Ayats Found (2)
Surah 5 : Ayat 109
۞ يَوْمَ يَجْمَعُ ٱللَّهُ ٱلرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَآ أُجِبْتُمْۖ قَالُواْ لَا عِلْمَ لَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّـٰمُ ٱلْغُيُوبِ
جس روز1 اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پو چھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ہے2، تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں3، آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں
3 | یعنی ہم تو صرف اُس محدُود ظاہری جواب کو جانتے ہیں جو ہمیں اپنی زندگی میں ملتا ہو ا محسوس ہوا۔ باقی رہا یہ کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کا ردِّ عمل کہاں کس صُورت میں کتنا ہوا، تو اس کا صحیح علم آپ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا |
2 | یعنی اسلام کی طرف جو دعوت تم نے دُنیا کو دی تھی اس کا کیا جواب دُنیا نے تمہیں دیا |
Surah 5 : Ayat 116
وَإِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَـٰعِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ءَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ ٱتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ ٱللَّهِۖ قَالَ سُبْحَـٰنَكَ مَا يَكُونُ لِىٓ أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقٍّۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُۥ فَقَدْ عَلِمْتَهُۥۚ تَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِى وَلَآ أَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِكَۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّـٰمُ ٱلْغُيُوبِ
غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ 1"اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟" تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ "سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں
1 | عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح اور رُوح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مسیح کی والدۂ ماجدہ حضرت مریم کو بھی ایک مستقل معبُود بنا ڈالا۔ حضرت مریم علیہا السّلام کو اُلُوہیّت یا قُدُّوسیّت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائیبل میں موجود نہیں ہے۔ مسیح کے بعد ابتدائی تین سو برس تک عیسائی دُنیا اس تخیّل سے بالکل نا آشنا تھی۔ تیسری صدی عیسوی کے آخری دَور میں اسکندریہ کے بعض علماء دینیات نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کے لیے ”اُمّ اللہ“ یا ” مادرِ خدا“ کے الفاظ استعمال کیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اُلُوہیّت ِ مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ لیکن اوّل اوّل چرچ اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا ، بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا۔ پھر جب نَسطُور یَس کے اس عقیدے پر کہ مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جُداگانہ شخصیتیں جمع تھیں، مسیحی دُنیا میں بحث و جدال کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کے لیے سن ۴۳۱ ء میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی، اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم کے لیے ”مادرِ خدا“ کا لقب استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، حتٰی کہ نزولِ قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ، بیٹا اور رُوح القدس تینوں ان کے سامنے ہیچ ہوگئے۔ ان کے مجسّمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے ، ان کے آگے عبادت کے جُملہ مراسم ادا کیے جاتے تھے، انہی سے دُعائیں مانگی جاتی تھیں ، وہی فریاد رس، حاجت روا، مشکل کشا اوربکسیوں کی پشتیبان تھیں، اور ایک مسیحی بندے کے لیے سب سے بڑا ذریعۂ اعتماد اگر کوئی تھا تو وہ یہ تھا کہ ” مادرِ خدا“ کی حمایت و سرپرستی اسے حاصل ہو۔ قیصر جَسٹِینَن اپنے ایک قانون کی تمہید میں حضرت مریم ؑ کو اپنی سلطنت کا حامی و ناصر قرار دیتا ہے۔ اس کا مشہوُر جنرل نرسیس میدانِ جنگ میں حضرت مریم ؑ سے ہدایت و رہنمائی طلب کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمعصر قیصر ہِرَ قْل نے اپنے جھنڈے پر ”مادرِ خدا“ کی تصویر بنا رکھی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس تصویر کی برکت سے یہ جھنڈا سرنگوں نہ ہوگا۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں تحریک اصلاح کے اثر سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدّت سے آواز اُٹھائی ، لیکن رومن کیتھولک کلیسا آج تک اس مسلک پر قائم ہے |