Ayats Found (3)
Surah 3 : Ayat 52
۞ فَلَمَّآ أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ ٱلْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِىٓ إِلَى ٱللَّهِۖ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ ٱللَّهِ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَٱشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا 1"کون اللہ کی راہ میں میرا مدد گار ہوتا ہے؟" حواریوں نے جواب دیا، 2"ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے، گواہ رہو کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے والے) ہیں
2 | دینِ اسلام کی اقامت میں حصّہ لینے کو قرآن مجید میں اکثر مقامات پر”اللہ کی مدد کرنے“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے۔ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی عطا کی ہے، اس میں وہ انسان کو کفر یا ایمان ، بغاوت یا اطاعت میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے پر اپنی خدائی طاقت سے مجبُور نہیں کرتا۔ اس کے بجائے وہ دلیل اور نصیحت سے انسان کو اس بات کا قائل کرنا چاہتا ہے کہ انکا ر و نافرمانی اور بغاوت کی آزادی رکھنے کے باوجود اُس کے لیے حق یہی ہے اور اس کی فلاح و نجات کا راستہ بھی یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت اختیار کرے۔ اس طرح فہمائش اور نصیحت سے بندوں کو راہِ راست پر لانے کی تدبیر کرنا، یہ دراصل اللہ کا کام ہے۔ اور جو بندے اس کام میں اللہ کا ساتھ دیں اُن کو اللہ اپنا رفیق و مددگار قرار دیتا ہے ۔ اور یہ وہ بلند سے بلند مقام ہے جس پر کسی بندے کی پہنچ ہو سکتی ہے۔ نماز، روزہ اور تمام اقسام کی عبادات میں تو انسان محض بندہ و غلام ہوتا ہے۔ مگر تبلیغِ دین اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں بندے کو خدا کی رفاقت و مددگاری کا شرف حاصل ہوتا ہے جو اس دنیا میں رُوحانی ارتقا کا سب سے او نچا مرتبہ ہے |
1 | حواری“ کا لفظ قریب قریب وہی معنی رکھتا ہے جو ہمارے ہاں”انصار“ کا مفہُوم ہے۔ بائیبل میں بالعموم حواریوں کے بجائے ”شاگردوں“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور بعض مقامات پر انہیں رسول بھی کہا گیا ہے ۔ مگر رسول اِس معنی میں کہ مسیح علیہ السّلام ان کو تبلیغ کے لیے بھیجتے تھے، نہ اِسم معنی میں کہ خدا نے ان کو رسُول مقرر کیا تھا |
Surah 5 : Ayat 111
وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى ٱلْحَوَارِيِّــۧنَ أَنْ ءَامِنُواْ بِى وَبِرَسُولِى قَالُوٓاْ ءَامَنَّا وَٱشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ
اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب اُنہوں نے کہا کہ 1"ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں"
1 | یعنی حواریوں کا تجھ پر ایمان لانا بھی ہمارے فضل اور توفیق کا نتیجہ تھا ، ورنہ تجھ میں تو اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اُس جُھٹلانے والی آبادی میں ایک ہی تصدیق کرنے والا اپنے بل بوتے پر پیدا کر لیتا ۔۔۔۔۔۔ ضمناً یہاں یہ بھی بتا دیا کہ حواریوں کا اصل دین اسلام تھا نہ کہ عیسا ئیت |
Surah 61 : Ayat 14
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُوٓاْ أَنصَارَ ٱللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّــۧنَ مَنْ أَنصَارِىٓ إِلَى ٱللَّهِۖ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ ٱللَّهِۖ فَـَٔـامَنَت طَّآئِفَةٌ مِّنۢ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ وَكَفَرَت طَّآئِفَةٌۖ فَأَيَّدْنَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُواْ ظَـٰهِرِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے حواریوں کو خطاب کر کے کہا تھا: 12"کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار؟" اور حواریوں نے جواب دیا تھا: "ہم ہیں اللہ کے مددگار" اُس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے3
3 | مسیح پر ایمان نہ لانے والوں سے مراد یہودی، اور ایمان لانے والوں سے مراد عیسائی اور مسلمان، دونوں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مسیح کے منکرین پر غلبہ عطا فرمایا۔ اس بات کو یہاں بیان کرنے سے مقصود مسلمانوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ جس طرح پہلے حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ان کا انکار کرنے والوں پر غالب آ چکے ہیں ، اسی طرح اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والے آپ کا انکار کرنے والوں پر غالب آئیں گے |
2 | یہ آخری مقام ہے جہاں قرآن مجید میں ان لوگوں کو اللہ کا مدد گار کہا گیا ہے جو خلق خدا کو دین کی طرف بلانے اور اللہ کے دین کو کفر کے مقابلے میں غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اس سے پہلے یہی مضمون سورہ آل عمران، آیت 52 سورہ حج، آیت 40، سورہ محمد، آیت 7، سورہ حدید، آیت 25 اور سورہ حشر آیت 8 میں گزر چکا ہے ، اور ان آیات کی تشریح ہم تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ 50، جلد سوم، الحج، حاشیہ 84، جلد پنجم، سورہ محمد، حاشیہ 12، اور سورہ حدید، حاشیہ 47 میں کر چکے ہیں ، نیز سورہ محمد، حاشیہ 9 میں بھی اس مسئلے کے ایک گوشے پر واضح روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کے ذہن میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، تمام خلق سے بے نیاز ہے ، کسی کا محتاج نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو کوئی بندہ آخر اللہ کا مدد گار کیسے ہو سکتا ہے ۔ اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے ہم یہاں اس مسئلے کی مزید وضاحت کیے دیتے ہیں ۔ دراصل ایسے لوگوں کو اللہ کا مدد گار اس لیے نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین معاذاللہ کسی کام کے لیے اپنی کسی مخلوق کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو کفر ایمان اور طاعت و معصیت کی آزادی بخشی ہے اس میں وہ لوگوں کو اپنی قوت قاہرہ سے کام لے کر بجز مومن و مطیع نہیں بناتا بلکہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ان کو راہ راست دکھانے کے لیے تذکیر و تعلیم اور تفہیم و تلقین کا طریقہ اختیار فرماتا ہے ۔ اس تذکیر و تعلیم کو جو شخص بہ رضا و رغبت قبول کر لے وہ مومن ہے ، جو عملاً مطیع فرمان بن جاۓ و مسلم و قانت اور عابد ہے ، جو خدا ترس کا رویہ اختیار کر لے وہ متقی ہے ، جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے لگے وہ محسن ہے ، اور اس سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر جو اسی تذکیر و تعلیم کے ذریعہ سے بندگان خدا کی اصلاح کے لیے اور کفر و فسق کی جگہ اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنے لگے اسے اللہ تعالیٰ خود اپنا مدد گار قرار دیتا ہے ، جیسا کہ آیات مذکورہ بالا میں کئی جگہ بالفاظ صریح ارشاد ہوا ہے ۔ اگر اصل مقصود اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کا مدد گار کہنا ہوتا تو اَنْصَارُاللہ کے بجاۓ اَنْصَا رُ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا، یَنْصُرُوْ نَ اللہ کے بجاۓ یَنْصُرُوْنَ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا، اِنْ تَنْصُرُوْ اللہَ کے بجاۓ اِنْتَنْصُرُوْا دِیْنَ اللہِ فرمایا جاتا۔ جب ایک مضمون کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پے درپے کئی مقامات پر ایک ہی طرز بیان اختیار فرمایا ہے تو یہ اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصود ایسے لوگوں کو اللہ کا مدد گار ہی کہنا ہے ۔ مگر یہ ’’ مدد گاری‘‘ نعوذ بااللہ اس معنی میں نہیں ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کوئی ضرورت پوری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ اسی کام میں حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنی قوت قاہرہ کے ذریعہ سے کرنے کے بجاۓ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کرنا چاہتا ہے |
1 | یہ آخری مقام ہے جہاں قرآن مجید میں ان لوگوں کو اللہ کا مدد گار کہا گیا ہے جو خلق خدا کو دین کی طرف بلانے اور اللہ کے دین کو کفر کے مقابلے میں غالب کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس سے پہلے یہی مضمون سورہ حشرآیت ۸ میں گزرچکا ہے، اور ان آیات کی تشریح ہم تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ ۵۰ جلد سوم، الحج، حاشیہ ۸۴ ، جلد پیجم، سورہ محمد، حاشیہ ۱۲ ، اور سورہ حدید، حاشیہ ۴۷ میں کر چکے ہیں، نیز سورہ محمد، حاشیہ۹ میں بھی اس مسئلے کے ایک گوشے پر واضح روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کے ذہن میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالٰی قادر مطلق ہے، تمام خلق سے بے نیاز ہے، کسی کا محتاج نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو کوئی بندہ آخر اللہ کا مددگار کیسے ہو سکتا ہے۔ اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے ہم یہاں اس مسئلے کی مزید وضاحت کیے دیتے ہیں۔ دراصل ایسے لوگوں کو اللہ کا مددگار اس لیے نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین معاذ اللہ کسی کام کے لیے اپنی کسی مخلوق کی مدد کا محتاج ہے، بلکہ یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالٰی نے خود انسان کو کفر و ایمان اور اطاعت و معصیت کی آزادی بخشی ہے اس میں لوگوں کو اپنی قوتِ قاصرہ سے کام لے کر بجبر مومن و مطیع نہیں بنانا بلکہ اپنے انبیاء ااور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ان کو راہ راست دکھانے کے لیے تزکیروتعلیم اور تفہیم و تلقین کا طریقہ اختیار فرماتا ہے، اس تزکیروتعلیم کو جو شخص بر ضاورغبت قبول کر لے وہ مومن ہے، جو عملاً مطیع فرمان بن جائے ومسلم وقانت اور عابد ہے، جو خدا ترس کا رویہ اختیار کر لے وہ متقی ہے، جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے لگے وہ محسن ہے، اور اس سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر جو اسی تزکیرو تعلیم کے ذریعہ سے بندگان خدا کی اصلاح کے لیے اور کفروفسق کی جگہ اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنے لگے اسے اللہ تعالٰی خود اپنا مددگار قرار دیتا ہے، جیسا کہ آیات مزکورہ بالا میں کئی جگہ بالفاظ صریح ارشاد ہوا ہے۔ اگر اصل مقصود اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کا مددگار کہنا ہوتا تو اَنصَارُاللہ کے بجائے اَنصَارُ دِینِ اللہِ فرمایا جاتا، یَنصُر’ونَ اللہ کے بجائے یَنصُروُنَ دِینِ اللہِ فرمایا جاتا اِنُ تُنُصُرُوا اللہَ کے بجائے اِنُ تُنصُرُوادِینَ اللہِ فرمایا جاتا۔ جب ایک مضمون کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے پے در پے کئی مقامات پر ایک ہی طرز بیان اختیار فرمایا ہے تو یہ اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصود ایسے لوگوں کو اللہ کا مددگار ہی کہنا ہے۔ مگر یہ مددگاری نعوذ باللہ اس معنی میں نہی ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالٰٰی کی کوئی ضروریات پوری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان کی مدد کا محتاج ہے، بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ اُسی کام میں حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالٰی اپنی قوتِ قاصرہ کے ذریعہ سے کرنے کے بجائے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کرنا چاہتا ہے۔ |