Ayats Found (6)
Surah 3 : Ayat 50
وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ ٱلتَّوْرَٮٰةِ وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ ٱلَّذِى حُرِّمَ عَلَيْكُمْۚ وَجِئْتُكُم بِـَٔـايَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ
اور میں اُس تعلیم و ہدایت کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں جو تورات میں سے اِس وقت میرے زمانہ میں موجود ہے1 اوراس لیے آیا ہوں کہ تمہارے لیے بعض اُن چیزوں کو حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں2 دیکھو، میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میر ی اطاعت کرو
2 | یعنی تمہارے جُہلا کے توہّمات ، تمہارے فقیہوں کی قانونی موشگافیوں ، تمہارے رہبانیت پسند لوگوں کے تشدّدات ، اور غیر مسلم قوموں کے غلبہ و تسلّط کی بدولت تمہارے ہاں اصل شریعتِ الہٰی پر جن قیُود کا اضافہ ہوگیا ہے، میں ان کو منسُوخ کروں گیا اور تمہارے لیے وہی چیزیں حلال اور وہی حرام قرار دوں گا جنہیں اللہ نے حلال یا حرام کیا ہے |
1 | یعنی یہ میرے فرستادہ ٴ خدا ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ اگر میں اُس کی طرف سے بھیجا ہو ا نہ ہوتا بلکہ جھوٹا مدّعی ہوتا تو خود ایک مستقل مذہب کی بنا ڈالتا اور اپنے اِن کمالات کے زور پر تمہیں سابق دین سے ہٹا کر اپنے ایجاد کردہ دین کی طرف لانے کی کوشش کرتا۔ لیکن میں تو اُسی اصل دین کو مانتا ہوں اور اسی تعلیم کو صحیح قرار دے رہاہوں جو خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر مجھ سے پہلے لائے تھے۔ یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام وہی دین لے کر آئے تھے جو موسیٰ علیہ السّلام اور دُوسرے انبیا ء نے پیش کیا تھا، رائج الوقت اناجیل میں بھی واضح طور پر ہمیں ملتی ہے۔ مثلاً متی کی روایت کے مطابق پہاڑی کے وعظ میں مسیح علیہ السّلام صاف فرماتے ہیں: ”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسُوخ کرنے آیا ہوں۔ منسُوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں“۔(۵ : ١۷) ایک یہُودی عالم نے حضرت مسیح ؑ سے پوچھا کہ احکامِ دین میں اوّلین حکم کونسا ہے؟ جواب میں آپ ؑ نے فرمایا: ”خداوند اپنے خدا سے اپنےسارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دُوسرا اس کے مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے“۔ پھر حضرت مسیح ؑ اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں: ”فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہیں ۔ جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو مگر ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔“(متی ۲۳:۲۔۳) |
Surah 43 : Ayat 63
وَلَمَّا جَآءَ عِيسَىٰ بِٱلْبَيِّنَـٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِٱلْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ ٱلَّذِى تَخْتَلِفُونَ فِيهِۖ فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ
اور جب عیسیٰؑ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ "میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں، اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض اُن باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
Surah 3 : Ayat 51
إِنَّ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُۗ هَـٰذَا صِرَٲطٌ مُّسْتَقِيمٌ
اللہ میرا رب بھی ہے او ر تمہارا رب بھی، لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے1"
1 | اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیا علیہم السّلام کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی دعوت کے بھی بنیادی نکات یہی تین تھے: ایک یہ کہ اقتدار ِ اعلیٰ ، جس کے مقابلہ میں بندگی کا رویّہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدّن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے ، صرف اللہ کے لیے مختص تسلیم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اُس مقتدرِ اعلیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔ تیسرے کہ کہ انسانی زندگی کو حِلّت و حُرمت اور جواز و عدم جواز کی پابندیوں سے جکڑنے والا قانون و ضابطہ صرف اللہ کا ہو، دُوسروں کے عائد کردہ قوانین منسُوخ کر دیے جائیں۔ پس در حقیقت حضرت عیسی ٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دُوسرے انبیا کے مِشن میں یک سرِ مُو فرق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مختلف پیغمبروں کے مختلف مِشن قرار دیے ہیں اور ان کے درمیان مقصد و نوعیّت کے اعتبار سے فرق کیا ہے اُنہوں نے سخت غلطی کی ہے ۔ مالک الملک کی طرف سے اُس کی رعیت کی طرف جو شخص بھی مامور ہو کر آئے گا اس کے آنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہی نہیں کہ وہ رعایا کو نافرمانی اور خود مختاری سے روکے، اور شرک سے (یعنی اس بات سے کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں کسی حیثیت سے دُوسروں کو مالک الملک کے ساتھ شریک ٹھیرائیں اور اپنی وفاداریوں اور عبادت گزاریوں کو ان میں منقسم کریں) منع کرے، اور اصل مالک کی خالص بندگی و اطاعت اور پرستاری و وفاداری کی طرف دعوت دے۔ افسوس ہے کہ موجودہ اناجیل میں مسیح علیہ السّلام کے مِشن کو اس وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا جس طرح اُوپر قرآن میں پیش کیا گیا ہے ۔ تاہم منتشر طور پر اشارات کی شکل میں وہ تینوں بُنیادی نکات ہمیں ان کے اندر ملتے ہیں جو اُوپر بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ مسیح صرف اللہ کی بندگی کے قائل تھے ان کے اِس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتی ہے: ” تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر“(متی۴ : ١۰) اور صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے قائل تھے بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصُود یہ تھا کہ زمین پر خدا کے امرِ شرعی کی اُسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے امرِ تکوینی کی اطاعت ہو رہی ہے: ”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو“ (متی ٦ :١۰ ) پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام اپنے آپ کو نبی اور آسمانی بادشاہت کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے تھے، اور اسی حیثیت سے لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کے متعدّد اقوال سے معلوم ہوتی ہے ۔ انہوں نے جب اپنے وطن ناصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کے اپنے ہی بھائی بند اور اہلِ شہر ان کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس پر متی، مرقس اور لوقا تینوں کی متفقہ روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا” نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا“۔ اور جب یروشلم میں ان کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں اور لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں تو انہوں نے جواب دیا ” ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو“(لوقا ١۳:۲۳ )۔ آخری مرتبہ جب وہ یروشلم میں داخل ہو رہے تھے تو ان کے شاگردوں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا ”مبارک ہے وہ بادشاہ جو خدا وند کے نام سے آتا ہے“۔ اس پر یہودی علما ناراض ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح ؑ سے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو چُپ کرائیں۔ اس پر آپ نے فرمایا”اگر یہ چُپ رہیں گے تو پتھر پکار اُٹھیں گے“(لوقا ١۹: ۳۸ ۔۴۰)ایک اور موقع پرآپ نے فرمایا: ”اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو، سب میرے پاس آ ؤ ، میں تم کو آرام دونگا۔ میرا جو ا اپنے اُوپر اُٹھالو ۔۔۔۔ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا“۔(متی ١١: ۲۸۔۳۰) پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام انسانی ساخت کے قوانین کے بجائے خدائی قانون کی اطاعت کرانا چاہتے تھے متی اور مرقس کی اُس روایت سے صاف طور پر مترشح ہوتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی علما نے اعتراض کیا کہ آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کے خلاف ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کیوں کھا لیتے ہیں؟ اس پر حضرت مسیح ؑ نے فرمایا تم ریاکاروں کی حالت وہی ہے جس پر یسعیاہ نبی کی زبان سے یہ طعنہ دیا گیا ہے کہ ”یہ اُمّت زبان سے تو میری تعظیم کرتی ہے مگر ان کے دل مُجھ سے دُور ہیں، کیونکہ یہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں“۔ تم لوگ خدا کے حکم کو تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو برقرار رکھتے ہو۔ خدا نے تورات میں حکم دیا تھا کہ ماں باپ کی عزّت کرو اور جوکوئی ماں باپ کو بُرا کہے وہ جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں یا باپ سے یہ کہہ دے کہ میری جو خدمات تمہارے کام آسکتی تھیں اُنہیں میں خدا کی نذر کر چکا ہوں، اس کے لیے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں باپ کی کوئی خدمت نہ کرے۔ (متِی١۵:۳۔۹ ۔ مرقس۷: ۵۔١۳) |
Surah 5 : Ayat 72
لَقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَۖ وَقَالَ ٱلْمَسِيحُ يَـٰبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْۖ إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَٮٰهُ ٱلنَّارُۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ "اے بنی اسرائیل! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی" جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں
Surah 43 : Ayat 64
إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ رَبِّى وَرَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُۚ هَـٰذَا صِرَٲطٌ مُّسْتَقِيمٌ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی اُسی کی تم عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے1"
1 | یعنی عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو، بلکہ ان کی دعوت وہی تھی جو دوسرے تمام انبیاء کی دعوت تھی اور اب جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو بلا رہے ہیں ۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول، آل عمران حواشی ۲۳۱۔۲۱۷۔ ۲۱۸ المائدہ حواشی ۱۰۰۔۱۳۰ جلد سوم مریم حواشی ۲۱ تا ۲۳) |
Surah 43 : Ayat 65
فَٱخْتَلَفَ ٱلْأَحْزَابُ مِنۢ بَيْنِهِمْۖ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ
مگر (اُس کی اِس صاف تعلیم کے باوجود) گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا1، پس تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک دردناک دن کے عذاب سے
1 | یعنی ایک گروہ نے ان کا انکار کیا تو مخالفت میں اس حد تک پہنچ گیا کہ ان پر ناجائز ولادت کی تہمت لگائی اور ان کو اپنے نزدیک سولی پر چڑھوا کر چھوڑا۔ دوسرے گروہ نے ان کا اقرار کیا تو عقیدت میں بے تحاشا غلو کر کے ان کو خدا بنا بیٹھا اور پھر ایک انسان کے خدا ہونے کا مسئلہ اس کے لیے ایسی گتھی بنا جسے سلجھاتے سلجھاتے اس میں بے شمار فرقے بن گۓ۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول،النساء حواشی ۲۱۱ تا ۲۱۲ المائدہ حواشی ۳۹۔۴۰۔۱۰۱۔۱۳۰) |