Ayats Found (2)
Surah 21 : Ayat 91
وَٱلَّتِىٓ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَـٰهَا وَٱبْنَهَآ ءَايَةً لِّلْعَـٰلَمِينَ
اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی1 ہم نے اُس کے اندر اپنی روح سے پھونکا2 اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا3
3 | یعنی یہ دونوں ماں بیٹے خدایا خدائی میں شریک نہ تھے بلکہ خدا کی نشانوں میں سے ایک نشانی تھے ۔ ’’ نشانی ‘‘ وہ کس معنی میں تھے ، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ مریم ، حاشیہ 21 ۔ اور سورہ المونون ، حاشیہ 43 |
2 | حضرت آدمی علیہ السلام کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ : اِنِّیْ خَا لَقٌ م بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ ہ فَاِذَا سَوَّیْتْہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْ ا لَہٗ سَاجِدِیْنَ (ص ۔ آیات 71 ۔ 72) ’’ میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں ، پس (اے فرشتو) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا ‘‘۔ اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے ۔ سورہ نساء میں فرمایا : رَسُوْلُ اللہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰحَا اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحً مِّنْہُ، (آیت 171) ’’ اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا اور اس کی طرف سے ایک روح‘‘۔ اور سورہ تحریم میں ارشاد ہوا : وَمَرْ یَمَ ا بْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّ وْ حِنَا (آیت 12) اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اس میں اپنی روح سے ‘‘۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے ، چنانچہ سور آل عمران میں فرمایا : اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَاللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ، خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کَنْ فَیَکُوْنُ (آیت 59) ‘‘۔ یعسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ’’ ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتا ہے ‘‘۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقہ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ کسی کو براہ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو ’’ اپنی روح سے پھونکنے ‘‘ کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے ۔ اس روح کی نسبت اللہ کی طرف غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی شان رکھتا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء ، حواشی 212 ۔ 213 |
1 | مراد ہیں حضرت مریم علیہما السلام |
Surah 66 : Ayat 12
وَمَرْيَمَ ٱبْنَتَ عِمْرَٲنَ ٱلَّتِىٓ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَـٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِۦ وَكَانَتْ مِنَ ٱلْقَـٰنِتِينَ
اور عمران کی بیٹی1 مریمؑ کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی2، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی3، اور اس نے اپنے رب کے ارشادات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی4
4 | جس مقصد کے لیے ان تین قسم کی عورتوں کو مثال میں پیش کیا گیا ہے اس کی تشریح ہم اس سورہ کے دیباچے میں کرچکے ہیں، اس لیے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے |
3 | یعنی بغیر اس کے کہ ان کا کسی مرد سے تعلق ہوتا، اُن کے رحم میں اپنی طرف سے ایک جان ڈال دی۔ (تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،جلد اوّل،النساء،حواشی212-213۔جلد سوم،الانبیاء،حاشیہ89) |
2 | یہ یہودیوں کے اس الزام کی تردید ہے کہ ان کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معاذ اللہ کسی گناہ کانتیجہ تھی۔ سورۃ نسا ء،آیت 156 میں ان ظالموں کے اسی الزام کو بہتان عظیم قرار دیا گیا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن،جلد اول سورۃ النساء حاشیہ 190) |
1 | ہو سکتا ہے کہ حضرت مریمؑ کے والد ہی کا نام عمران ہو، یا ان کوعمران کی بیٹی اس لیے کہا گیا ہو کہ وہ آل عمران سے تھیں |