Ayats Found (13)
Surah 17 : Ayat 1
سُبْحَـٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِۦ لَيْلاً مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْأَقْصَا ٱلَّذِى بَـٰرَكْنَا حَوْلَهُۥ لِنُرِيَهُۥ مِنْ ءَايَـٰتِنَآۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا
1 | یہ وہی واقعہ ہے جو اصطاحاً”معراج“اور ”اسراء“کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ ؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ررین روایت حضرت انس بن مالک ؓ ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ؓ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ ، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ ، حضرت عائشہ ؓ اور متعدد دوسرے صحابہ ؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔ قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ )سے مسجد اقصٰی(یعنی بیت المقدس)تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتا تا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اُٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک بُراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لےچلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیو ں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔ حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اگر کوئی شخص اُن تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانےجو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔ اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں؟ اور آیا حضور ؐ بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سُبْحٰنَ الّذِیْ اَسْریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارقِ عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالٰی کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ”ایک رات اپنے بندے کو لے گیا“جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرایا۔ اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سےممکن تھا، تو آخر اُن دوسری تفصیلات ہی کو نا ممکن کہہ کر کیوں رد کر دیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں؟ ممکن اور نا ممکن کی بحث تو صرف اُس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے باختیار خود کوئٰ کام کرنے کا معاملہ زیربحث ہو۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو دوسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے متعدد اعتراضات کیے جاتے ہیں، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سےاللہ تعالٰی کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کراکے ایک مقامِ خاص تک لے جایا جاتا؟ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کےمقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے؟ لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود و سائط اختیار کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سکے، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اُس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذاتِ خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہےجہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اُس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھایا گیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا۔ بازناکاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح بُرے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔ اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سےہر ایک کو اللہ تعالٰی نے اُن کے منصب کی مناسبت سے ملکوتِ سٰموات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہوجائے۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔ |
Surah 40 : Ayat 56
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُجَـٰدِلُونَ فِىٓ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَـٰنٍ أَتَـٰهُمْۙ إِن فِى صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَـٰلِغِيهِۚ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی سند و حجت کے بغیر جو اُن کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیات میں جھگڑے کر رہے ہیں اُن کے دلوں میں کبر بھرا ہوا ہے1، مگر وہ اُس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جس کا وہ گھمنڈ رکھتے ہیں2 بس اللہ کی پناہ مانگ لو3، وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے
3 | یعنی جس طرح فرعون کی دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحدِ قہار کی پناہ مانگ کر موسیٰ بے فکر ہو گئے تھے، اسی طرح سرداران قریش کی دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں تم بھی اس کی پناہ لے لو اور پھر بے فکر ہو کر اس کا کلمہ بلند کرنے میں لگ جاؤ |
2 | دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جس کو اللہ نے بڑا بنایا ہے وہی بڑا بن کر رہے گا، اور یہ چھوٹے لوگ اپنی بڑائی قائم رکھنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ سب آخر کار ناکام ہو جائیں گی |
1 | یعنی ان لوگوں کی بے دلیل مخالفت اور ان کی غیر معقول کج بحثیوں کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کی آیات میں جو سچائیاں اور خیر و صلاح کی باتیں ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے یہ نیک نیتی کے ساتھ ان کو سمجھنے کی خاطر بحثیں کرتے ہیں، بلکہ ان کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا غرور نفس یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے ہوتے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و رہنمائی تسلیم کر لی جاۓ اور بالآخر ایک روز انہیں خود بھی اس شخص کی قیادت ماننی پڑے جس کے مقابلے میں یہ اپنے آپ کو سرداری کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کسی طرح نہ چلنے پاۓ، اور اس مقصد کے لیے انہیں کوئی ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کرنے میں بھی کوئی تامّل نہیں ہے |
Surah 22 : Ayat 61
ذَٲلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ وَأَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعُۢ بَصِيرٌ
یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے1 اور وہ سمیع و بصیر ہے2
2 | یعنی وہ دیکھنے اور سننے والا خد ہے ، اندھا بہرا نہیں ہے |
1 | یعنی تمام نظام کائنات پر وہی حاکم ہے اور گردش لیل وہ نہار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس ظاہری معنی کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو خدا رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوۓ دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے ، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کو سورج نصف النہار پر ہے ان کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھاوے ، اور کفر و جہالت کی جو تاریکی اس وقت حق و صداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے حکم سے چھٹ جائے اور وہ دن نکل آئے جس میں راستی ور علم و معرفت کے نور سے دنیا روشن ہو جائے |
Surah 22 : Ayat 75
ٱللَّهُ يَصْطَفِى مِنَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ ٱلنَّاسِۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعُۢ بَصِيرٌ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی1 وہ سمیع اور بصیر ہے
1 | مطلب یہ ہے کہ مشرکین نے مخلوقات میں سے جن جن ہستیوں کو معبود بنایا ہے ان میں افضل ترین مخلوق یا ملائکہ ہیں یا انبیاء۔ اور ان کی حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے احکام پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن کو اس نے اس خدمت کے لیے چن لیا ہے۔ محض یہ فضیلت ان کو خدا ، یا خدائی میں اللہ کا شریک تو نہیں بنا دیتی |
Surah 31 : Ayat 28
مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَٲحِدَةٍۗ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعُۢ بَصِيرٌ
تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے1
1 | یعنی وہ بیک وقت ساری کائنات کی آوازیں الگ الگ سُن رہا ہے اور کوئی آواز اس کی سماعت کو اس طرح مشغول نہیں کرتی کہ اسے سنتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ سُن سکے۔ اسی طرح وہ بیک وقت ساری کائنات کو اس کی ایک ایک چیز اورایک ایک واقعہ کی تفصیل کے ساتھ دیکھ رہا ہےاور کسے چیز کے دیکھنے میں اس کی بینائی اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسے دیکھتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ دیکھ سکے۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ انسانوں کے پیدا کرنے اور دوبارہ وجود میں لانے کا بھی ہے۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے آدمی بھی پیدا ہوئی ہیں اور آئندہ قیامت تک ہوں گے ان سب کو وہ ایک آن کی آن میں پھر پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی قدرتِ تخلیق ایک انسان کو بنانے میں اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسی وقت وہ دوسرے انسان نہ پیدا کر سکے۔ اس کے لیے ایک انسان کا بنانا اور کھربوں انسانوں کا بنا دینا یکساں ہے۔ |
Surah 58 : Ayat 1
قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوْلَ ٱلَّتِى تُجَـٰدِلُكَ فِى زَوْجِهَا وَتَشْتَكِىٓ إِلَى ٱللَّهِ وَٱللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَآۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعُۢ بَصِيرٌ
اللہ نے سن لی1 اُس عورت کی بات جو ا پنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے2، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے
2 | عام طور پر مترجمین نے اس مقام پر مجادلہ کر رہی تھی، فریاد کر رہی تھی، اور اللہ سن رہا تھا ترجمہ کیا ہے جس سے پڑھنے والے کا ذہن یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ وہ خاتون اپنی شکایت سنا کر چلی گئی ہوں گی اور بعد میں کسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آئی ہو گی، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس عورت کی بات ہم نے سن لی جو تم سے تکرار اور ہم سے فریاد کر رہی تھی، اور ہم اس وقت تم دونوں کی بات سن رہے تھے۔ لیکن اس واقعہ کے متعلق جو روایات احادیث میں آئی ہیں ان میں سے اکثر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت وہ خاتون اپنے شوہر کے ظِہار کا قصہ سنا سنا کر بار بار حضورﷺ سے عرض کر رہی تھیں کہ اگر ہم دونوں کی جدائی ہو گئی تو میں مصیبت میں پڑ جاؤں گی اور میرے بچے تباہ ہو جائیں گے، عین اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس بنا پر ہم نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ترجمہ حال کے صیغوں میں کیا جائے۔ یہ خاتون جن کے معاملہ میں آیات نازل ہوئی ہیں قبیلہ خَزرَج کی خَولہ بنت ثعلبہ تھیں، اور ان کے شوہر اَوْس بن صامِت انصاری، قبیلہ اَوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامِت کے بھائی تھے۔ ان کے ظہار کا قصہ آگے چل کر ہم تفصیل کے ساتھ نقل کریں گے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان صحابیہ کی فریاد کا بار گاہِ الٰہی میں مسموع ہونا اور فوراً ہم وہاں سے ان کی فریاد رسی کے لیے فرمان مبارک نازل ہو جانا ایک ایسا واقعہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ کرام میں ان کو ایک خاص قدر و منزلت حاصل ہو گئی تھی۔ ابن ای حاتم و بیہقی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک عورت ملی اور اس نے ان کو روکا۔ آپ فوراً رک گئے۔ سر جھکا کر دیر تک اس کی بات سنتے رہے اور جب تک اس نے بات ختم نہ کر لی آپ کھڑے رہے۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا امیر المومنین، آپ نے قریش کے سرداروں کو اس بڑھیا کے لیے اتنی دیر روکے رکھا۔ فرمایا جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہے۔ یہ وہ عورت ہے جس کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی۔ خدا کی قسم، اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتی تو میں کھڑا رہتا، بس نمازوں کے اوقات پر اس سے معرت کر دیتا۔ ابن عبدالبر نے اِستعیاب میں قتادہ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ خاتون راستہ میں حضرت عمرؓ کو ملیں تو آپ نے اِن کو سلام کیا۔ یہ سلام کا جواب دینے کے کہنے لگیں ’’اوہو، اے عمرؓ ایک وقت تھا جب میں نے تم کو بازار عکاظ میں دیکھا تھا۔ اس وقت تم عُمیر کہلاتے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمرؓ کہلائے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمرؓ کہلانے لگے۔ پھر ایک وقت آیا تم امیر المومنین کہے جانے لگے۔ ذرا رعیت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے اس کے لیے دور کا آدمی بھی قریبی رشتہ داری کی طرح ہوتا ہے، اور جو موت سے ڈرتا ہے اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اسی چیز کو کھودے گا جسے بچانا چاہتا ہے۔ ‘‘ اس پر جارودعَبْدِی، جو حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے، بولے، اے عورت، تونے امیر المومنینؓ کے ساتھ بہت زبان درازی کی۔ حضرت عمرؓ کو تو بدرجۂ اولیٰ سننی چاہیے۔ امام بخاریؒ نے بھی اپنی تاریخ میں اختصار کے ساتھ اس سے ملتا جلتا قصہ نقل کیا ہے |
1 | یہاں سننے سے محض سن لینا نہیں ہے بلکہ فریاد رسی کرنا ہے، جیسے ہم اُردو زبان میں کہتے ہیں اللہ نے دُعا سن لی اور اس سے مراد دعا قبول کر لینا ہوتا ہے |
Surah 40 : Ayat 20
وَٱللَّهُ يَقْضِى بِٱلْحَقِّۖ وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَقْضُونَ بِشَىْءٍۗ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ
اور اللہ ٹھیک ٹھیک بے لاگ فیصلہ کریگا رہے وہ جن کو (یہ مشرکین) اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں بلاشبہ اللہ ہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے1
1 | یعنی تمہارے معبودوں کی طرح وہ کوئی اندھا بہرا خدا نہیں ہے جسے کچھ پتہ نہ ہو کہ جس آدمی کے معاملے کو وہ فیصلہ کر رہا ہے اس کے کیا کرتوت تھے |
Surah 42 : Ayat 11
فَاطِرُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٲجًا وَمِنَ ٱلْأَنْعَـٰمِ أَزْوَٲجًاۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ
آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے، اور اسی طرح جانوروں میں بھی (اُنہی کے ہم جنس) جوڑے بنائے، اور اِس طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں1، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے2
2 | یعنی بیک وقت ساری کائنات میں ہر ایک کی سن رہا ہے اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے |
1 | اصل الفاظ ہیں لَیْسَ کَمِثْلَہٖ شَئ ءٌ ’’ کوئی چیز اس کے مانند جیسی نہیں ‘‘ا مفسرین اور اہل لغت میں س بعض کہتے ہیں کہ اس میں لفظ مثل پر کاف (حرف تشبیہ ) کا اضافہ محاورے کے طور پر کیا گیا ہے جس سے مقصود محض بات میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے ، اور عرب میں یہ طرز بیان رائج ہے۔ مثلاً شاعر کہتا ہے وقتلیٰ کمثل جُذوع النخل۔ اور ایک دوسرا شاعر کہتا ہے ما ان کمثلھم فی الناس من احد۔ بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں کہنے کے بجاۓ اس کے مثل جیسا کوئی نہیں کہتے میں مبلغہ ہے ، مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کا کوئی مثل ہوتا تو اس جیسا بھی کوئی نہ ہوتا ، کجا کہ خود اللہ جیسا کوئی ہو |
Surah 67 : Ayat 19
أَوَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى ٱلطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَـٰٓفَّـٰتٍ وَيَقْبِضْنَۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا ٱلرَّحْمَـٰنُۚ إِنَّهُۥ بِكُلِّ شَىْءِۭ بَصِيرٌ
کیا یہ لو گ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو1 وہی ہر چیز کا نگہبان ہے2
2 | یعنی کچھ پرندوں ہی پر موقوف نہیں، جو چیز بھی دنیا میں موجود ہے اللہ کی نگہبانی کی بدولت موجود ہے وہی ہر شے کے لیے وہ اسباب فراہم کر رہا ہے جو اس کے وجود کے لیے درکار ہیں، اور وہی اس بات کی نگرانی کر رہا ہے کہ اس کی پیدا کردہ کو مخلوق کو اس کی ضروریات بہم پہنچیں |
1 | یعنی ایک ایک پرندہ جو ہوا میں اڑ رہا ہے، خدائے رحمن کی حفاظت میں اڑ رہا ہے۔ اسی نے ہر پرندے کو وہ ساخت عطا فرمائی جس سے وہ اڑنے کے قابل ہوا۔ اسی نے ہر پرندے کو اڑنے کا طریقہ سکھایا۔ اسی نے ہوا کو ان قوانین کا پابند کیا جن کی بدولت ہوا سے زیادہ بھاری جسم رکھنے والی چیزوں کا اس میں اڑنا ممکن ہوا۔ اور وہی ہر اڑنے والے کو فضا میں تھامے ہوئے ہے، ورنہ جس وقت بھی اللہ اپنی حفاظت اس سے ہٹا لے وہ زمین پر آ رہے |
Surah 4 : Ayat 134
مَّن كَانَ يُرِيدُ ثَوَابَ ٱلدُّنْيَا فَعِندَ ٱللَّهِ ثَوَابُ ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ سَمِيعَۢا بَصِيرًا
جو شخص محض ثواب دنیا کا طالب ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے پاس ثواب دنیا بھی ہے اور ثواب آخرت بھی، اور اللہ سمیع و بصیر ہے1
1 | بالعموم قانونی احکام بیان کرنے کے بعد ، اور بالخصوص تمدّن و معاشرت کے اُن پہلووں کی اصلاح پر زور دینے کے بعد جن میں انسان اکثر ظلم کا ارتکاب کرتا رہا ہے، اللہ تعالٰی اِس قسم کے چند پُر اثر جملوں میں ایک مختصر وعظ ضرور فرمایا کرتا ہے اور اس سے مقصُود یہ ہوتا ہے کہ نفوس کو ان احکام کی پابندی پر آمادہ کیا جائے۔ اوپر چونکہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ انصاف اور حسنِ سلوک کی ہدایت کی گئی ہے لہٰذا اس کے بعد ضروری سمجھا گیا کہ چند باتیں اہلِ ایمان کے ذہن نشین کر دی جائیں: ایک یہ کہ تم کبھی اِس بھُلاوے میں نہ رہنا کہ کسی کی قسمت کا بنانا اور بگاڑنا تمہارے ہاتھ میں ہے ، اگر تم اُس سے ہاتھ کھینچ لو گے تو اس کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا۔ نہیں، تمہاری اور اس کی سب کی قسمتوں کا مالک اللہ ہے اور اللہ کے پاس اپنے کسی بندے یا بندی کی مدد کا ایک تم ہی واحد ذریعہ نہیں ہو۔ اس مالک زمین و آسمان کے ذرائع بے حد وسیع ہیں اور وہ اپنے ذرائع سے کام لینے کی حکمت بھی رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تمہیں اور تمہاری طرح پچھلے تمام انبیاء کی اُمتوں کو ہمیشہ یہی ہدایت کی جاتی رہی ہے کہ خدا ترسی کے ساتھ کام کرو۔ اس ہدایت کی پیروی میں تمہاری اپنی فلاح ہے ، خدا کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر تم اس کی خلاف ورزی کرو گے تو پچھلی تمام اُمتوں نے نافرمانیاں کر کے خدا کا کیا بگاڑ لیا ہے جو تم بگاڑ سکو گے۔ اُس فرمانروا ئے کائنات کو نہ پہلے کسی کی پروا تھی نہ اب تمہاری پروا ہے۔ اس کے امر سے انحراف کرو گے تو وہ تم کو ہٹا کر کسی دُوسری قوم کو سر بلند کر دے گا اور تمہارے ہٹ جانے سے اس کی سلطنت کی رونق میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ تیسرے یہ کہ خدا کے پاس دنیا کے فائدے بھی ہیں اور آخرت کے فائدے بھی ، عارضی اور وقتی فائدے بھی ہیں، پائیدار اور دائمی فائدے بھی۔ اب یہ تمہارے اپنے ظرف اور حوصلے اور ہمت کی بات ہے کہ تم اُس سے کس قسم کے فائدے چاہتے ہو۔ اگر تم محض دنیا کے چند روزہ فائدوں ہی پر ریجھتے ہو اور ان کی خاطر ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کر دینے کے لیے تیار ہو تو خدا یہ کچھ تم کو یہیں اور ابھی دے دے گا، مگر پھر آخرت کے ابدی فائدوں میں تمہارا کوئی حصّہ نہ رہے گا۔ دریا تو تمہاری کھیتی کو ابد تک سیراب کرنے کے لیے تیار ہے، مگر یہ تمہارے اپنے ظرف کی تنگی اور حوصلہ کی پستی ہے کہ صرف ایک فصل کی سیرابی کو ابدی خشک سالی کی قیمت پر خریدتے ہو۔ کچھ ظرف میں وسعت ہو تو اطاعت و بندگی کا وہ راستہ اختیار کر و جس سے دُنیا اور آخرت دونوں کے فائدے تمہارے حصّہ میں آئیں۔ آخر میں فرمایا اللہ سمیع و بصیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اندھا اور بہرا نہیں ہے کہ کسی شاہِ بے خبر کی طرح اندھا دُھند کام کرے اور اپنی عطا ؤ بخشش میں بھَلے اور بُرے کے درمیان کوئی تمیز نہ کرے۔ وہ پُوری با خبری کے ساتھ اپنی اِس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ ہر ایک کے ظرف اور حوصلے پر اس کی نگاہ ہے۔ ہر ایک کے اوصاف کو وہ جانتا ہے۔ اُسے خوب معلوم ہے کہ تم میں سے کون کس راہ میں اپنی محنتیں اور کوششیں صرف کر راہ ہے۔ تم اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے ان بخششوں کی اُمید نہیں کر سکتے جو اس نے صرف فرماں برداری ہی کے لیے مخصُوص کی ہیں |