1 | اس سے مقصُود اُن کی اس غلط فہمی کو دُور کرنا ہے جو وہ ”نیکی“ کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصوّر بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ”تشرُّع“ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اُتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹےضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے۔ اس تشرُّع کی اُوپری سطح سے نیچے بالعمُوم یہُودیوں کے بڑے بڑے ”دیندار“ لوگ تنگ دلی، حرض ، بخل ، حق پوشی اور حق فروشی کے عیُوب چھّپائے ہوئے تھے اور رائے عام اُن کو نیک سمجھتی تھی۔ اسی غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے اُنھیں بتایا جا رہا ہے کہ ”نیک انسان“ ہونے کا مقام اُن چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے۔ نیکی کی اصل رُوح خدا کی محبت ہے، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو ، بس وہی بُت ہے اور جب تک اُ س بُت کو آدمی توڑ نہ دے ، نیکی کے دروازے اُس پر بند ہیں۔ اس رُوح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اُس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھُن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں، مگر خدا نہیں کھا سکتا |
Surah 2 : Ayat 158
۞ إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِۖ فَمَنْ حَجَّ ٱلْبَيْتَ أَوِ ٱعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَاۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
یقیناً صفا اور مَروہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے1، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ اِن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے 2اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے او ر وہ اس کی قدر کرنے والا ہے3
3 | یعنی بہتر تو یہ ہے کہ یہ کام دلی رغبت کے ساتھ کرو، ورنہ حکم بجا لانے کے لیے تو کرنا ہی ہوگا |
2 | “صَفَا اور مَرْوَہ مسجدِ حرام کے قریب دو پہاڑیاں ہیں، جن کے درمیان دَوڑنا منجملہ اُن مَناسِک کے تھا، جو اللہ تعالٰی نے حج کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو سکھائے تھے۔ بعد میں جب مکّے اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مُشرکانہ جاہلیّت پھیل گئے، تو صَفَا پر ”اِساف“ اور مَرْوَہ پر ”نائلہ“ کے استھان بنا لیے گئے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسلام کی روشنی اہلِ عرب تک پہنچی ، تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صَفَا اور مَرْوَہ کی سَعْی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا محض زمانہء شرک کی ایجاد ہے، اور یہ کہ سَعْی سے کہیں ہم ایک مشرکانہ فعل کے مرتکب تو نہیں ہوجائیں گے۔ نیز حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ مدینہ کے دِلوں میں پہلے ہی سے سعی بین الصّفا و المَرْوَہ کے بارے میں کراہت موجود تھی، کیونکہ وہ مَناۃ کے معتقد تھے اور اساف و نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ اِنہی وجوہ سے ضروری ہوا کہ مسجدِحرام کو قبلہ مقرر کر نے کے موقع پر اُن غلط فہمیوں کو دُور کر دیا جائے جو صَفَا اور مَرْوَہ کے بارے میں پائی جاتی تھیں ، اور لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان دونوں مقامات کے درمیان سعی کرنا حج کے اصلی مَنَاسِک میں سے ہے اور یہ کہ ان مقامان کا تقدس خدا کی جانب سے ہے، نہ کہ اہلِ جاہلیّت کی من گھڑت |
1 | ذُولحجّہ کی مقرر تاریخوں میں کعبے کی جو زیارت کی جاتی ہے، اس کا نام حج ہے اور ان تاریخوں کے ماسوا دُوسرے کسی زمانے میں جو زیارت کی جائے ، وہ عُمْرَہ ہے |