Ayats Found (2)
Surah 36 : Ayat 13
وَٱضْرِبْ لَهُم مَّثَلاً أَصْحَـٰبَ ٱلْقَرْيَةِ إِذْ جَآءَهَا ٱلْمُرْسَلُونَ
اِنہیں مثال کے طور پر اُس بستی والوں کا قصہ سناؤ جبکہ اُس میں رسول آئے تھے1
1 | قدیم مفسرین بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہر انطاکیہ ہے اور جن رسولوں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اُنہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تبلیغ کے لیے بھیجا تھا۔ اس سلسلے میں قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اُن میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا لیکن یہ سارا قصّہ ابن عبّاس، قتادہ، عِکرِمہ، کَعب اَحْبار اور وہب بن مُنَبِہّ وغیرہ بزرگوں نے عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے اخذ کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے بالکل بے بنیاد ہے ۔ انطاکیہ میں سلوتی خاندان (Saleucid dynasty)کے 13 بادشاہ انتیوکس (Antiochus)کے نام سے گزرے ہیں اور اس نام کے آخری فرمانروا کی حکومت، بلکہ خود اس خاندان کی حکومت بھی 65 قبل مسیح میں ختم ہو گئی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انطاکیہ سمیت شام فلسطین کا پورا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا۔ پھر عیسائیوں کی کسی مستند روایت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں میں سے کسی کو تبلیغ کے لیے انطاکیہ بھیجا ہو۔ اس کے برعکس بائیبل کی کتاب اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ صلیب کے چند سال بعد عیسائی مبلغین پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہو، نہ اللہ کے رسول نے معمور کیا ہو، وہ اگر بطور خود تبلیغ کے لیے نکلے ہوں تو کسی تاویل کی رو سے بھی وہ اللہ کے رسول قرار نہیں پا سکتے۔علاوہ بریں بائیبل کے بیان کی رو سے انطاکیہ پہلا شہر ہے جہاں کثرت سے غیر اسرائیلیوں نے دین مسیح کو قبول کیا اور مسیحی کلیسا کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی۔ حالانکہ قرآن جس بستی کا ذکر یہاں کر رہا ہے وہ کوئی ایسی بستی تھی جس نے رسولوں کی دعوت کو رد کر دیا اور بالآخر عذابِ الہٰی کی شکار ہوئی۔ تاریخ میں اس امر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انطاکیہ پر ایسی کوئی تباہی نازل ہوئی جسے انکارِ رسالت کی بنا پر عذاب قرار دیا جا سکتا ہو۔ ان وجوہ سے یہ بات نا قابِل قبول ہے کہ اس بستی سے مراد انطاکیہ ہے ۔ بستی کا تعین نہ قرآن میں کیا گیا ہے، نہ کسی صحیح حدیث میں، بلکہ یہ بات بھی کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہیں ہوتی کہ یہ رسول کون تھے اور کس زمانے میں بھیجے گئے تھے ۔ قرآن مجید جس غرض کے لیے یہ قصّہ یہاں بیان کر رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے بستی کا نام اور رسولوں کے نام معلوم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔قصے کے بیان کرنے کی غرض قریش کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ تم ہٹ دھرمی، تعصُّب اور انکارِ حق کی اسی روش پر چل رہے ہو جس پر اُس بستی کے لوگ چلے تھے، اور اسی انجام سے دوچار ہونے کی تیاری کر رہے ہو جس سے وہ دوچار ہوئے۔ |
Surah 36 : Ayat 29
إِن كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَٲحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَـٰمِدُونَ
بس ایک دھماکہ ہوا اور یکایک وہ سب بجھ کر رہ گئے1
1 | ان الفاظ میں ایک لطیف طنز ہے۔اپنی طاقت پر ان کا گھمنڈ اور دینِ حق کے خلاف ان کا جوش و خروش گویا ایک شعلۂ جوّالہ تھا جس کے متعلق اپنے زعم میں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ان تینوں انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کو بھسم کر ڈالے گا۔ لیکن اس شعلے کی بساط اس سے زیادہ کچھ نہ نکلی کہ خدا کے عذاب کی ایک ہی چوٹ نے اس کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا۔ |