Ayats Found (1)
Surah 57 : Ayat 27
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰٓ ءَاثَـٰرِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ وَءَاتَيْنَـٰهُ ٱلْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِى قُلُوبِ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ٱبْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَـٰهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ٱبْتِغَآءَ رِضْوَٲنِ ٱللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَاۖ فَـَٔـاتَيْنَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنْهُمْ أَجْرَهُمْۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَـٰسِقُونَ
اُن کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے، اور ان سب کے بعد عیسیٰؑ ابن مریم کو مبعوث کیا اور اُس کو انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی اُن کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا1 اور رہبانیت2 انہوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی3 اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا4 اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں
4 | یعنی وہ دہری غلطی میں مبتلا ہو گۓ۔ ایک غلطی یہ کہ اپنے اوپر وہ پابندیاں عائد کیں جن کا اللہ نے کوئی حکم نہ دیا تھا۔ اور دوسری غلطی یہ کہ جن پابندیوں کو اپنے نزدیک اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھ کر خود اپنے اوپر عائد کر بیٹھے تھے ان کا حق ادا نہ کیا اور وہ حرکتیں کیں جن سے اللہ کی خوشنودی کے بجاۓ الٹا اس کا غضب مول لے بیٹھے ۔ اس مقام کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ایک نظر مسیحی رہبانیت کی تاریخ پر ڈال لینی چاہیے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دو سو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے نا آشنا تھا۔ مگر ابتدا ہی سے مسیحیت میں اس کے جراثیم پاۓ جاتے تھے اور وہ تخیلات اس کے اندر موجود تھے جو اس چیز کو جنم دیتے ہیں ۔ ترک و تجرید کو اخلاقی آئیڈیل قرار دینا اور درویشانہ کو شادی بیاہ اور دنیوی کاروبار کی زندگی کے مقابلے میں اعلیٰ و افضل سمجھنا ہی رہبانیت کی بنیاد ہے ، اور یہ دونوں چیزیں مسیحیت میں ابتدا سے موجود تھیں ۔ خصوصیت کے ساتھ تجرد کو تقدس کا ہم معنی سمجھنے کی وجہ سے کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے لیے یہ بات نا پسند دیدہ خیال کی جاتی تھی کہ وہ شادی کریں ، بال بچوں والے ہوں اور خانہ داری کے بکھیڑوں میں پڑیں ۔ اسی چیز نے تیسری صدی تک پہنچتے پہنچتے ایک فتنے کی شکل اختیار کر لی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح مسیحیت میں پھیلنی شروع ہوئی۔ تاریخی طور پر اس کے تین بڑے اسباب تھے : ایک یہ کہ قدیم مشرک سوسائٹی میں شہوانیت، بد کرداری اور دنیا پرستی جس شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی اس کا توڑ کرنے کے لیے عیسائی علماء نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے بجاۓ انتہا پسندی کی راہ اختیار کی۔ انہوں نے عفت پر اتنا زور دیا کہ عورت اور مرد کا تعلق بجاۓ خود نجس قرار پا گیا، خواہ وہ نکاح ہی کی صورت میں ہو۔ انہوں نے دنیا پرستی کے خلاف اتنی شدت برتی کہ آخر کار ایک دین دار آدمی کے لیے سرے سے کسی قسم کی املاک رکھنا ہی گناہ بن گیا اور اخلاق کا معیار یہ ہو گیا کہ آدمی بالکل مفلس اور ہر لحاظ سے تارک الدنیا ہو۔ اسی طرح مشرک سوسائٹی کی لذت پرستی کے جواب میں وہ اس انتہا پر جا پہچے کہ ترک الذات، نفس کو مارنا اور خواہشات کا قلع قمع کر دینا اخلاق کا مقصود بن گیا، اور طرح طرح کی ریاضتوں سے جسم کو اذیتیں دینا آدمی کی روحانیت کا کمال اور اس کا ثبوت سمجھا جانے لگا۔ دوسرے یہ کہ مسیحیت جب کامیابی کے دور میں داخلہ و کر عوام میں پھیلنی شروع ہوئی تو اپنے مذہب کی توسیع و اشاعت کے شوق میں کلیسا ہر اس برائی کو اپنے دائرے میں داخل کرتا چلا گیا جو عام لوگوں میں مقبول تھی۔ اولیاء پرستی نے قدیم معبودوں کی جگہ لے لی۔ ہورس (Horus) اور آئسس (Isis) کے مجسموں کی جگہ مسیح اور مریم کے بت پوجے جانے لگے ۔ سیٹرنیلیار (Saturnalia) کی جگہ کرسمس کا تہوار منایا جانے لگا۔ قدیم زمانے کے تعویذ گنڈے ، عملیات، فال گیری و غیب گوئی جن بھوت بھگانے کے عمل، سب عیسائی درویشوں نے شروع کر دیے ۔ اسی طرح چونکہ عوام اس شخص کو خدا رسیدہ سمجھتے تھے جو گندا اور ننگا ہو اور کسی بھٹ یا کھوہ میں رہے ، اس لیے عیسائی کلیسا میں ولایت کا یہی تصور مقبول ہو گیا اور ایسے ہی لوگوں کی کرامتوں کے قصوں سے عیسائیوں کے ہاں تذکرۃ الاولیاء قسم کی کتابیں لبریز ہو گئیں ۔ تیسرے یہ کہ عیسائیوں کے پاس دین کی سرحدیں متعین کرنے کے لیے کوئی مفصل شریعت اور کوئی واضح سنت موجود نہ تھی۔ شریعت موسوی کو وہ چھوڑ چکے تھے ، اور تنہا انجیل کے اندر کوئی مکمل ہدایت نامہ نہ پایا جاتا تھا۔ اس لیے مسیحی علماء کچھ باہر کے فلسفوں اور طور طریقوں سے متاثر ہو کر اور کچھ خود اپنے رجحانات کی بنا پر طرح طرح کی بدعتیں دین میں داخل کرتے چلے گۓ۔ رہبانیت بھی انہی بدعتوں میں سے ایک تھی۔ مسیحی مذہب کے علماء اور ائمۃ نے اس کا فلسفہ اور اس کا طریق کا ر بدھ مذہب کے بھکشوؤں سے ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں سے ، قدیم مصری فقراء (Anchorites) سے ، ایران کے مانویّوں سے ، اور افلا طینوس کے پیرو اشراقیوں سے اخذ کیا اور اسی کو تزکیہ نفس کا طریقہ، روحانی ترقی کا ذریعہ، اور تقرب الی اللہ کا وسیلہ قرار دے لیا۔ اس غلطی کے مرتکب کوئی معمولی درجہ کے لوگ نہ تھے ۔ تیسری صدی سے ساتویں صدی عیسوی(یعنی نزول قرآن کے زمانے ) تک جو لوگ مشرق اور مغرب میں مسیحیت کے اکابر علماء، بزرگ ترین پیشوا اور امام مانے جاتے ہیں ، سینٹ اَتھانا سیوس، سینٹ باسل، سینٹ گریگوری نازیا نزین، سینٹ کرائی سُوسٹم، سینٹ اَیمبروز، سینٹ جیروم، سینٹ آگسٹائن، سینٹ بینیڈکٹ، گریگوری اعظم، سب کے سب خود راہب اور رہبانیت کے زبردست علمبردار تھے ۔ انہی کی کوششوں سے کلیسا میں رہبانیت نے رواج پایا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کا آغاز مصر سے ہوا۔ اس کا بانی سینٹ اینتُھنی (St. Anthony) تھا جو 250 ء میں پیدا ہوا اور 350 ء میں دنیا سے رخصت ہوا۔ اسے پہلا مسیحی راہب قرار دیا جاتا ہے ۔ اس نے فَیُّوم کے علاقے میں پَسپیر کے مقام پر (جواب دیرالیمون کے نام سے معروف ہے ، پہلی خانقاہ قائم کی۔ اس کے بعد دوسری خانقاہ اس نے بحر احمر کے ساحل پر قائم کی جسے اب دیر مارُانْطُونیوس کہا جاتا ہے ۔ عیسائیوں میں رہبانیت کے بنیادی قواعد اس کی تحریروں اور ہدایات سے ماخوذ ہیں ۔ اس آغاز کے بعد یہ سلسلہ مصر میں سیلاب کی طرح پھیل گیا اور جگہ جگہ راہبوں اور راہبات کے لیے خانقاہی قائم ہو گئیں جن میں سے بعض میں تین تین ہزار راہب بیک وقت رہتے تھے ۔ 325 ء میں مصر ہی کے اندر ایک اور مسیحی ولی پاخوہیوس نمودار ہوا جس نے دس بڑی خانقاہیں راہبین و راہبات کے لیے بنائیں ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شام و فلسطین اور افیقہ و یوروپ کے مختلف ملکوں میں پھیلتا چلا گیا۔ کلیسائی نظام کو اول اول اس رہبانیت کے معاملہ میں سخت الجھن سے سابقہ پیش آیا، کیونکہ وہ ترک دنیا اور تجرد اور غریبی و مفلسی کو روحانی زندگی کا آئیڈیل تو سمجھتا تھا، مگر راہبوں کی طرح شادی بیاہ اور اولاد پیدا کرنے اور ملکیت رکھنے کو گناہ بھی نہ ٹھیرا سکتا تھا۔ بالآخر سینٹ اَتھانا ہیوس (متوفی 373 ء) سینٹ باسِل (متوفی 379 ء)، سینٹ آگسٹائن (متوفی 430 ء)اور گریگوری اعظم (متوفی 609 ء) جیسے لوگوں کے اثر سے رہبانیت کے بہت سے قواعد چرچ کے نظام میں باقاعدہ داخل ہو گۓ۔ اس راہبانہ بدعت کی چند خصوصیات تھیں جنہیں ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں : (1)سخت ریاضتوں اور نت نۓ طریقوں سے اپنے جسم کو اذیتیں دینا۔ اس معاملہ میں ہر راہب دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ عیسائی اولیاء کے تذکروں میں ان لوگوں کے جو کمالات بیان کیے گۓ ہیں وہ کچھ اس قسم کے ہیں : اسکندریہ کاسینٹ مکاریوس ہر وقت اپنے جسم پر 80 پونڈ کا بوجھ اٹھاۓ رکھتا تھا۔ 6 مہینے تک وہ ایک دلدل میں سوتا رہا اور زہریلی مکھیاں اس کے برہنہ جسم کو کاٹتی رہیں ۔ اس کے مرید سینٹ یوسیبیوس نے پِیْر سے بھی بڑھ کر ریاضت کی۔ وہ 150 پونڈ کا بوجھ اٹھاۓ پھرتا تھا اور 3 سال تک ایک خشک کنویں میں پڑا رہا۔ سینٹ سابیوس صرف وہ مکئی کھاتا تھا جو مہینہ بھر پانی میں بھیگ کر بدبو دار ہو جاتی تھی۔ سینٹ بیساریون 40 دن تک خاردار جھاڑیوں میں پڑا رہا اور 40 سال تک اس نے زمین کو پیٹھ نہیں لگائی۔ سینٹ پا خومیوس نے 15 سال، اور ایک روایت کے مطابق پچاس سال زمین کو پیٹھ لگاۓ بغیر گزار دیے ۔ ایک ولی سینٹ جان تین سال تک عبادت میں کھڑا رہا۔ اس پوری مدت میں وہ نہ کبھی بیٹھا نہ لیٹا۔ آرام کے لیے جس ایک چٹان کا سہارا لے لیتا تھا اور اس کی غذا صرف وہ تبرک تھا جو ہر اتوار کو اس کے لیے لایا جاتا تھا۔ سینٹ سِیمیون اِسٹائلائٹ (390 ء 449 ء) جو عیسائیوں کے اولیاۓ کبار میں شمار ہوتا ہے ، ہر ایسٹر سے پہلے پورے چالیس دن فاقہ کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ پورے ایک سال تک ایک ٹانگ پر کھڑا رہا۔ بسا اوقات وہ اپنی خانقاہ سے نکل کر ایک کنویں میں جا رہتا تھا۔ آخر کار اس نے شمالی شام کے قلعہ سیمان کے قریب 60 فیٹ بلند ایک ستون بنوایا جس کا بالائی حصہ صرف تین فیٹ کے گھیر میں تھا اور اوپر کٹہرا بنا دیا گیا تھا۔ اس ستون پر اس نے پورے تیس سال گزار دیے ۔ دھوپ، بارش، سردی، گرمی سب اس پر سے گزرتی رہتی تھیں اور وہ کبھی ستون سے نہ اترتا تھا۔ اس کے مرید سیڑھی لگا کر اس کو کھانا پہنچاتے اور اس کی گندگی صاف کرتے تھے ۔ پھر اس نے ایک رسی لے کر اپنے آپ کو اس ستوں سے باندھ لیا یہاں تک کہ رسی اس کے گوشت میں پیوست ہو گئی، گوشت سڑ گیا اور اس میں کیڑے پڑ گۓ۔ جب کوئی کیڑا اس کے پھوڑوں گر جاتا تو وہ اسے اٹھا کر پھر پھوڑے ہی میں رکھ لیتا اور کہتا ’’کھا جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے ‘‘ مسیحی عوام دور دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے تھے ۔ جب وہ مرا تو مسیحی عوام کا فیصلہ یہ تھا کہ وہ عیسائی ولی کی بہترین مثال تھا۔ اس دور کے عیسائی اولیاء کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں وہ ایسی ہی مثالوں سے بھری پری ہیں ۔ کسی ولی کی تعریف یہ تھی کہ 30 سال تک وہ بالکل خاموش رہا ور کبھی اسے بولتے نہ دیکھا گیا۔ کسی نے اپنے آپ کو ایک چٹان سے باندھ رکھا تھا۔ کوئی جنگلوں میں مارا مارا پھرتا اور گھاس پھونس کھا کر گزارا کرتا۔ کوئی بھاری بوجھ ہر وقت اٹھاۓ پھرتا۔ کوئی طوق و سلاسل سے اپنے اعضا جکڑے رکھتا۔ کچھ حضرات جانوروں کے بھٹوں ، یا خشک کنوؤں ، یا پرانی قبروں میں رہتے تھے ۔ اور کچھ دوسرے بزرگ ہر وقت ننگے رہتے اور اپنا ستر اپنے لمبے لمبے بالوں سے چھپاتے اور زمین پر رینگ کر چلتے تھے ۔ ایسے ہی ولیوں کی کرامات کے چرچے ہر طرف پھیلے ہوۓ تھے اور ان کے مرنے کے بعد ان کی ہڈیاں خانقاہوں میں محفوظ رکھی جاتی تھیں ۔ میں نے خود کوہ سینا کے نیچے سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ میں ایسی ہی ہڈیوں کی ایک پوری لائبریری سجی ہوئی دیکھی ہے جس میں کہیں اولیاء کی کھوپڑیاں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں ، کہیں پاؤں کی ہڈیاں ، اور کہیں ہاتھوں کی ہڈیاں ۔ اور ایک ولی کاتو پورا ڈھانچہ ہی شیشے کی ایک الماری میں رکھا ہوا تھا۔ (2) ان کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر وقت گندے رہتے اور صفائی سے سخت پرہیز کرتے تھے ۔ نہانا یا جسم کو پانی لگا نا ان کے نزدیک خدا پرستی کے خلاف تھا۔ جسم کی صفائی کو وہ روح کی نجات سمجھتے تھے ۔ سینٹ اتھاناسیوس بڑی عقیدت کے ساتھ سینٹ اینتُھنی کی یہ خوبی بیان کرتا ہے کہ اس نے مرتے دم تک کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوۓ۔ سینٹ ابراہام جب سے داخل مسیحیت ہوا، پورے 5 سال اس نے نہ منہ دھویا نہ پاؤں ۔ ایک مشہور راہبہ کنواری سلوِیا نے عمر بھر اپنی انگلیوں کے سوا جسم کے کسی حصے پانی نہیں لگنے دیا۔ ایک کانونٹ کی 130 راہبات کی تعریف میں لکھا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوۓ، اور غسل کا تو نام سن کر ہی ان کے بدن پر لرزہ چڑھ جاتا تھا۔ (3) اس رہبانیت نے ازدواجی زندگی کو عملاً بالکل حرام کر دیا اور نکاح کے رشتے کو کاٹ پھینکنے میں سخت بیدردی سے کام لیا۔ چوتھی اور پانچویں صدی کی تمام مذہبی تحریریں اس خیال سے بھری ہوئی ہیں کہ تجرد سب سے بڑی اخلاقی قدر ہے ، اور عفت کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جنسی تعلق سے قطعی احتراز کرے خواہ وہ میاں اور بیوی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔ پاکیزہ روحانی زندگی کا کمال یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی اپنے نفس کو بالکل مار دے اور اس میں جسمانی لذت کی کوئی خواہش تک باقی نہ چھوڑے ۔ ان لوگوں کے نزدیک خواہش کو مار دینا اس لیے ضروری تھا کہ اس سے حیوانیت کو تقویت پہنچتی ہے ، ان کے نزدیک لذت اور گناہ ہم معنی تھے ، حتیٰ کہ مسرت بھی ان کی نگاہ میں خدا فراموشی کی مترادف تھی۔سینٹ باسل ہنسنے اور مسکرانے تک کو ممنوع قرار دیتا ہے ۔ان ہی تصورات کی بنا پر عورت اور مرد کے درمیان شادی کا تعلق ان کے ہاں قطعی نجس قرار پا گیا تھا۔ راہب کے لیے ضروری تھا کہ وہ شادی کرنا تو در کنار، عورت کی شکل تک نہ دیکھے ، اور اگر شادی شدہ ہو تو بیوی کو چھوڑ کر نکل جاۓ۔ مردوں کی طرح عورتوں کے دل میں بھی یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ وہ اگر آسمانی بادشاہت میں داخل ہونا چاہتی ہیں تو ہمیشہ کنواری رہیں ، اور شادی شدہ ہوں تو اپنے شوہروں سے الگ ہو جائیں ۔ سینٹ جِیروم جیسا ممتاز مسیحی عالم کہتا ہے کہ جو عورت مسیح کی خاطر راہبہ بن کر ساری عمر کنواری رہے وہ مسیح کی دلہن ہے اور اس عورت کی ماں کو خدا، یعنی مسیح، کی ساس (Mother-in-law of God) ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ایک اور مقام پر سینٹ جیروم کہتا ہے کہ ’’عفت کی کلہاڑی سے ازدواجی تعلق کی لکڑی کو کاٹ پھینکنا سالک کا اولین کام ہے ’’۔ ان تعلیمات کی وجہ سے مذہبی جذبہ طاری ہونے کے بعد ایک مسیحی مرد یا ایک مسیحی عورت پر اس کا پہلا اثر یہ ہوتا تھا کہ اس کی خوش گوار ازدواجی زندگی ہمیشہ کے لیے ختم کے لیے ختم ہو جاتی تھی۔ اور چونکہ مسیحیت میں طلاق و تفریق کا راستہ بند تھا، اس لیے نکاح کے رشتے میں رہتے ہوۓ میاں اور بیوی ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے تھے ۔ سینٹ نائلس St. Nitus دو بچوں کا باپ تھا۔ جب اس پر رہبانیت کا دورہ پڑا تو اس کی بیوی روتی رہ گئی اور سہ اس سے الگ ہو گیا۔ سینٹ اَمون(St. Ammon) نے شادی کی پہلی رات ہی اپنی دلہن کو ازدواجی تعلق کی نجاست پر وعظ سنایا اور دونوں نے بالاتفاق طے کر لیا کہ جیتے جی ایک دوسرے سے الگ رہیں گے ۔ سینٹ ابراہام شادی کی پہلی رات ہی اپنی بیوی کو چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ یہی حرکت سینٹ ایلیکسس (St. Alexis) نے کی۔ اس طرح کے واقعات سے عیسائی اولیاء کے تذکرے بھرے پڑے ہیں ۔ کلیسا کا نظام تین صدیوں تک اپنے حدود میں ان انتہا پسندانہ تصورات کی کسی نہ کسی طرح مزاحمت کرتا رہا۔ اس زمانے میں ایک پادری کے لیے مجرد ہونا لازم نہ تھا۔ اگر اس نے پادری کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے شادی کر رکھی ہو تو وہ بیوی کے ساتھ رہ سکتا تھا، البتہ تقرر کے بعد شادی کرنا اس کے لیے ممنوع تھا۔ نیز کسی ایسے شخص کو پادری مقرر نہیں کیا جا سکتا تھا جس نے کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کی ہو، یا جس کی دو بیویاں ہوں ، یا جس کے گھر میں لونڈی ہو۔ رفتہ رفتہ چوتھی صدی میں یہ خیال پوری طرح زور پکڑ گیا کہ جو شخص کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دیتا ہو اس کے لیے شادی شدہ ہونا بڑی گھناؤنی بات ہے ۔ 362 ء کی گنگرا کونسل (Council of Gengra) آخری مجلس تھی جس میں اس طرح کے خیالات کو خلاف مذہب ٹھیرایا گیا۔ مگر اس کے تھوڑی ہی مدت بعد 386 ء کی رومن سیناڈ (Synod) نے تمام پادریوں کو مشورہ دیا کہ وہ ازدواجی تعلقات سے کنارہ کش رہیں ، اور دوسرے سال پوپ سائر یکیس(Siricius)نے حکم دے دیا کہ جو پادری شادی کرے ، شادی شدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیوی سے تعلق رکھے ، اس کو اس منصب سے معزول کر دیا جاۓ۔ سینٹ جیروم، سینٹ ایمبروز، اور سینٹ آگسٹائن جیسے اکابر علماء نے بڑے زور شور سے اس فیصلے کی حمایت کی اور ٹھوڑی سے مزاحمت کے بعد مغربی کلیسا میں یہ پوری شدت کے ساتھ نافذ ہو گیا۔ اس دور میں متعدد کو نسلیں ان شکایات پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوئیں کہ جو لوگ پہلے سے شادی شدہ تھے وہ مذہبی خدمات پر مقرر ہونے کے بعد بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ’’ناجائز‘‘ تعلقات رکھتے ہیں ۔آخر کار ان کی اصلاح کے لیے یہ قواعد بناۓ گۓ کہ وہ کھلے مقامات پر سوئیں ، اپنی بیویوں سے کبھی علیحدگی میں نہ ملیں ، اور ان کی ملاقات کے وقت کم از کم دو آدمی موجود ہوں ۔ سینٹ گریگوری ایک پادری کی تعریف میں لکھتا ہے کہ 40 سال تک وہ اپنی بیوی سے الگ رہا حتیٰ کہ مرتے وقت جب اس کی بیوی اس کے قریب گئی تو اس نے کہا، عورت، دور ہٹ جا ! (4) سب سے زیادہ درد ناک باب اس رہبانیت کا یہ ہے کہ اس نے ماں باپ، بھائی بہنوں کی محبت، اور باپ کے لیے اولاد تک سے آدمی کا رشتہ کاٹ دیا۔ مسیحی ولیوں کی نگاہ میں بیٹے کے لیے ماں باپ کی محبت، بھائی کے لیے بھائی بہنوں کی محبت، اور باپ کے لیے اولاد کی محبت بھی ایک گناہ تھی۔ ان نزدیک روحانی ترقی کے لیے یہ نا گزیر تھا کہ آدمی ان سارے تعلقات کو توڑ دے ۔ مسیحی اولیاء کے تذکروں میں اس کے ایسے ایسے دل دوز واقعات ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کے لیے ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایک راہب ایوا گریَس (Evagrius) سالہا سال سے صحرا میں ریاضتیں کر رہا تھا۔ ایک روز یکایک اس کے پاس اس کی ماں اور اس کے باپ کے خطوط پہنچے جو رسوں سے اس کی جدائی میں تڑپ رہے تھے ۔ اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں ان خطوں کو پڑھ کر اس کے دل میں انسانی محبت کے جذبات نہ جاگ اٹھیں ۔ اس نے ان کو کھولے بغیر فوراً آگ میں جھونک دیا۔ سینٹ تھیوڈورس کی ماں اور بہن بہت سے پادریوں کے سفارشی خطوط لے کر اس خانقاہ میں پہنچیں جس میں وہ مقیم تھا اور خواہش کی کہ وہ صرف ایک نظر بیٹے اور بھائی کو دیکھ لیں ۔ مگر اس نے ان کے سامنے آنے تک سے انکار کر دیا۔ سینٹ مارکس (St. Marcus) کی ماں اس سے ملنے کے لیے اس کی خانقاہ میں گئی اور خانقاہ کے شیخ (Abbot) کی خوشامدیں کر کے اس کو راضی کیا کہ وہ بیٹے کو ماں کے سامنے آنے حکم دے ۔ مگر بیٹا کسی طرح ماں سے نہ ملنا چاہتا تھا۔ آخر کار اس نے شیخ کے حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ بھیس بدل کر ماں کے سامنے گیا اور آنکھیں بند کر لیں اس طرح نہ ماں نے بیٹے کو پہچانا، نہ بیٹے نے ماں کی شکل دیکھی۔ ایک اور ولی سینٹ پوئمن(St. Poemen) اور اس کے 6 بھائی مصر کی ایک صحرائی خانقاہ میں رہتے تھے ۔ برسوں بعد ان کی بوڑھی ماں کو ان کا پتہ معلوم ہوا اور وہ ان سے ملنے کے لیے وہاں پہنچی۔ بیٹے ماں کو دور سے دیکھتے ہی بھاگ کر اپنے حجرے میں چلے گۓ اور دروازہ بند کر لیا۔ ماں باہر بیٹھ کر رونے لگی اور اس نے چیخ چیخ کر کہا میں اس بڑھاپے میں اتنی دور چل کر صرف تمہیں دیکھنے آئی ہوں ، تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر میں تمہاری شکلیں دیکھ لوں ۔ کیا میں تمہاری ماں نہیں ہوں ؟ مگر ان ولیوں نے دروازہ نہ کھولا اور ماں سے کہہ دیا کہ ہم تجھ سے خدا کے ہاں ملیں گے ۔ اس سے بھی زیادہ درد ناک قصہ سینٹ سیمیون اِسٹائلاٹٹس (St. Simeon Stylites) کا ہے جو ماں باپ کو چھوڑ کر 27 سال غائب رہا۔ باپ اس کے غم میں مر گیا۔ ماں زندہ بھی بیٹے کی ولایت کے چرچے جب دور و نزدیک پھیل گے تو اس کو پتہ چلا کہ وہ کہاں ہے ۔ بے چاری اس سے ملنے کے لیے اس کی خانقاہ پر پہنچے ۔ مگر وہاں کسی عورت کو داخلے کی اجازت نہ تھی۔ اس نے لاکھ منت سماجت کی کہ بیٹا یا تو اسے اندر بلالے یا باہر نکل کر اسے اپنی صورت دکھا دے ۔ مگر اس ’’ولی اللہ‘‘ نے صاف انکار کر دیا۔ تین رات اور تین دن وہ خانقاہ کے دروازے پر پڑی رہی اور آخر کار وہیں لیٹ کر اس نے جان دے دی۔ تب ولی صاحب نکل کر آۓ۔ ماں کی لاش پر آنسو بہاۓ اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کی۔ ایسی ہی بے دردی ان ولیوں نے بہنوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ برتی۔ ایک شخص کیوٹیس (Mutius) کا قصہ لکھا ہے کہ وہ خوشحال آدمی تھا۔ یکایک اس پر مذہبی جذبہ طاری ہوا اور وہ اپنے 8 سال کے اکلوتے بیٹے کو لے کر ایک خانقاہ میں جا پہنچا۔ وہاں اس کی روحانی ترقی کے لیے ضروری تھا کہ وہ بیٹے کی محبت دل سے نکال دے ۔ اس لیے پہلے تو بیٹے کو اس سے جدا کر دیا گیا۔ پھر اس کی آنکھوں کے سامنے ایک مدت تک طرح طرح کی سختیاں اس معصوم بچے پر کی جاتی رہی اور وہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر خانقاہ کے شیخ ے اسے حکم دیا کہ اسے لے جا کر اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک دے ۔ جب وہ اس حکم کی تعمیل کے لیے بھی تیار ہو گا تو عین اس وقت راہبوں نے بچے کی جان بچائی جب وہ اسے دریا میں پھینکنے لگا تھا۔ اس کے تسلیم کر لیا گیا کہ وہ واقعی مرتبہ ولایت کو پہنچ گیا ہے ۔ مسیحی رہبانیت کا نقطہ نظر ان معاملات میں یہ تھا کہ جو شخص خدا کی محبت چاہتا ہو اسے انسانی محبت کی وہ ساری زنجیریں کاٹ دینی چاہییں جو دنیا میں اس کو اپنے والدین، بھائی بہنوں اور بال بچوں کے ساتھ باندھتی ہیں ۔ سینٹ جیروم کہتا ہے کہ ’’اگرچہ تیرا بھتیجا تیرے گلے میں بانہیں ڈال کر تجھ سے لپٹے ، اگر چہ تیری ماں اپنے دودھ کا واسطہ دے کر تجھے روکے ، اگر چہتیرا باپ تجھے روکنے کے لیے تیرے آگے لیٹ جاۓ، پھر بھی تو سب کو چھوڑ کر اور باپ کے جسم کو روند کر ایک آنسو بہاۓ بغیر صلیب کے جھنڈے کی طرف دوڑ جا۔ اس معاملہ میں بے رحمی ہی تقویٰ ہے ۔‘‘ سینٹ گریگوری لکھتا ہے کہ ‘‘ ایک نوجوان راہب ماں باپ کی محبت دل سے نہ نکال سکا اور ایک رات چپکے سے بھاگ کر ان سے مل آیا۔ خدا نے اس قصور کی سزا اسے یہ دی کہ خانقاہ واپس پہنچتے ہی وہ مر گیا۔ اس کی لاش زمین میں دفن کی گئی تو زمین نے اسے قبول نہ کیا۔ برا بار قبر میں ڈالا جاتا اور زمین اسے نکال کر پھینک دیتی۔ آخر کار اینٹ بینیڈکٹ نے اس کے سینے پر تبرک رکھا تب قبر نے اسے قبول کیا ‘‘۔ ایک راہبہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مرنے کے بعد تین دن عذاب میں اس لیے مبتلا رہی کہ وہ اپنی ماں کی محبت دل سے نہ نکال سکی تھی۔ ایک دلی کی تعریف میں لکھا ہے کہ اس نے کبھی اپنے رشتہ داروں کے سوا کسی کے ساتھ بے دردی نہیں برتی۔ (5) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ بے رحمی، سنگدلی اور قساوت برتنے کی جو مشق یہ لوگ کرتے تھے اس کی وجہ سے ان کی انسانی جذبات مر جاتے تھے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جن لوگوں سے انہیں مذہبی اختلاف ہوتا تھا ان کے مقابلے میں یہ ظلم و ستم کی انتہا کر دیتے تھے ۔ چوتھی صدی تک پہنچتے پہنچتے مسیحیت میں 80۔ 90 فرقے پیدا ہو چکے تھے ۔ سینٹ آگسٹائن نے اپنے زمانے میں 88 فرقے گناۓ ہیں ۔ یہ فرقے ایک دوسرے کے خلاف سخت نفرت رکھتے تھے ۔ اس نفرت کی آگ کو بھڑکانے والے بھی راہب ہی تھے اور اس آگ میں مخالف گروہوں کو جلا کر خاک کر دینے کی کوششوں میں بھی راہب ہی پیش پیش ہوتے تھے ۔ اسکندریہ اس فرقہ وارانہ کشمکش کا ایک بڑا اکھاڑا تھا۔ وہاں پہلے ایرین(Arian) فرقے کے بشپ نے اتھا ناسیوس کی پارٹی پر حملہ کیا، اس کی خانقاہوں سے کنواری راہبات پکڑ پکڑ نکالی گئیں ، ان کو ننگا کر کے خاردار شاخوں سے پٹیا گیا اور ان کے جسم پر داغ لگاۓ گۓ تاکہ وہ اپنے عقیدے سے توبہ کریں ۔ پھر جب مصر میں کیتھولک گروہ کو غلبہ حاصل ہوا تو اس نے ایرین فرقے کے خلاف یہی سب کچھ کیا، حتیٰ کہ غالب خیال یہ ہے کہ خود ایریس (Arius) کو بھی زہر دے کر مار دیا گیا۔ اسی اسکندریہ میں ایک مرتبہ سینٹ سائر (St. Cyril) کے مرید راہبوں نے ہنگامہ عظیم برپا کیا، یہاں تک کہ مخالف فرقے کی ایک راہبہ کو پکڑ کر اپنے کلیسا میں لے گۓ، اسے قتل کیا، اس کی لاش کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالی اور پھر اسے آگ میں جھونک دیا۔ روم کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔ 366 ء میں پوپ لبیریس (Liberius) کی وفات پر دو گروہوں نے پا پانی کے لیے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے ۔ دونوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی۔ حتیٰ کہ ایک دن میں صرف ایک چرچ سے 137 لاسیں نکالی گئیں ۔ (6) اس ترک و تجرید اور فقر و درویشی کے ساتھ دولت دنیا سمیٹنے میں بھی کمی نہ کی گئی۔ پانچویں صدی کے آغاز ہی میں حالت یہ ہو چکی تھی کہ روم کا بشپ بادشاہوں کی طرح اپنے محل میں رہتا تھا اور اس کی سواری جب شہر میں نکلتی تھی تو اس کے ٹھاٹھ باٹھ قیصر کی سواری سے کم نہ ہوتے تھے ۔ سینٹ جیروم اپنے زمانے (چوتھی صدی کے آخری دور) میں شکایت کرتا ہے کہ بہت سے بشپوں کی دعوتیں اپنی شان میں گورنروں کی دعوتوں کو شرماتی ہیں ۔ خانقاہوں اور کنیسوں کی طرف دولت کا یہ بہاؤ ساتویں صدی (نزول قرآن کے زمانے )تک پہنچتے پہنچتے سیلاب کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ یہ بات عوام کے ذہن نشین کرادی گئی تھی کہ جس کسی سے کوئی گناہ عظیم سرزد ہو جاۓ اس کی بخشش کسی نہ کسی ولی کی درگاہ پر نذرانہ چڑھانے ، یا کسی خانقاہ یا چرچ کو بھینٹ دینے ہی سے ہو سکتی ہے ۔ اس کے بعد وہی دنیا راہبوں کے قدموں میں آ رہی جس سے فرار ان کا طرہ امتیاز تھا۔ خاص طور پر جو چیز اس تنزل کی موجب ہوئی وہ یہ تھی کہ راہبوں کی غیر معمولی ریاضتیں اور ان کی نفس کشی کے کمالات دیکھ کر جب عوام میں ان کے لیے بے عقیدت پیدا ہو گئی تو بہت سے دنیا پرست لوگ لباس درویشی پہن کر راہبوں کے گروہ میں داخل ہو گۓ اور انہوں نے ترک دنیا کے بھیس میں جلب دنیا کا کاروبار ایسا چمکایا کہ بڑے بڑے طالبین دنیا ان سے مات کھا گئے ۔ (7) عفت کے معاملہ میں بھی فطرت سے لڑ کر رہبانیت نے بارہا شکست کھائی اور جب شکست کھائی تو بری طرح کھائی۔ خانقاہوں میں نفس کُشی کی کچھ مشقیں ایسی بھی تھیں جن میں راہب اور راہبات مل کر ایک ہی جگہ رہتے تھے اور بسا اوقات ذرا زیادہ مشق کرنے کے لیے ایک ہی بستر پر رات گزارتے تھے ۔ مشہور راہب سینٹ ایوا گریس (St. Evagrius) بڑی تعریف کے ساتھ فلسطین کے ان راہبوں کے ضبط نفس کا ذکر کرتا ہے جو ’’ اپنے جذبات پر اتنا قابو پا گۓ تھے کہ عورتوں کے ساتھ یک جا غسل کرتے تھے اور ان کی دید سے ، ان کے لمس سے ، حتیٰ کہ ان کے ساتھ ہم آغوشی سے بھی ان کے اوپر طرف غلبہ نہ پاتی تھی‘‘ غُسل اگرچہ رہبانیت میں سخت ناپسندیدہ تھا مگر نفس کشی کی مشق کے لیے اس طرح کے غسل بھی کر لیے جاتے تھے ۔ آخر کار اسی فلسطین کے متعلق نیسا (Nyssa) کا سینٹ گریگوری متوفی 396 ء لکھتا ہے کہ وہ بد کرداری کا اڈا بن گیا ہے ۔ انسانی فطرت کبھی ان لوگوں سے انتقام لیے بغیر نہیں رہتی جو اس سے جنگ کریں ۔ رہبانیت اس سے لڑ کر بالآخر بد اخلاقی کے جس گڑھے میں جا گری اس کی داستان آٹھویں صدی سے گیارہویں صدی عیسوی تک کی مذہبی تاریخ کا بد نما ترین داغ ہے ۔ دسویں صدی کا ایک اطالوی بشپ لکھتا ہے کہ ’’ اگر چرچ میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے خلاف بد چلنی کی سزائیں نافذ کرنے کا قانون عملاً جاری کر دیا جاۓ تو لڑکوں کے سوا کوئی سزا سے نہ بچ سکے گا، اور اگر حرامی بچوں کو بھی مذہبی خدمات سے الگ کر دینے کا قاعدہ نافذ کیا جاۓ تو شاید چرچ کے خادموں میں کوئی لڑکا تک باقی نہ رہے ‘‘۔ قرون متوسطہ کے مصنفین کی کتابیں ان شکایتوں سے بھری ہوئی ہیں کہ راہبات کی خانقاہیں بد اخلاقی کے چکلے بن گئی ہیں ، ان کی چار دیواریوں میں نو زائیدہ بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، پادریوں اور چرچ کے مذہبی کارکنوں میں محرمات تک سے ناجائز تعلقات اور خانقاہوں میں خلاف وضع فطری جرائم تک پھیل گۓ ہیں ، اور کلیساؤں میں اعتراف گناہ(Confession) کی رسم بد کرداری کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے ۔ ان تفصیلات سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں رہبانیت کی بدعت ایجاد کرنے اور پھر اس کا حق ادا نہ کرنے کا ذکر کر کے مسیحیت کے کس بگاڑ کی طرف اشارہ کر رہا ہے |
3 | اصل الفاظ ہیں اِلَّا ابْتِغَآ ءَ رِضْوَانِ اللہ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے ان پر اس رہبانیت کو فرض نہیں کیا تھا بلکہ جو چیز ان پر فرض کی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ یہ رہبانیت ہماری فرض کی ہوئی نہ تھی بلکہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے اسے خود اپنے اوپر فرض کر لیا تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور یہ کبھی دین حق میں شامل نہیں رہی ہے ۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی ہے کہ : لَا رَھبَا نیّۃ۔ فی الاسْلام، ’’ اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ‘‘ (مسند احمد )۔ ایک اور حدیث میں حضورؐ نے فرمایا رھبانیۃ ھٰذہالامّۃ الجھاد فی سبیل اللہ، ’’ اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے ‘‘ مسند احمد۔ مسند ابی یَعلیٰ)۔ یعنی اس امت کے لیے روحانی ترقی کا راستہ ترک دنیا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے ، اور یہ امت فتنوں سے ڈر کر جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نہیں بھاگتی بلکہ راہ خدا میں جہاد کر کے ان کا مقابلہ کرتی ہے ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ صحابہ میں سے ایک صاحب نے کہا میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا، تیسرے نے کہا میں کبھی شادی نہ کروں گا اور عورت سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا اماد اللہ انی الأ خشا کم للہ واتقا کم لَہٗ لکنی اصوم اُ فطر واُصلی و ارقد و اتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘ خدا کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا اور اس سے تقویٰ کرتا ہوں ۔ مگر میرا طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ۔ جس کو میرا طریقہ پسند نہ ہو اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ‘‘ حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے لا تشدد و اعلیٰ انفسکم فیشدد اللہ علیہکم فان قوما شدد و افشدد اللہ علیہ فتلک بقا یا ھم فی الصوامع والد یار۔ ’’ اپنے اوپر سختی نہ کرو کہ اللہ تم پر سختی کرے ۔ ایک گروہ نے یہی تشدد اختیار کیا تھا تو اللہ نے بھی پھر اسے سخت پکڑا۔ دیکھ لو، وہ ان کے بقایا راہب خانوں اور کنیسوں میں موجود ہیں ۔‘‘(ابوداؤد) |
2 | اس کا تلفظ رَہْبا نیت بھی کیا جاتا ہے اور رہبانیت بھی۔ اس کا مادہ رَہب ہے جس کے معنی خوف کے ہیں ۔ رَہبانیت کا مطلب ہے مسلک خوف زدگی، اور رہبانیت کے معنی ہیں مسلک خوف زدگان۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہے کسی شخص کا خوف کی بنا پر (قطع نظر اس سے کہ وہ کسی کے ظلم کا خوف، یا اپنے نفس کی کمزوریوں کا خوف) تارک الدنیا بن جانا اور دنیوی زندگی سے بھاگ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ لینا یا گوشہ ہاۓ عزلت میں جا بیٹھنا |
1 | اصل الفاظ ہیں رافت اور رحمت۔ یہ دونوں لفظ قریب قریب ہم معنی ہیں مگر جب یہ ایک ساتھ بولے جاتے ہیں تو رافت سے مراد وہ رقیق القلبی ہوتی ہے جو کسی کو تکلیف و مصیبت میں دیکھ کر ایک شخص کے دل میں پیدا ہو۔ اور رحمت سے مراد وہ جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اس کی مدد کی کوشش کرے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ نہایت رقیق القلب اور خلق خدا کے لیے رحیم و شفیق تھے ۔ اس لیے ان کی سیرت کا یہ اثر ان کے پیروؤں میں سرایت کر گیا کہ وہ اللہ کے بندوں پر ترس کھاتے تھے اور ہمدردی کے ساتھ ان کی خدمت کرتے تھے |