Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 253
۞ تِلْكَ ٱلرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ ٱللَّهُۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَـٰتٍۚ وَءَاتَيْنَا عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَيَّدْنَـٰهُ بِرُوحِ ٱلْقُدُسِۗ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلَ ٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ وَلَـٰكِنِ ٱخْتَلَفُواْ فَمِنْهُم مَّنْ ءَامَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلُواْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخر میں عیسیٰ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی اگر اللہ چاہتا، تو ممکن نہ تھا کہ اِن رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے، وہ آپس میں لڑتے مگر (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے، اس وجہ سے) انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ہاں، اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے1
1 | مطلب یہ ہے کہ رسُولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رُونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا۔ نہیں، اگر وہ چاہتا ، تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا۔ مگر اس کی مشیّت نہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انھیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبُور کر دے۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا ، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں اِنتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انھیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بیّنات سے لوگوں کو راستی کی طرف بُلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے، وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا، مگر معاذ اللہ اُسے کامیابی نہ ہوئی |
Surah 5 : Ayat 110
إِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَـٰعِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ٱذْكُرْ نِعْمَتِى عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَٲلِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ ٱلْقُدُسِ تُكَلِّمُ ٱلنَّاسَ فِى ٱلْمَهْدِ وَكَهْلاًۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَٱلتَّوْرَٮٰةَ وَٱلْإِنجِيلَۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ ٱلطِّينِ كَهَيْــَٔةِ ٱلطَّيْرِ بِإِذْنِى فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرَۢا بِإِذْنِىۖ وَتُبْرِئُ ٱلْأَكْمَهَ وَٱلْأَبْرَصَ بِإِذْنِىۖ وَإِذْ تُخْرِجُ ٱلْمَوْتَىٰ بِإِذْنِىۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ إِنْ هَـٰذَآ إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
پھر تصور کرو اس موقع کا جب اللہ فرمائے گا1 کہ "اے مریم کے بیٹے عیسیٰؑ! یاد کر میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی، میں نے روح پاک سے تیری مدد کی، تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، تو میرے حکم سے مٹی کا پتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، تو مُردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا، پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادو گری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا
2 | یعنی حالت موت سے نکال کر زندگی کی حالت میں لاتا تھا |
1 | ابتدائی سوال تمام رسُولوں سے بحیثیت مجمُوعی ہوگا۔ پھر ایک ایک رسُول سے الگ الگ شہادت لی جائے گی جیسا کہ قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر بتصریح ارشاد ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے جو سوال کیا جائے گا وہ یہاں بطورِ خاص نقل کیا جا رہا ہے |