Ayats Found (24)
Surah 2 : Ayat 33
قَالَ يَـٰٓـــَٔادَمُ أَنۢبِئْهُم بِأَسْمَآئِهِمْۖ فَلَمَّآ أَنۢبَأَهُم بِأَسْمَآئِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّىٓ أَعْلَمُ غَيْبَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ
پھر اللہ نے آدمؑ سے کہا: 1"تم اِنہیں اِن چیزوں کے نام بتاؤ" جب اس نے ان کو اُن سب کے نام بتا دیے، تو اللہ نے فرمایا: "میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں"
1 | یہ مظاہر ہ فرشتوں کے پہلے شبہہ کا جواب تھا۔ گویا اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ میں آدم کو صرف اختیارات ہی نہیں دے رہا ہوں ، بلکہ علم بھی دے رہا ہوں۔ اس کے تقرر سے فساد کا جو اندیشہ تمہیں ہوا وہ اس معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔ دُوسرا پہلو صلاح کا بھی ہے اور وہ فساد کے پہلو سے زیادہ وزنی اور زیادہ بیش قیمت ہے ۔ حکیم کا یہ کام نہیں ہے کہ چھوٹی خرابی کی وجہ سے بڑی بہتری کو نظر انداز ک کر دے |
Surah 3 : Ayat 5
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَىْءٌ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ
زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں1
1 | یعنی وہ کائنات کی تمام حقیقتوں کا جاننے والا ہے۔ لہٰذا جو کتاب اس نے نازل کی ہو، وہ سراسر حق ہی ہونی چاہیے۔ بلکہ خالص حق صرف اسی کتاب میں انسان کو میسر آسکتا ہے، جو اُس علیم و دانا کی طرف سے نازل ہو |
Surah 3 : Ayat 29
قُلْ إِن تُخْفُواْ مَا فِى صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ ٱللَّهُۗ وَيَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اے نبیؐ! لوگوں کو خبردار کر دو کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، اُسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ بہرحال اسے جانتا ہے، زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اُس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے
Surah 5 : Ayat 97
۞ جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلْكَعْبَةَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَامَ قِيَـٰمًا لِّلنَّاسِ وَٱلشَّهْرَ ٱلْحَرَامَ وَٱلْهَدْىَ وَٱلْقَلَـٰٓئِدَۚ ذَٲلِكَ لِتَعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ وَأَنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
اللہ نے مکان محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی (اِس کام میں معاون بنا دیا)1 تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں او ر زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے2
2 | یعنی اگر تم اس انتظام پر غور کرو تو تمہیں خود اپنے ملک کی تمدّنی و معاشی زندگی ہی میں اس امر کی ایک بیّن شہادت مل جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مصالح اور اُن کی ضروریات کا کیسا مکمل اور گہرا علم رکھتا ہے اور اپنے ایک ایک حکم کے ذریعہ سے انسانی زندگی کے کتنے کتنے شعبوں کو فائدہ پہنچا دیتا ہے۔ بد امنی کے یہ سینکڑوں برس جو محمد ؐ ِ عربی کے ظہُور سے پہلے گزرے ہیں، ان میں تم لوگ خود اپنے مفاد سے ناواقف تھے اور اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے، مگر اللہ تمہاری ضرورتوں کو جانتا تھا اور اُس نے صرف ایک کعبہ کی مرکزیّت قائم کر کے تمہارے لیے وہ انتظام کر دیا تھا جس کی بدولت تمہاری قومی زندگی برقرار رہ سکی۔ دُوسری بے شمار باتوں کو چھوڑ کر اگر صرف اسی بات پر دھیان کرو تو تمہیں یقین حاصل ہو جائے کہ اللہ نے جو احکام تمہیں دیے ہیں اُن کی پابندی میں تمہاری اپنی بھلائی ہے اور ان میں تمہارے لیے وہ وہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں جن کو نہ تم خود سمجھ سکتے ہو اور نہ اپنی تدبیروں سے پُورا کر سکتے ہو |
1 | عرب میں کعبہ کی حیثیت محض ایک مقدّس عباد ت گاہ ہی کی نہ تھی بلکہ اپنی مرکزیّت اور اپنے تقدس کی وجہ سے وہی پُورے ملک کی معاشی و تمدّنی زندگی کاسہارا بنا ہوا تھا۔ حج اور عُمرے کے لیے سارا ملک اُس کی طرف کھِنچ کر آتا تھا اور اس اجتماع کی بدولت انتشار کے مارے ہوئے عربوں میں وحدت کا ایک رشتہ پیدا ہوتا، مختلف علاقوں اور قبیلوں کے لوگ باہم تمدّنی روابط قائم کرتے، شاعری کے مقابلوں سے ان کی زبان اور ادب کو ترقی نصیب ہوتی، اور تجارتی لین دین سے سارے ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوتیں۔ حرام مہینوں کی بدولت عربوں کو سال کا پُورا ایک تہائی زمانہ امن کا نصیب ہو جاتا تھا۔ بس یہی زمانہ ایسا تھا جس میں ان کے قافلے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بسہُولت آتے جاتے تھے۔ قربانی کے جانوروں اور قلادوں کی موجودگی سے بھی اس نقل و حرکت میں بڑی مدد ملتی تھی ، کیونکہ نذر کی علامت کے طور پر جن جانوروں کی گردن میں پٹے پڑے ہوتے انہیں دیکھ کر عربوں کی گردنیں احترام سے جُھک جاتیں اور کسی غارت گر قبیلے کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جُرأت نہ ہوتی |
Surah 10 : Ayat 61
وَمَا تَكُونُ فِى شَأْنٍ وَمَا تَتْلُواْ مِنْهُ مِن قُرْءَانٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ وَلَآ أَصْغَرَ مِن ذَٲلِكَ وَلَآ أَكْبَرَ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ مُّبِينٍ
اے نبیؐ، تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سُناتے ہو، اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو اُس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو1
1 | یہاں اس بات کا ذکر کرنے سے مقصود نبی کو تسکین دینا اور نبی کے مخالفین کو متنبہ کرنا ہے۔ ایک طرف نبی سے ارشاد ہو رہا ہے کہ پیغامِ حق کی تبلیغ اور خلق اللہ کی اصلاح میں جس تن دہی و جاں فشانی اور جس صبر و تحمل سے تم کام کر رہے ہو وہ ہماری نظر میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پُرخطر کام پر مامور کر کے ہم نے تم کو تمہارے حال پر چھوڑ دیا ہو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے اُس سے بھی ہم بے خبر نہیں ہیں۔ دوسری طرف نبی کے مخالفین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ ایک داعی حق اور خیرخواہ خلق کی اصلاحی کوششوں میں روڑے اٹکا کر تم کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ کوئی تمہاری ان حرکتوں کو دیکھنے والا نہیں ہے اور کبھی تمہارے ان کرتُوتوں کی باز پرس نہ ہوگی۔ خبردار رہو، وہ سب کچھ جو تم کر رہے ہو، خدا کے دفتر میں ثبت ہو رہا ہے۔ |
Surah 11 : Ayat 123
وَلِلَّهِ غَيْبُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ ٱلْأَمْرُ كُلُّهُۥ فَٱعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے پس اے نبیؐ، تو اس کی بندگی کر اور اسی پر بھروسا رکھ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تیرا رب اس سے بے خبر نہیں ہے1
1 | یعنی کفرواسلام کی اس کشمکش کے دونوں فریق جوکچھ کررہے ہیں وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔ اللہ کی سلطنت کوئی اندھیری جوپٹ راجہ کی مصداق نہیں ہےکہ اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے شہ بےخبر کواس سے کچھ سروکارنہ ہو۔ یہاں حکمت اوربردباری کہ بناپردیر توضرور ہے مگر اندھیرنہیں ہے۔ جولوگ اصلاح کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی محنتیں ضائع نہ ہونگی۔ جنہوں نے اپنا سارازور اس کوشش میںلگا رکھا ہے کہ اصلاح کایہ کام کسی طرح چل نہ سکے، انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے کہ ان کے یہ سارے کرتوت اللہ کےعلم میں ہیں اوران کی پاداش انہیں ضرور بھگتنی پڑے گی۔ |
Surah 11 : Ayat 6
۞ وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَاۚ كُلٌّ فِى كِتَـٰبٍ مُّبِينٍ
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے1، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے
1 | یعنی جس خدا کے علم کا حال یہ ہے کہ ایک ایک چڑیا کا گھونسلہ اور ایک ایک کیڑے کا بِل اس کو معلوم ہے اور وہ اسی کی جگہ پر اس کو سامانِ زیست پہنچا رہا ہے، اور جس کو ہر آن اس کی خبر ہے کہ کونسا جاندار کہاں رہتا ہے اور کہاں اپنی جان جانِ آفریں کے سپر د کر دیتا ہے ، اس کے متعلق اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ اس طرح منہ چھپا چھپا کر یا کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر یا آنکھوں پر پردہ ڈال کر تم اس کی پکڑ سے بچ جاؤ گے تو سخت نادان ہو۔ داعی حق سے تم نے منہ چھپا بھی لیا تو آخر اس کا حاصل کیا ہے؟ کیا خدا سے بھی تم چھپ گئے؟ کیا خدا یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص تمہیں امرِ حق سے آگاہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور تم یہ کوشش کر رہے ہو کہ کسی طرح اس کی کوئی بات تمہارے کان میں نہ پڑنے پائے؟ |
Surah 14 : Ayat 38
رَبَّنَآ إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِى وَمَا نُعْلِنُۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى ٱللَّهِ مِن شَىْءٍ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ
پروردگار، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور 2جو کچھ ظاہر کرتے ہیں" اور 2واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں
2 | یہ جملہ معتر ضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے قول کی تصدیق میں فرمایا ہے |
1 | یعنی خدا یا جو کچھ میں زبان سے کہہ رہا ہوں وُہ بھی تُو سُن رہا ہے اور جو جذبات میرے دل میں چھُپے ہوئے ہیں اُن سے بھی تُو واقف ہے |
Surah 16 : Ayat 77
وَلِلَّهِ غَيْبُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ وَمَآ أَمْرُ ٱلسَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ ٱلْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے1 اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بلکہ اس سے بھی کچھ2 کم حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے
2 | یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مُدّت میں واقع نہ ہوگی، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دُور سے اس کو آتے دیکھو گے کہ سنبھل سکو اور کچھ اس کے لیے تیاری کر سکو۔ وہ تو کسی روزاچانک چشم ِزدن میں، بلکہ اس سے بھی کم مدّت میں آجائے گی۔ لہٰذا جس کوغور کرنا ہو سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، اوراپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہو جلدی کر لے۔ کسی کو اس بھروسے پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کر لیں گے۔۔۔۔۔۔ توحید کی تقریر کے درمیان یکایک قیامت کا یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ توحید اور شرک کے درمیان کسی ایک عقیدے کے انتخاب کے سوال کو محض ایک نظری سوال نہ سمجھ بیٹھیں۔اُنہیں یہی احساس رہنا چاہیے کہ ایک فیصلے کی گھڑی کسی نامعلوم وقت پراچانک آجانے والی ہےاوراُس وقت اِسی انتخاب کے صحیح یا غلط ہونے پرآدمی کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہو گا۔ اس تنبیہ کے بعد پھر وہی سلسلہ ٔتقریر شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا۔ |
1 | بعد کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل جواب ہے کفارِمکّہ کے اُس سوال کا جو وہ اکثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی وہ قیامت آنے والی ہے جس کی تم ہمیں خبر دیتے ہو تو آخر وہ کس تاریخ کو آئے گی۔ یہاں اُن کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ |
Surah 17 : Ayat 55
وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۗ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ ٱلنَّبِيِّــۧنَ عَلَىٰ بَعْضٍۖ وَءَاتَيْنَا دَاوُۥدَ زَبُورًا
تیرا رب زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے1، اور ہم نے ہی داؤدؑ کو زبور دی تھی2
2 | یہاں خاص طور پر داؤد علیہ السلام کی زبور دیے جانے کا ذکر غالباً اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے، اور بادشاہ بالعموم خدا سے زیادہ دور ہوا کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین جس وجہ سے آپ کی پیغمبری وخدا رسیدگی ماننے سے انکار کرتے تھے وہ ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ تھی کہ آپ عام انسانوں کی طرح بیوی بچے رکھتے تھے، کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چل پھر کر خریدوفروخت کرتے تھے، اور وہ سارے ہی کام کرتے تھے جو کوئی دنیا دار آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے کیا کرتے ہے۔ کفار مکہ کا کہنا یہ تھا کہ تم تو ایک دنیا دار آدمی ہو۔ تمہیں خدا رسیدگی سے کیا تعلقِ پہنچے ہوئے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنےتن بدن کا ہوش بھی نہیں ہوتا، بس ایک گوشے میں بیٹھے اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں۔ وہ کہاں اور گھر کےآٹے دال کی فکر کہاں! اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ایک پوری بادشاہت کے انتظام سے بڑھ کر دنیا داری اور کیا ہوگی۔ مگر اس کے باوجود داؤد کو نبوت اور کتاب سے سرفراز کیا گیا۔ |
1 | اس فقرے کہ اصل مخاطب کفار مکہ ہیں، اگرچہ بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔جیسا کہ معاصرین کا بالعموم قاعدہ ہوتاہے، آنحضرت ؐ کے ہم عصر اور ہم قوم لوگوں کےآپ کے اندر کوئی فضل و شرف نظر نہ آتا تھا۔ وہ آپ کو اپنی بستی کا ایک معمولی انسان سمجھتے تھے، اور جن مشہور شخصیتوں کو گزرے ہوئے چند صدیاں گزر چکی تھیں، ان کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ عظمت تو بس اُن پر ختم ہو گئی ہے۔ اس لیے آپ کی زبان سے نبوت کا دعوٰی سُن کر وہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص دوں کی لیتا ہے، اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھا ہے، بھلا کہاں یہ اور کہاں اگلے وقتوں کے وہ بڑے بڑے پیغمبر جن کی بزرگی کا سکہ ایک دنیا مان رہی ہے۔ اس کا مختصر جواب اللہ تعالٰی نے یہ دیا ہے کہ زمین اور آسمان کی ساری مخلوق ہماری نگاہ میں ہے۔ تم نہیں جانتے کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ اپنے فضل کے ہم خود مالک ہیں اور پہلے بھی ایک سے ایک بڑھ کر عالی مرتبہ نبی پیدا کر چکے ہیں۔ |